فہمی بدایونی کاخیال دل میں لاؤں تو مجھے بلغاریہ میں پیدا ہونے والا اور بعد ازاں منحرف ہوکر اپنے آبائی وطن ترکیہ میں آنے والا نعیم سلیمان اوغلو یاد آ جاتا ہے۔ ویسے تو نعیم سلیمان اوغلو سے ملتان کا نعیم سلمان بھی یاد آ جاتا ہے مگر فی الوقت ترک نژاد بلغارین ویٹ لفٹر نعیم سلیمان اوغلو پر ہی بات ہو جائے تو بہتر ہے۔ محض چار فٹ دس انچ قد کا مالک نعیم سلیمان اوغلو 23 جنوری 1967ء کو بلغاریہ میں پیدا ہوا۔ 1980ء میں بلغاریہ نے ملک میں بسنے والی دیگر اقلیتی قومیتوں کیلئے قانون منظور کیا کہ وہ اپنے آبائی ناموں سے دستبردار ہو کر بلغارین نام اختیار کریں۔ نعیم سلیمان اوغلو کا نام حکومت کے حکم پر تبدیل کر کے ناؤم شلامانوف رکھ دیا گیا۔ اس حکم نامے کے تحت بیس لاکھ لوگوں کے نام زبردستی تبدیل کیے گئے۔نعیم کو اس زبردستی کی تبدیلی پر شدید صدمہ ہوا اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے آبائی وطن ترکیہ چلا جائے گا۔ اس نے اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران اس بات کا ذکر ترکیہ سے تعلق رکھنے والے دیگر ویٹ لفٹروں سے بھی کیا اور ان سے رہنمائی اور مدد بھی مانگی۔ 1986ء میں میلبورن میں ہونے والے ویٹ لفٹنگ ورلڈکپ کے بعد وہ اپنے بلغارین دستے کو چھوڑ کر کینبرا میں ترک سفارت خانے میں پناہ کیلئے پہنچ گیا۔ تب ترکی کے وزیراعظم ترگت اوزال نے یہ بات معلوم ہونے پر اسے فوراً ترکیہ بھیجنے کا حکم دیا۔ ترکیہ پہنچ کر اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا نام دوبارہ سلیمان اوغلو رکھ لیا۔
نسبتاً لمبے اوپری دھڑ کے ساتھ چھوٹی اور ٹیڑھی ٹانگوں کے ساتھ پیدا ہونے والے نعیم سلیمان اوغلو نے جسمانی طور پر کمزور اور کسی حد تک عیب دار جسمانی تناسب کے باوجود تین اولمپک گولڈ میڈل حاصل کیے۔ اس نے اپنے اٹھارہ سالہ ویٹ لفٹنگ کیریئر کے دوران پہلا گولڈ میڈل پندرہ سال کی عمر میں ساؤپاؤلو (برازیل) میں ہونے والی ورلڈ جونیئر ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ میں حاصل کیا۔ اس نے اپنے کیریئر کے دوران اپنی کلاس میں ویٹ لفٹنگ کا ہر وہ اعزاز‘ میڈل اور ریکارڈ اپنے نام کیا جو کرۂ ارض پر موجود تھا۔ اس کی مختصر سی جسامت اور ویٹ لفٹنگ کے میدان میں اتنی محیر العقول کامیابیوں اور لاتعداد ریکارڈ قائم کرنے پر اسے ''پاکٹ ہرکولیس‘‘ کا خطاب دیا گیا۔ ہرکولیس یونانی دیو مالا میں طاقت اور قوت کا دیوتا ہے۔ نعیم سلیمان اوغلو کو جیبی سائز کا ہرکولیس قرار دیا گیا جس نے ویٹ لفٹنگ کے میدان میں ایسی کامیابیاں حاصل کیں کہ جن کا دنیا میں کسی ویٹ لفٹر نے خواب بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ نعیم سلیمان اوغلو سے مجھے نحیف ونزار لیکن میدانِ غزل کے ہرکولیس فہمی بدایونی کا خیال آ جانا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ دونوں میں ایک عجیب مماثلت ہے۔
زمان شیر خان جن کا ادبی نام فہمی بدایونی تھا‘ 1952ء میں بدایوں کے محلہ پٹھان تولہ میں پیدا ہوئے اور آج سے نو روز قبل بیس اکتوبر کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کے رخصت ہونے سے بھارت میں اُردو غزل کا ایک نہایت ہی معتبر نام اُردو ادب کی تاریخ کے صفحات پر باقی رہ گیا۔ اب ہم فہمی بدایونی کو سامنے بیٹھ کر اس طرح نہیں سن سکیں گے جس طرح میں نے گزشتہ سال چھبیس اگست کو ابوظہبی میں بیٹھ کر سنا تھا۔
ہمارے بہت ہی پیارے دوست اور نہایت ہی شاندار شاعر ڈاکٹر عاصم صباحت واسطی نے ابوظہبی میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا اور نہایت ہی منتخب شعرا کو اس کا حصہ بنایا۔ یہ عاجز بھی اس فہرست میں شامل تھا لیکن اعزاز کی بات یہ تھی کہ یہ طالب علم فہمی بدایونی کے ساتھ اس مشاعرے کا حصہ تھا۔ مشاعرہ شروع ہونے سے تھوڑی دیر پہلے میں کافی کے چکر میں مشاعرہ گاہ کے باہر بیٹھنے کی کھلی جگہ پر ایک کونے میں کافی کا کپ ہاتھ میں پکڑے پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ فہمی بدایونی ایک صوفے کے کونے میں سمٹ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ پھیل کر بھی بیٹھتے تو بھلا کتنی جگہ گھیر لیتے لیکن اس طرح سمٹ کر بیٹھنے سے تو وہ اور بھی غیر نمایاں سے ہو گئے تھے۔ میں ان کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا۔ اپنا تعارف کروا کر میں نے ان سے درخواست کی وہ اپنی غزل ''ذرا محتاط ہونا چاہیے تھا‘‘ ضرور سنائیں۔ فہمی صاحب پوچھنے لگے: آپ کو اس غزل کے کتنے اشعار یاد ہیں؟ میں نے کہا: اگر اس غزل کے کل اشعار کی تعداد سات ہی ہے تو مجھے ساتوں شعر یاد ہیں۔ اگر زیادہ ہے تو پھر یہ میری ہی کوتاہی ہے۔ فہمی مسکرائے اور کہنے لگے: اس غزل کے سات ہی اشعار ہیں‘ آپ بے فکر ہو جائیں میں آپ کی فرمائش ضرور پوری کروں گا لیکن جب یہ غزل آپ کو خود یاد ہے تو پھر مجھ سے سننے کی فرمائش کیسی؟ میں نے کہا :یہ انسانی فطرت ہے کہ انسان اپنی پسندیدہ شے کو بار بار سننا چاہتا ہے اور پھر صاحبِ غزل سے غزل سننا تو اعزاز اور لطف کی بات ہے۔ وہ مسکرا دیے۔ پہلے فہمی بدایونی کی یہ غزل:
ذرا محتاط ہونا چاہیے تھا
بغیر اشکوں کے رونا چاہیے تھا
اب ان کو یاد کر کے رو رہے ہیں
بچھڑتے وقت رونا چاہیے تھا
مری وعدہ خلافی پر وہ چپ ہے
اسے ناراض ہونا چاہیے تھا
چلا آتا یقینا خواب میں وہ
ہمیں کل رات سونا چاہیے تھا
سوئی دھاگہ محبت نے دیا تھا
تو کچھ سینا پرونا چاہیے تھا
ہمارا حال تم بھی پوچھتے ہو
تمہیں معلوم ہونا چاہیے تھا
وفا مجبور تم کو کر رہی تھی
تو پھر مجبور ہونا چاہیے تھا
فہمی بدایونی کے بارے میں اور کیا لکھوں؟ ان کا تعارف ان کے اشعار سے بڑھ کر بھلا اور کون کروا سکتا ہے؟ فہمی کے چند اشعار نذرِ قارئین ہیں۔
موت مانگی تھی رات بھر میں نے
تب کہیں تھوڑی نیند آئی ہے
مجھے تم سے بچھڑنا ہی پڑے گا
میں تم کو یاد آنا چاہتا ہوں
گل فروشوں کو کون سمجھائے
اس کی خوشبو اسی سے آتی ہے
ایک آہٹ پہ ہم کواڑوں تک
دوڑتے آئے‘ رینگتے لوٹے
شہر کا شہر خوبصورت ہے
آپ کیا ہر مکاں میں رہتے ہیں
سنو لوگوں کو یہ شک ہو گیا ہے
کہ ہم جینے کی سازش کر رہے ہیں
بہت کہتی رہی آندھی سے چڑیا
کہ پہلی بار بچے اُڑ رہے ہیں
میں اپنا سر بچاتا پھر رہا ہوں
مگر دستار کو اپنی پڑی ہے
ٹہلتے پھر رہے ہیں سارے گھر میں
تری خالی جگہ کو بھر رہے ہیں
کمرہ کھولا تو آنکھ بھر آئی
یہ جو خوشبو ہے‘ جسم تھی پہلے
سوچتا ہوں اب ایسے اشعار کون کہے گا؟