حافظ نعیم الرحمن کا پہلا امتحان

سیاسی حکومتوں کے پہلے 100 دنوں کا جائزہ اُن کی کارکردگی جانچنے کا ایک مقبول فیشن ایبل پیمانہ ہے۔ وفاقی حکومت کے پہلے سو دن مکمل ہو چکے ہیں۔ اس حکومت کے ایک دو مثبت اوربہت سے منفی پہلو سامنے آئے ہیں۔ مثبت پہلوؤں میں ڈالر ریٹ کا مستحکم ہونا‘ وقتی طور پر پٹرولیم کی قیمتوں میں معمولی سی کمی اور سٹاک مارکیٹ میں تیزی شامل ہے جبکہ منفی پہلوؤں کی ایک لامتناہی قطار ہے جس میں ہوشربا مہنگائی سے لے کر سیاسی عدم استحکام تک شامل ہے۔ جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے تو اس کے پاس حکومت تو نہیں مگر ''امارت‘‘ ضرور ہے۔ جماعت اسلامی کے نئے امیر حافظ نعیم الرحمن کو امارت کا حلف اٹھائے محض 70 روز گزرے ہیں ۔اس لیے ابھی اُن کی کارکردگی کا جائزہ قبل از وقت ہوگا۔
کالم میں ہم قارئین کو بتائیں گے کہ اگلے چند ماہ میں حافظ نعیم الرحمن صاحب کو کون سا امتحان درپیش ہے؟ ایک بات کا حافظ صاحب کو کماحقہٗ ادراک کر لینا چاہیے کہ جہاں تک جماعت اسلامی کے سابقہ امرا‘ قاضی حسین احمد‘ جناب سیّد منور حسن‘ محترام سراج الحق اور اب حافظ نعیم الرحمن کا تعلق ہے تو اُن سب کی جماعت اسلامی کے دیانت و امانت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی کرشماتی شخصیات کم و بیش ایک جیسی ہی ہیں۔ امارت کے حالیہ الیکشن میں ارکینِ جماعت کی اکثریت کی نگہ انتخاب اگر حافظ نعیم الرحمن صاحب پر جا کر ٹھہری ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ کراچی میں حافظ صاحب کی عملی سیاست میں شاندار پرفارمنس ہے۔
کبھی کراچی امن کا گہوارا ہوا کرتا تھا۔ یہ جماعت اسلامی کا شہر سمجھا جاتا تھا۔ پھر عروس البلاد کو کسی کی نظر لگ گئی‘ یوں پُرامن اور غریب پرور بستی مقتل میں بدل گئی۔ گزشتہ ایک دہائی کی شبانہ روز محنت اور خدمتِ خلق کے سچے جذبے نے حافظ نعیم الرحمن کی قیادت میں جماعت اسلامی کو ایک بار پھر شہرِ قائد کی بلدیہ عظمیٰ کے انتخابات میں زبردست کامیابی سے ہمکنار کیا۔ جنوری 2023ء کے بلدیاتی الیکشن میں بھی کئی غیر جانبدار رپورٹوں کے مطابق زبردست دھاندلی ہوئی تھی۔ میئر کارپوریشن کے انتخاب کے موقع پر کُل 246 عام سیٹوں کے بلدیاتی ایوان میں پیپلز پارٹی کے پاس 93‘ جماعت اسلامی کے پاس 86 اور پی ٹی آئی کو 40 یونین کونسلوں کی نمائندگی ملی تھی۔ اس موقع پر اگر کراچی کارپوریشن میں پی ٹی آئی کے نمائندے حافظ صاحب سے بے وفائی نہ کرتے تو وہ کراچی میئر منتخب ہو جاتے۔ 1979ء سے لے کر 2005ء تک‘ جماعت اسلامی تین بار بلدیہ عظمیٰ کراچی کی میئر رہی۔ پہلے دو بار عبدالستار افغانی اور پھر 2001ء میں نعمت اللہ ایڈووکیٹ میئر منتخب ہوئے تھے۔ دونوں صاحبان نے دیانت و امانت اور حسنِ کارکردگی کے وہ چراغ جلائے کہ جن کی روشنی ملک سے باہر بھی دور دور تک پھیل گئی اور عالمی اداروں نے بھی انہیں بہت سراہا۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک معزز چینی مہمان تشریف لائے تھے۔ اُن کے ساتھ مذاکرات میں حکومت‘ پی ٹی آئی کے علاوہ بھی ہر چھوٹی بڑی پارلیمانی سیاسی جماعت موجود تھی۔ وہاں صرف جماعت اسلامی کا کوئی وجود موجود نہیں تھا۔ اس روز مجھے شدت سے احساس ہوا کہ واقعی جماعت اسلامی پارلیمانی سیاست میں Irrelevant ہو چکی ہے۔ اس منظر نامے کو سامنے رکھیں تو حافظ نعیم الرحمن کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیا وہ جماعت اسلامی کو Irrelevant سے Relevant بنا پائیں گے‘ یا نہیں؟
پاکستان میں بلدیاتی اداروں کے حوالے سے نوٹ کرنے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہاں آمرانہ حکومتیں آتی ہیں تو وہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات باقاعدگی سے کراتی ہیں اور مقامی سطح کے حقیقی اختیارات انہیں منتقل کرتی ہیں ۔ جنرل ایوب خان‘ جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کا یہی طرزِ عمل تھا۔ جب یہاں سیاسی جماعتیں قومی سطح پر برسراقتدار آتی ہیں تو وہ بلدیاتی انتخابات رکوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں یونین کونسلوں کی حلقہ بندیوں کا عمل 30 جون سے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ا ور یکم ستمبر تک حد بندیاں اور حلقہ بندیوں کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی ہو جائے گا۔ پنجاب میں جب کبھی بلدیاتی الیکشن ہوا تو اُس میں جماعت اسلامی کی کارکردگی نمایاں تو نہیں مگر قابلِ قدر رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ الیکشن کمیشن حسبِ اعلان آئینی تقاضوں کے مطابق آزادانہ انتخابات کرانے میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔ نومنتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کا پہلا امتحان یہ ہے کہ کیا وہ پنجاب‘ بالخصوص لاہور میں جماعت اسلامی کو آنے والے بلدیاتی انتخابات میں کراچی جیسی بے مثال کامیابی دلانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں؟
جماعت اسلامی پنجاب کی ہر ضلع اور تحصیل ہیڈ کوارٹر میں مضبوط تنظیم موجود ہے اور علاقے کی بعض بااثر معزز شخصیات بھی جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مگر 2024ء کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی بشمول پنجاب ہر جگہ انتخابی کارکردگی مایوس کن تھی‘ سوائے کراچی کے۔کراچی میں مختلف ملکی و غیر ملکی رپورٹوں کے مطابق بڑی جارحانہ دھاندلی ہوئی ۔ اس دھاندلی میں بعض غیبی طاقتوں نے ایم کیو ایم کی سرعام طرفداری و جانبداری کی اور الیکشن پر مامور عملے سے بھی حسبِ منشا نتائج حاصل کئے اور یوں جماعت کے دعوے کے مطابق اُن کی واضح کامیابی سے ایم کیو ایم کی خالی جھولی کو بھر دیا گیا۔ فارم 45 سے فارم 47 تک والے میجک شو نے کراچی میں بطور خاص کمالات دکھائے۔ابھی تک پنجاب میں کہیں بھی جماعت اسلامی کے کارکنان رابطۂ عوام مہم چلاتے دکھائی نہیں دے رہے۔ جماعت اسلامی اس گھڑی تک پنجاب میں اپنی کوئی بلدیاتی انتخابی حکمت عملی بھی عوام کے سامنے نہیں لا سکی۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) کی وفاق اور پنجاب میں سروائیول جنگ لڑ رہی ہے۔ پی ٹی آئی اپنے لیڈر کی رہائی کیلئے تحریک چلانے کے بارے میں گو مگو کا شکار ہے۔ جماعت اسلامی کیلئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ گلی گلی‘ کوچے کوچے اور قریے قریے عوام سے رابطہ کرے۔ یاس کو آس میں بدلے‘ ناامیدی کو صبحِ امید سے آشنا کرے۔ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی کی دیانت و امانت اور جرأت مندانہ کردار کی بنا پرانہیں مین سٹریم سیاست میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن صاحب کا یہی پہلا بڑا امتحان ہے کہ کیا وہ عوام کو یہ اعتماد دلا سکیں گے کہ اب جماعت کے امیدوار کو ووٹ دے کر اُن کا ووٹ ضائع نہیں ہوگا بلکہ وہ ایک وننگ امیدوار کے بیلٹ پیپر پر ٹھپہ لگائیں گے۔ جماعت اسلامی کی فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق حافظ نعیم الرحمن صاحب نے جماعت کے الیکشن سیل کی تشکیلِ نو کی ہے۔ جناب لیاقت بلوچ سیل کے صدر اور ڈاکٹر فرید پراچہ سیکرٹری جنرل ہوں گے۔ دونوں تجربہ کار پارلیمنٹیرینز ہیں اور انتخابی سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ہماری رائے کے مطابق جماعت اسلامی کو اگلے چھ سات ماہ کیلئے دھرنوں اور احتجاجوں کی سیاست سے کسی حد تک کنارہ کش ہو کر بلدیاتی انتخابات میں نمایاں کامیابی کو اپنا اوّلیں ہدف قرار دینا چاہئے۔ جماعت کو اپنے ابتدائی ادوار کی طرح قوم کی فکری و سیاسی رہنمائی کا فریضہ بھی اپنے ذمہ لینا چاہئے۔ہم ایک بار پھر حافظ نعیم الرحمن کو یاد دلاتے ہیں کہ پنجاب کا بلدیاتی انتخاب اُن کی امارت کا پہلا بڑا امتحان ہے۔ جماعت کے لاکھوں کارکنوں اور ہمدردوں نے حافظ صاحب سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ اُنکے پاس اس امتحان کی تیاری کیلئے چھ سات ماہ کی مہلت ہے۔ دیکھئے حافظ صاحب اس امتحان میں کتنی اور کیسی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں