شوق سے لگائیے اورحالات کو مزید تباہی کی طرف لے جائیے۔ یعنی خرابی میں کچھ کسرباقی ہے توضرورپوری کیجئے۔ چیئرمین ماؤکا کیا مشہور قول تھا کہ آسمانوں کے نیچے بہت شورش ہے اور صورتحال بہترین ہے۔ یعنی شورش کا ہونا اورانتہا کو پہنچنا حالات میں تبدیلی لانے کیلئے بہترین ہے۔ مجموعی حالات ویسے بے قابو ہو رہے ہیں‘ انہیں مزید بے قابو ہونے دیجئے۔ گھبراہٹ کا عالم تو نظرآ رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گھبراہٹ وہاں پہنچ چکی ہے کہ عقل داخلِ دفتر ہو گئی ہے۔ یہی کیفیت ہے جس کے تناظرمیں کابینہ کے سب سے ہونہار وزیر جناب عطاتارڑ نے قوم کو یہ خوشخبری سنائی ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جائے گی۔ سچ پوچھئے تو یہ بڑھک سن کر کسی قسم کا ملال ہونے کے بجائے ہنسی چھوٹ گئی۔ دو سال سے اب زائد عرصہ ہونے کو ہے‘ اس دوران جوہوسکتا تھاوہ کیا نہیں گیا؟ اس سے کچھ فائدہ پہنچا ہے؟ معتوب جماعت ختم ہو گئی ہے؟ معتوب لیڈر نے کوئی گھٹنے ٹیک دیے ہیں؟یہ افلاطون کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان ایک جمود کی کیفیت میں پھنسا ہوا ہے۔ سیاسی پراسیس منجمد ہے‘ معیشت تباہ حال ہے‘ کمر توڑ مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں‘ پاکستان ایک ہی جگہ پہ کھڑا ہے۔ایوانانِ اقتدار میں گھبراہٹ کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ آگے کی کچھ سوجھ نہیں رہی۔ایسے میں منجمدصورتحال میں کچھ ہلچل کیسے پیداہو۔ وہ تب ہی ہوسکتی ہے کہ حالات کو مزید خرابی کی طرف دھکیلا جائے اور اگر معتوب جماعت پرپابندی لگی اوراُس کے بعد جو کچھ ہوسکتا ہے اس سارے عمل سے ہلچل کا سامان مزید اکٹھاہوتا جائے گا۔ لہٰذا شوق پورا کیجئے۔ پابندی لگی تو معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا‘ وہاں حالیہ فیصلے نے بتا دیاہے کہ اکثریت فیصلہ سازوں کے حق میں نہیں۔ اب خبریں آ رہی ہیں کہ چار نئے ایڈہاک جج سپریم کورٹ میں لائے جانے کی تیاریاں ہیں اور اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بھی بلالیا گیاہے۔ یہ بھی شوق پورا ہو جائے ‘ یعنی کھلواڑ تو ہرچیز کا بنا دیا گیا ہے لیکن ابھی کچھ کسر باقی ہے۔ اُسے بھی پورا کر لیا جائے۔
یہ (ن) لیگ والے جو اعلیٰ عدلیہ کے خلاف سیخ پا ہو رہے ہیں وہ صرف اس لیے کہ ان کی من مانیاں نہیں چل رہیں۔ ان کے سینوں میں انصاف کی چنگاری نہیں بھڑک رہی بلکہ عداوت کی آگ اُٹھ رہی ہے۔ گلہ ان کا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی اکثریت کی آنکھیں کیوں کھل گئی ہیں؟ انصاف کے راستے پر اکثریتی جج کیوں نکل پڑے ہیں؟ اپنی سیاسی زندگی کے بیشترحصوں میں اپنی مرضی کے فیصلے کرواتے آئے تھے۔ اب سیاسی حقیقتیں بدل چکی ہیں‘ ملک کے طول وعرض میں نئی ہوائیں چل رہی ہیں‘ اوران ہواؤں کا اثر اعلیٰ عدلیہ پر بھی پڑرہا ہے۔( ن) لیگ والوں سے یہ ساری باتیں ہضم نہیں ہو رہیں اور اسی لیے لال پیلے ہو رہے ہیں‘ اس حد تک کہ انہیں کوئی سمجھ نہیں آ رہی کہ ملک کے اصل مسائل کیا ہیں۔گزشتہ روز صبح بنوں میں ٹی ٹی پی کا حملہ ہوا۔ کے پی کے میں صورتحال ایسی ہے کہ ٹی ٹی پی دندتانی پھر رہی ہے۔ جنوب کے ضلعوں میں شام ڈھلے لوگ سفر سے اجتناب کررہے ہیں۔ پولیس تھانوں سے باہر آنے سے ڈرتی ہے۔اوریہ جو افلاطون اس قوم کے نصیب میں لکھے ہوئے ہیں ایک جماعت کی عداوت میں بدحال ہو رہے ہیں۔
ان کے کرتب دیکھ کر ہنسی تو آتی ہے لیکن رونا بھی آتا ہے۔صنم جاوید کو دیکھ لیں‘ ایک خاتون جس کو چودہ ماہ بندرکھا گیا۔ درجنوں کیس اس پر قائم ہوئے۔ تاریخیں لگ لگ کر آخرکار جب مقدمات میں ضمانت ہوتی تونئے بھونڈے قسم کے مقدمات قائم کردیے جاتے۔ جب لاہور ہائیکورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے فیصلہ صادر کر دیا کہ خاتون کے خلاف بے بنیادمقدمات کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے تب تو ان کو کچھ عقل آ جانی چاہیے تھی۔ وہ جو انگریزی کا لفظ ہے گریس( Grace) وہ تھوڑی دکھا دی جاتی اور کہتے کہ بہت ہو چکی اب بس کرنی چاہیے۔ لیکن ہائیکورٹ کے حکم کے بعد ایف آئی اے نے ایک بے بنیاد قسم کا مقدمہ صنم جاوید پر دھردیااوراسلام آباد میں وہ پھر سے گرفتار ہو گئی۔ صنم کے والد نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی تو معاملہ جب جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے سامنے آیا تواُنہوں نے شام پانچ بجے صنم کو عدالت میں پیش کروایا اور حکم دیا کہ جمعرات کے دن تمام ریکارڈ پیش کیا جائے اور تب تک صنم کو گرفتار نہ کیا جائے۔ تب جاکر اُس کی جان چھوٹی۔ (ن) لیگی وزیر اب جسٹس میاں گل کے بارے میں سیخ پا ہورہے ہوں گے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ جج مجوکا صاحب بھی ان کے غصے کی نظروں میں ہوں گے کہ عدت کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو کیوں بری کردیا۔
ان سے کوئی پوچھے‘ آپ چاہتے کیا ہیں؟سیاسی میدان میں توآپ پِٹ کے رہ گئے ہیں۔ پنجاب جسے آپ اپنا قلعہ سمجھتے تھے اُس میں قیدی نمبر فلاں نے آپ کا وہ حشر کیا ہے کہ تاریخ کے اوراق میں یاد رکھا جائے گا۔ فارم 47کے طفیل آپ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ اسی کی مہربانی سے اقتدار کے کچھ حصے(جان بوجھ کر ٹکڑے کا لفظ استعمال نہیں کررہا) آپ کو ملے ہیں۔ آپ کو کب اور کیسے سمجھ آئے گی کہ پنجاب کے عوام آپ کو رد کرچکے ہیں۔ سیاست میں ہاتھ پیرمارے جاتے ہیں‘ آپ بھی ایسا ضرور کریں لیکن ہوش کے کچھ تقاضے تواپنے سامنے رکھیں۔ یہ جو پی ٹی آئی پر پابندی کا بم آپ پھوڑنے چلے ہیں اس سے پی ٹی آئی کو کچھ نہیں ہوگا۔ اس کی حمایت میں ذرا برابر کمی نہیں آئے گی۔ اس کے ممبرانِ اسمبلی ادھر سے اُدھر نہیں بھٹکیں گے۔لیکن آپ کو بہت نقصان ہوگا۔ اورصرف آپ کو نہیں ‘ جو رہا سہا نظام ہے وہ مزید ہل کے رہ جائے گا۔ معیشت تو پہلے ہی تباہ حال ہے‘ بے عقلی کے منصوبوں سے کیا معیشت کو تقویت ملے گی؟ٹی ٹی پی والے اوربلوچ شورش پسند مزید حوصلہ پکڑیں گے کہ حکومتِ وقت اپنے پیروں پر کلہاڑیوں کا وارکررہی ہے۔
ہماری قسمت بھی دیکھئے کہ عمر کے اس حصے میں ملک کی تباہی کے یہ مناظر دیکھنے تھے۔ کتنے ہی ایسے مواقع آئے جب گمان ہوتا تھا کہ تاریخ سے کچھ سبق تو سیکھے جائیں گے لیکن اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ پورے قومی اُفق پر ناامیدی کے بادل چھاگئے ہیں۔ قوم کو تو ناامیدی کے ویرانوں میں دھکیل دیا لیکن اب تو ان کے اپنے چہروں پر گھبراہٹ کے آثار نمایاں ہیں۔ لیکن جیسے عرض کیا سینے میں سلگتی عداوت کی آگ نے سوچنے کی صلاحیت سے محروم کردیا ہے۔
مزاحیہ کھیل یہ بھی دیکھئے کہ پیچھے پڑے ہیں ایک جماعت اوراُس کے لیڈر کے لیکن ہر موڑ پر خودخراب ہو رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر رسوائی کا سامان اکٹھا ہو رہا ہے لیکن دیکھنے اورسمجھنے سے قاصر لگتے ہیں۔صرف آپس کا نقصان ہوتاتو کوئی اتنی بڑی بات نہ تھی لیکن ملک کا ستیاناس کردیا ہے۔ ہم جیسے سمجھے تھے کہ دو سال کے عرصے میں اتنا کچھ ہوچکا ہے کہ مزید کرنے سے ہاتھ رک جائیں گے۔ لیکن نہیں ‘ عقلوں پر مزید گہرے پردے پڑتے جا رہے ہیں۔ شہرہ آفاق یونانی ڈرامہ نگار یوریپیڈیز (Euripides)کا مشہور قول ہے کہ جس کو آسمان تباہ کرنا چاہتے ہیں اُنہیں پہلے پاگل بناتے ہیں۔ (Whom the gods wish to destroy they first make mad)۔ یہاں کچھ ایسا ہی عمل دکھائی دے رہا ہے۔