جج اور وہ بھی کسی بڑی عدالت کا جج ہوتے ہوئے‘ فرصت وفراغت کے ایسے لمحے کہاں کہ باقاعدگی سے روزنامچہ لکھا جائے۔ مجھے تو کبھی ایسی یکسوئی میسّر نہ آئی کہ ٹِک کر اپنی یادداشتیں مرتب کرتا اور اپنے اہلِ وطن کو آگاہ کرتا کہ مجھ پر کیسے کیسے کڑے وقت پڑے لیکن میں نے کبھی اپنے ''ضمیر‘‘ سے روگردانی نہیں کی۔ ہمیشہ وہی فیصلہ دیا جس کی آواز میرے دل کے کسی عمیق گوشے سے اٹھی۔ ہر جج کی طرح میں نے بھی وہ حلف اٹھا رکھا ہے جو آئینِ پاکستان میں درج ہے۔ لیکن میں نے ایک حلف اپنے آپ سے بھی اٹھا رکھا ہے کہ ہمیشہ وہی کروں گا جو میرا دل چاہے گا۔ ایک کالم نگار آئے روز یاد دلاتا ہے کہ ہم نے اللہ کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھا رکھا ہے کہ ہر حال میں اپنا فیصلہ ''بلا خوف و رعایت اور بلا رغبت وعناد‘‘ کریں گے۔ بے شک میں نے بھی یہ حلف اٹھا رکھا ہے لیکن جس طرح ہمیں آئین کی تشریح اور تعبیر کا اختیار حاصل ہے اُسی طرح ہم آئینی حلف کی تشریح کا حق بھی رکھتے ہیں۔ میرے نزدیک آئینی حلف کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ جج‘ ہر فیصلہ اپنی مرضی‘ اپنی خواہش‘ اپنی صوابدید‘ اپنی آرزو‘ اپنی افتادِ طبع اور اپنے ہدف کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کرے اور اس مقصدِ بلند کے لیے کسی ''خوف‘ رعایت‘ رغبت اور عناد‘‘ کو خاطر میں نہ لائے۔ کم از کم میں نے اسی اصول کو ہمیشہ ہر چیز پر مقدم اور افضل رکھا۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ میں نے اپنے اس اصول یا نظریے کو نہ صرف آئینی حلف بلکہ خود آئین سے بھی کہیں زیادہ موقر‘ معتبر اور مقدس جانا۔ آپ جانتے ہیں ہمارے ہاں آئین‘ آتی جاتی چیز ہے۔ کبھی منسوخ ہو جاتا ہے‘ کبھی معطّل‘ کبھی زندہ درگور اور کبھی مفلوج۔ اسی طرح حلف بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے پُرکھوں نے‘ جو میرے لیے عدل وانصاف کے عظیم شارحین ہی نہیں نہایت بلند قامت فلسفی تھے‘ ہمیں یہی درسِ حکمت دیا ہے کہ آئین کے ساتھ نہیں‘ وقت کے ساتھ چلو‘ فرمانروایانِ عصرِ حاضر کے ساتھ چلو‘ اصل آئین وہ ہے جو آئین کو غارت کرنے والے ڈکٹیٹر کے کُنجِ لب سے پھوٹتا ہے۔
لوگ ہمارے عظیم پیشوا‘ جسٹس منیر کے بارے میں جو جی چاہے کہتے پھریں‘ انہوں نے (خدا اُنہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) رہتی دنیا تک کے لیے ہمیں ''نظریۂ ضرورت‘‘ کا ایسا درخشاں فارمولا عطا فرمایا جو آنے والے زمانوں میں ہمارے لیے ہر نوع کی مشکل کشائی کی طلسمی کلید بن گیا۔ نتیجہ یہ کہ جب بھی کسی ڈکٹیٹر نے آئین کو اپنے بھاری بوٹوں تلے روندا‘ ہمارے پیشوایانِ عدل نے بہ صد سہولت اُسی آفاقی ''نظریۂ ضرورت‘‘ کا سہارا لیا اور اپنا راستہ ہموار کر لیا۔ جسٹس سعید الزمان صدیقی اب اس دنیا میں نہیں رہے‘ تقاضائے وقت کو نہ پہچان سکے اور خاموشی سے گھر چلے گئے۔ صد شکر کہ اُس وقت‘ جسٹس منیر کی روح اقدس‘ جسٹس ارشاد حسن خان کے قفسِ عنصری میں حلول کر گئی۔ اُنہوں نے نہ صرف مشرف کے اقدام کو جائز قرار دے دیا بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ''مشرف جب چاہیں‘ جس لمحے چاہیں‘ جس بھی کیفیت میں ہوں‘ جو بھی کہیں‘ وہی آئین ٹھہرے گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ جسٹس ارشاد حسن خان کو عمرِ خضر عطا فرمائے۔ اُن کی تصنیفِ عظیم ''ارشاد نامہ‘‘ میرے لیے ہی نہیں‘ میرے تمام ہم مسلک جج صاحبان کے لیے گراں قدر ''صحیفۂ عدل وانصاف‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ یقین جانیے اس ''عظیم صحیفے‘‘ کے زیر اثر‘ سنہری گوٹے والی سیاہ ریشمی عبا پہنے آبنوسی کرسی پر بیٹھتے ہی‘ آئین کے سارے نوشتے حرفِ نامعتبر کی طرح تحلیل ہو جاتے ہیں‘ آئینی حلف بے نام سا ہیولا بن کر کمرے کے نیم تاریک گوشوں میں گم ہو جاتا ہے‘ جسٹس منیر سے لے کر جسٹس ارشاد حسن خان بلکہ اُن کے بعد آنے والے عہدِ حاضر کے بعض جید منصفینِ کرام کے تابندہ ودرخشندہ فیصلے میرے ذہن کی لوح پر ستاروں کی طرح دمکنے لگتے ہیں اور کہکشاں کا ایک جادہ سا بن جاتا ہے جس پر چلتے ہوئے میں مطلوبہ فیصلے کی منزلِ مقصود تک پہنچ جاتا ہوں۔
آئین میں درج نوشتوں یا قانون کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہوتا۔ دو جمع دو چار جیسا یہ کام تو زیریں عدالت میں بیٹھا نوآموز مجسٹریٹ بھی کرلیتا ہے۔ کمالِ فن یہ ہے کہ کس طرح ایسا فیصلہ تخلیق کیا جائے جس کی اجازت نہ آئین دیتا ہو نہ قانون؟ یہ لکیر کے فقیر کسی عام جج کے بس کی بات نہیں۔ ''اُنہی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد‘‘۔ جو آئین کے بکھیڑوں یا قانون کے جھمیلوں میں پڑ گیا‘ وہ اپنے آپ سے بھی گیا اور اپنی آنے والی نسلوں کے مقدر پر بھی پانی پھیر گیا۔
پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے نازک مراحل میں کارکنانِ قضا وقدر نے میرا ہاتھ تھاما۔ مجھے آئین اور قانون کے گھنے دلدلی جنگلوں سے نکال کر سرخرو کیا۔ ویسے تو میرے نامۂ اعمال میں ایسے درجنوں مقدمات ہیں لیکن دو تین تو ابھی قوم کے دل ودماغ میں تازہ ہوں گے۔ میں پنجاب کے ایک سی پی او غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کا مقدمہ سننے والے بینچ میں شامل تھا کہ رات کے پچھلے پہر کسی نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن کرانے کا قضیہ چھیڑ دو۔ یہ 2022ء دسمبر کا ذکر ہے۔ میں نے ڈوگر سے دور کا تعلق واسطہ نہ رکھنے والے انتخابات کا مسئلہ اٹھایا اور اس معاملے کا جائزہ لینے کے لیے چیف جسٹس صاحب سے بینچ بنانے کی درخواست کر دی۔ مجھ پر قدرت کی خصوصی مہربانی تھی کہ مجھے یہ مقدمہ سننے والے بڑے بینچ میں بھی شمولیت کا اعزاز نصیب ہوا۔ بعد کی کہانی آپ کے سامنے ہے۔ مجھ ناچیز پر دست قدرت کی خصوصی شفقت ومہربانی کا ایک اور کرشمہ آئین کے آرٹیکل 63A کے بارے میں صدر عارف علوی کا ریفرنس سننے والے بینچ میں شمولیت تھی۔ ہم نے بہت سوچا‘ رات رات بھر مشاورت کی کہ اس شق سے کس طرح ایسے معنی کشید کیے جائیں کہ پنجاب میں حمزہ شریف کی حکومت ختم ہو جائے اور پی ٹی آئی کو اقتدار مل جائے۔ آئین لکھنے والوں نے ہمارے راستے میں فولادی دیوار کھڑی کر رکھی تھی۔ لیکن ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح میرے دماغ میں لپکا۔ میں نے دوسرے رفقا سے مشاورت کی اور آئین میں اپنی مرضی کا جملہ ڈال کر اپنا ہدف پا لیا۔ چودھری پرویز الٰہی نے رات کی ڈوبتی ساعتوں میں صدر علوی سے وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھایا تو تہجد کا پہر آن لگا تھا۔ میں اُسی وقت سجدے میں گر گیا۔ آنسوئوں سے جائے نماز تر ہو گئی۔ 12 جولائی 2024ء کا فیصلہ بھی میرے ''ارشاد نامۂ عدل‘‘ کا ایک زریں ورق ہے۔ اس فیصلے پر آج تک تنقید ہو رہی ہے۔ بھلے ہوتی رہے۔ میں آئین‘ قانون یا عوام کو نہیں‘ صرف اپنے آپ کو جوابدہ ہوں۔
اپنے تابناک ماضی پر نگاہ ڈالتے ہوئے‘ جہاں میری روح نوشگفتہ گلابوں کی خوشبو سے مہکنے لگتی ہے‘ وہاں ایک دُکھ نے میری راتیں بے خواب کر رکھی ہیں ''کیا آئینی بینچ تشکیل پا جانے کے بعد میں اپنی خداداد دانش وبصیرت کا مظاہرہ نہیں کر پائوں گا؟ کیا پاکستان کے عوام‘ 63(A) اور 12 جولائی جیسے فیصلوں سے محروم ہو جائیں گے؟ مجھے اپنی ذات کا کچھ غم نہیں۔ صرف اس احساس نے کربِ مسلسل کی صلیب پر لٹکا رکھا ہے کہ کیا یہ زندہ و بیدار قوم آئین وقانون کے کھونٹے سے باندھ دی جائے گی؟