جوانی کا دور بیت جاتا ہے تو اس کی یادیں انسان کو تڑپاتی رہتی ہیں۔ کبھی تمنا ہوتی ہے کہ وہ دور لوٹ آئے‘ مگر یہ تو ناممکن ہے۔ میر انیس نے کیا خوب کہا ہے:
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
مجھے مولانا مودودیؒ نے 1973ء کے آخر میں حکم دیا کہ میں ایک سال کے لیے کینیا چلا جاؤں اور وہاں اسلامک فاؤنڈیشن کے تحت قائم اداروں کی نگرانی کروں۔ میں جنوری 1974ء میں نیروبی پہنچا اور ایک سال کی مدت ہر سال بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ 12 سال تک وہاں بطور ڈائریکٹر اسلامک فاؤنڈیشن ذمہ داریاں ادا کرنا پڑیں۔ اس عرصے میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور اپنی جوانی کا دور افریقہ کے جنگلوں‘ صحراؤں اور پہاڑوں میں گزار دیا۔ میری ڈائری میں اس دور کے بہت سے واقعات محفوظ ہیں۔
میرے کینیا آنے کے کچھ عرصے بعد پاکستان سے اسلامی جمعیت طلبہ سے فارغ ہونے والے کچھ نوجوان ساتھیوں نے بھی ارادہ کیا کہ افریقہ کے اس ملک میں جائیں۔ مجھے معلوم ہوا تو میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس دھرتی پر کام کرنا آسان نہیں‘ بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات جان خطرے میں ڈالنا پڑتی ہے۔ ان ساتھیوں میں سے ارادہ تو کئی ایک نے کیا تھا‘ مگر دو دوست جناب سید احسان اللہ وقاص اور محترم سمیع اللہ بٹ مرحوم نیروبی پہنچے۔ میں نے ان کا استقبال کیا اور ان کو دو مختلف سنٹروں میں ذمہ داریاں ادا کرنے کی درخواست کی۔ سمیع اللہ بٹ صاحب کا مچاکوس میں اور وقاص صاحب کا اسیولو میں تقرر کیا گیا۔دونوں ساتھی بہت باہمت تھے‘ مگر ایک سال بھی وہاں نہ گزار سکے اور چھ ماہ بعد واپس آ گئے۔ احسان اللہ وقاص صاحب وہاں سے آنے کے بعد سعودی عرب چلے گئے جہاں بہت اچھا وقت گزارا۔ اللہ تعالیٰ نے معاش میں خاصی برکت عطا فرمائی۔ سمیع اللہ صاحب نے واپسی پر لاہور میں کاغذ کا بزنس شروع کیا اور اسے کمال تک پہنچایا۔ کئی سال کے بعد جناب ظفر جمال بلوچ صاحب بھی کینیا تشریف لائے۔ آپ نے بھی اپنی خدمات فاؤنڈیشن کو پیش کیں۔ چنانچہ آپ کا تقرر ممباسہ میں ہوا۔ وہ غالباً ڈیڑھ سال یا کم و بیش عرصہ ہمارے ساتھ رہے۔ انہوں نے ممباسہ میں ایک معزز سواحلی خاندان میں شادی کی۔ جب مقامی دوستوں کی وساطت سے انہوں نے رشتے کی بات کی تو لڑکی کے خاندان والوں نے میرے بارے میں کہا کہ جب تک وہ ہمارے پاس نہ آئے‘ ہم رشتہ نہیں دے سکتے۔ کہانی تو لمبی ہے‘ لیکن بہرحال میں ممباسہ گیا اور رشتہ طے ہو گیا۔ نکاح کی تقریب کیلئے تاریخ طے پا گئی اور میں نے نیروبی سے ممباسہ جا کر نکاح پڑھایا۔ یوں یہ شادی ہوئی اور کچھ عرصہ میاں بیوی خوش و خرم رہے۔ جب ظفر جمال بلوچ صاحب نے پاکستان واپس آنے کا ارادہ کیا تو خیال یہی تھا کہ چھٹی گزار کر آ جائیں گے‘ مگر یہاں آ کر ان کا ارادہ بدل گیا۔ آخر انتظار کے بعد ان کی وفا شعار بیوی نے ممباسہ سے پاکستان کا سفر کیا اور ان کے پاس جھنگ میں آئیں‘ مگر بدقسمتی سے بلوچ صاحب اور ان کی کچھ عرصہ بعد علیحدگی ہو گئی اور وہ دلبرداشتہ ہو کر واپس چلی گئیں۔ واپس جا کر دوبارہ ان کی ایک اچھی جگہ شادی ہوئی اور اللہ نے ان کو بچوں سے نوازا۔ کئی دیگر تحریکی دوستوں نے بھی پاکستان سے کینیا آ کر مختلف خدمات سرانجام دیں۔ کینیا میں قیام کے دوران مقامی طور پر بھی کئی مرد و خواتین عیسائیت چھوڑ کر یا اپنا مقامی مذہب بت پرستی (Paganism) ترک کرکے مسلمان ہوئے۔ اسی طرح دیگر مختلف ملکوں میں جب دورہ ہوتا تو کبھی اکا دکا اور کبھی بڑی تعداد میں بیک وقت غیرمسلم داخلِ اسلام ہوتے۔ ایسے ہر موقع پر مسلم مخیر حضرات نومسلم مرد و خواتین کی تالیفِ قلب کے لیے کھلے دل سے خرچ کرتے۔ ہمارے اسلامی مراکز جو مختلف ملکوں میں وہاں کی اسلامی تنظیموں کے تحت قائم تھے‘ ان نومسلم نوجوانوں اور مرد و خواتین کی تربیت کا حسبِ استطاعت اہتمام کرتے۔ ایک مرتبہ زیمبیا کے شہر لنڈازی (Lundazi) میں خصوصی طور پر ایک تقریب کا اہتمام ہوا۔ وہاں ہمارے دوست پروفیسر محمد عثمان انگوی دارالاافتا ء(سعودی عرب) کی طرف سے بطور مبلغ و مدرس کام کرتے تھے۔
عثمان انگوی صاحب کے علاوہ مختلف دوروں کے دوران مقامی آبادی کے کئی ہندی الاصل کاروباری مسلمانوں سے بھی دوستانہ تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ ایک بہت بڑے تاجر‘ میری یادداشت کے مطابق موصوف کا نام فقیر ملّا تھا‘ کے ساتھ مل کر عثمان صاحب نے تبلیغ کا بہت کام کیا۔ عثمان صاحب نے مجھے دعوت دی کہ یہاں کے ساتھیوں کی کاوشوں سے سینکڑوں کی تعداد میں مقامی لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہیں‘ ان کی خواہش ہے کہ اس موقع پر آپ بطور مہمان خصوصی شرکت کریں۔ میں چونکہ سال میں کم از کم ایک بار زیمبیا اور دیگر ممالک میں جایا کرتا تھا‘ اس لیے یہ سفر کوئی مشکل نہیں تھا۔ حسبِ پروگرام میں وہاں گیا اور آج تک وہ منظر یاد ہے جب سینکڑوں مرد و خواتین‘ نوجوان اور بچے جمع تھے اور ان کو دو تین بار بلند آواز میں کلمہ پڑھایا گیا‘ اس کے معنی انگریزی اور مقامی زبان میں سمجھائے گئے اور ان کے حق میں استقامت کی دعا کی گئی۔ برادرم عثمان انگوی پروفیسر رشید انگوی مرحوم کے بڑے بھائی ہیں۔
اسلامک فاؤنڈیشن کے ادارے جن شہروں میں چل رہے تھے ان میں سب سے اہم ادارہ اسیولو میں تھا۔ اسیولو نیروبی سے شمال مشرق کی جانب 273 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہر ہے۔ یہاں اسلامی مدرسہ‘ دارالایتام‘ میڈیکل کلینک اور مرکزی جامع مسجد اسلامک فاؤنڈیشن کے سنٹر میں قائم تھی۔ سب سے زیادہ دورے اسی مرکز کے ہوتے تھے۔ یہاں کے مہتمم شیخ محمد سلفی تھے جو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فارغ التحصیل اور کراچی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا جمعیت غربائے اہلِ حدیث میں اہم مقام ہے۔ ان کے بڑے بھائی مولانا عبدالرحمن سلفی صدر جمعیت ہیں۔ ان کے ساتھ اسیولو مرکز میں اساتذہ اور دیگر عملہ کی تعداد تقریباً 25 تھی۔
اسلامک مرکز کی جامع مسجد اسیولو میں سب سے بڑی مسجد تھی۔ یہاں جمعہ کی خطابت کے فرائض ایک بہت عظیم مقامی عالم دین شیخ عزّالدین مرحوم اعزازی طور پر ادا کیا کرتے تھے۔ مرحوم کینیا بھر کے علما کے درمیان بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ محترم میاں طفیل محمدؒ کے دورۂ اسیولو کے دوران شیخ کی میاں طفیل سے ملاقات ہوئی۔ شیخ بعد میں جب بھی ملتے تو کہتے ''وہ مہمان تمہاری جماعت کا امیر‘ ولی اللہ تھا‘ جسے دیکھتے ہی دل گواہی دیتا تھا کہ یہ بندہ محض اللہ کی رضا کا طلبگار ہے۔ میں نے اسے جس طرح نماز پڑھتے دیکھا ویسے مجھے کبھی کوئی نظر نہیں آیا‘‘۔
اسی ادارے میں ہمارے دوروں کے دوران ڈنمارک کے ایک مسیحی مشنری مسٹر پریبن بوگارڈ سے ملاقات ہوئی اور خوش قسمتی سے چند ملاقاتوں کے بعد انہوں نے اسلام قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اس دوران انہوں نے دوران مولانا مودودیؒ کا کتابچہ ''شہادتِ حق‘‘ بزبان انگریزی کئی بار پڑھا تھا اور اس کے بعد رسالہ ''دینیات‘‘ کا مطالعہ بھی کر لیا تھا۔ ایک تقریب میں مسٹر پریبن نے کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ میں نے اپنے کسی کالم میں موصوف کے قبولِ اسلام کے واقعے کو کافی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ یہاں تو بس اشارات کرنے ہی کا موقع ہے۔ اس واقعہ سے اسیولو کے تمام مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مسٹر پریبن کا اسلامی نام عبدالرحمن رکھا گیا۔ (جاری)