حق گوئی: امامِ عالی مقامؓ کا عظیم کارنامہ

حق گوئی نہ کل آسان تھی نہ آج ہے۔ عالمِ عرب کی فوجی آمریتوں اور خاندانی بادشاہتوں میں آج بھی کلمۂ حق کہنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا محرم الحرام 61ہجری بمطابق اکتوبر 680عیسوی میں تھا۔ جہاں تک تیسری دنیا کے ہماری جیسے نیم جمہوری ملکوں کا تعلق ہے وہاں بھی حق گوئی کا فریضہ جان ہتھیلی پر رکھ کر ہی ادا کیا جاتا ہے اور جان گنوانا بھی پڑتی ہے۔ امریکہ اور یورپ جیسے نام نہاد جمہوری ملکوں میں بھی حق گوئی پر مصلحت کیشی غالب ہے۔ غزہ کے مظلوموں کو رات دن بے دردی سے موت کے گھاٹ اُتارا جا رہا ہے اور یہ جمہوریت کے چیمپئن مظلوموں کے ساتھ نہیں‘ ظالم اسرائیل کے ساتھ ہیں۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ امام عالی مقامؓ نے میدانِ کربلا میں بھوکے پیاسے رہ کر اپنی اور اپنے خاندان کے دیگر کئی چھوٹے بڑے افراد کی گردنیں کیوں کٹوائیں‘ اپنے جانثاروں کی قربانی کیوں دی؟ ان تمام نفوس کی کل تعداد صرف 72تھی۔ ایک طرف دودھ پیتے بچے سے لے کر بڑوں تک مردوں کی کل تعداد 72تھی اور دوسری طرف یزیدی فوج کی تعداد 30ہزار تھی۔ اپنے آپ کو مسلمان کہنے والی یہ یزیدی فوج نہ خدا کی کوئی بات سننے اور نہ ہی جنابِ مصطفی ﷺ کے کسی ارشاد کو ماننے پر تیار تھی۔ ایسے مواقع پر بڑے بڑے جرنیل ہتھیار ڈال دیتے ہیں مگر نواسۂ رسول اصول کی غیرت کے بارے میں کسی سودا بازی پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ انہوں نے دل و جان سے عزیمت کے راستے کو فوقیت دی۔ وہ کیا اصول تھا جس کی خاطر جناب امام عالی مقامؓ نے میدانِ کربلا میں اتنی عظیم قربانی دی تھی؟ یزید کسی بھی اعتبار سے خلافت کا مستحق نہ تھا۔ وہ ظالم تھا اور خانوادۂ رسول سے بزورِ شمشیر اپنی خلافت پر مہرِ تصدیق ثبت کروانا چاہتا تھا۔ یزیدی فاشزم حضرت امام حسینؓ کو اپنے سامنے سرنگوں کرنا چاہتا تھا۔ جابر و ظالم حاکم چاہتا تھا کہ خونِ پیغمبر سے روشن خانوادۂ رسول کے چراغوں کو میدانِ کربلا میں گل کر دیا جائے مگر یزید کو یہ معلوم نہ تھا کہ جس شمع کو بجھانے کیلئے اس نے میدانِ کربلا میں ٹڈی دَل لشکر بھیجا تھا‘ وہ شمع مدھم پڑنے کے بجائے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ روشن تر ہو رہی ہے اور ایک دنیا کو منور کر رہی ہے۔حضرت امام حسینؓ ہر اُس شخص کی آنکھ کا تارا ہیں جو ظالم سے نفرت کرتا اور مظلوم سے ہمدردی رکھتا ہے۔ اسی لیے جوش ملیح آبادی نے نہایت پُرجوش انداز میں کہا تھا:
کیا صرف مسلمان کے پیارے ہیں حسینؓ
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسینؓ
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
حسنین کریمین کے نانا کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ بہترین جہاد ظالم و جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔ ازل سے تا امروز ظلم ہوتا چلا آ رہا ہے۔ کہیں زیادہ‘ کہیں کم۔ کہیں حکومتیں عوام پر ظلم ڈھا رہی ہیں‘ کہیں طاقتوروں نے کمزوروں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ کہیں اثر و رسوخ رکھنے والوں کو من چاہا ''انصاف‘‘ ملتا ہے اور کہیں بے وسیلہ لوگوں کی کمر پر ناانصافی کے کوڑے برسائے جاتے ہیں۔ کہیں طاقتور اپنے سے کمزور ملکوں پر قیامتیں ڈھاتے ہیں۔ کہیں طاقت کے نشے میں چُور ممالک ہلاکت خیز اسلحے سے محروم ملکوں پر حملے کرتے ہیں۔ظالم اور مظلوم کی مثالوں سے یہ دنیا بھری پڑی ہے۔ غاصب اسرائیل نہتے اور کمزور فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑرہا ہے اور اُن پر توپوں‘ ٹینکوں اور بمبار طیاروں سے حملے کررہا ہے۔ مگر فلسطینیوں کی امتیازی شان یہ ہے کہ وہ اسوۂ حسینی کے پیروکار ہیں۔ وہ غاصب ریاست کے آگے سرنڈر کرنے کے بجائے سینہ سپر ہونے کو طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں۔
پیغامِ حسینؓ یہ ہے کہ طاقت حق نہیں‘ حق طاقت ہے۔ یزید نے طاقت کے زعم میں حق اور سچ کے نام لیواؤں پر یہ سوچ کر حملہ کروایا تھا کہ نعوذ باللہ وہ ان کا نام و نشان مٹا دے گا۔ وہ سمجھتا تھا کہ خانوادۂ ہاشمیہ کا یہ عظیم چراغ بجھا کر وہ دنیا میں اپنا ڈنکا بجائے گا۔ لوگ اس کی مدح سرائی کریں گے‘ اُس کے گن گائیں گے اور اسی کے ساتھ اپنی اُمیدیں وابستہ کریں گے۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ خانوادۂ رسول کا یہ جری چشم و چراغ پیغام مصطفیﷺ کی سربلندی کے لیے جان تو قربان کر سکتا تھا مگر میدانِ جنگ سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔
اس زمانے کے مشہور شاعر فرزوق نے قافلۂ حسین کو باور کرایا تھا کہ اہلِ کوفہ کے دل تو حسینؓ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں کے درمیان کشت و خون خاندانِ نبوت کا شیوہ نہ تھا۔ بعض لوگ نظامِ خلافت کے بارے میں اپنا مختلف نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔ اگر ان کی بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے لے کر امیر معاویہؓ تک 50برس کے دوران خانوادۂ رسولﷺ کے کسی فرد نے جنگ و جدل کا علم بلند نہ کیا تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پھر امام عالی مقامؓ نے یہ راستہ کیوں اختیار کیا؟ حضرت امام حسینؓ کی عظیم قربانی تخت و تاج یا ذاتی استحقاق منوانے کے لیے تھی؟
نہیں‘ ایسا ہرگز نہ تھا۔ خلافت کی گاڑی 40برس تک ایک لائن پر چل رہی تھی مگر امیر معاویہ کے بعد یزید کے تخت نشین ہونے پر یہ گاڑی اس پٹڑی سے اُتر گئی تھی۔ یہ ایک بنیادی نوعیت کا نقطۂ انحراف تھا کہ نظامِ خلافت میں ریاستِ مدینہ کے باشندے کسی حاکم کی نہیں‘ خدا کی رعیت ہیں۔ ملوکیت میں عوام کو خدا کی نہیں‘ بادشاہ کی رعیت سمجھا جاتا ہے۔ بادشاہ خود کو مطلق العنان سمجھتا ہے۔ اسلامی ریاست کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ خلیفہ تقویٰ کی معراج پر فائز ہو۔ وہ خدا سے ڈرتا ہو۔ ہر لمحہ اس کے دل میں یہ حقیقت موجزن ہوتی ہو کہ وہ ایک طرف خالقِ دو جہاں کے سامنے اور دوسری طرف خلقِ خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اسلامی شوریٰ کی خلافت کے قریب ہے‘ مگر یہاں بھی گزشتہ 70برس سے کبھی براہِ راست اور کبھی بالواسطہ آمریت قائم ہے۔
اسلامی خلافت کا دوسرا ستون مشاورت ہے۔ خلفائے راشدین خوفِ خدا سے دلوں کو آباد کر کے اُن لوگوں کو اپنا مشیر مقرر کیا کرتے تھے جو حق گوئی سے کام لیتے ہوئے خدا کی خوشنودی کو مقدم رکھا کرتے تھے۔ وہ سچا مشورہ دیتے جو چاہے خلیفہ کی رائے کے برعکس ہو اور اس کی منشا کے خلاف ہی کیوں نہ ہوتا۔ جبکہ ملوکیت میں بادشاہ اپنے استبداد اور مطلق العنانیت کے لیے ایسے لوگوں کو مشیر مقرر کیا کرتے تھے جو حاکمِ وقت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوں‘ جو اُس کی من مانی کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے نہ ہوں۔ اسی طرح خلافت میں اظہارِ رائے کی آزادی ہوتی ہے جبکہ بادشاہت اور آمریت میں آزادیٔ رائے کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔
یزید میں تقویٰ تھا نہ خدا خوفی تھی اس کے مشاغل اسلامی تعلیمات کے منافی تھے۔ یزید چاہتا تھا کہ امام حسینؓ اس کی ہاں میں ہاں ملائیں‘ اس کے تابع فرمان ہو جائیں۔ وہ چاہتا تھا کہ امام عالی مقامؓ اس کے سامنے سر جھکا دیں۔ مگر خانوادۂ رسول کے اس چشم و چراغ نے سر جھکانے کی بجائے سر کٹوانے کو ترجیح دی۔ حضرت امام حسینؓ نے اپنے نانا حضرت محمد مصطفیﷺ کا یہ قول رہتی دنیا تک ثابت کر دیا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں