بنگلہ دیشی مظاہروں کے اصل اسباب

پروفیسر زبیر بن عمر صدیقی نے آج ڈیلس سے ایک غیرملکی ٹی وی چینل کا کلپ بھیجا ہے۔ کلپ میں ابو سعید نامی ایک بنگلہ دیشی نوجوان پولیس کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہے اور بآواز بلند کہہ رہا ہے ''مارو گولی! مارو گولی! تم میرا جسم تو چھلنی کر سکتے ہو مگر مجھ سے شہری ہونے کا اعزاز چھین سکتے ہو نہ میرے حقوق پر ڈاکا ڈال سکتے ہو‘‘۔ سپاہیوں نے ایک نہیں‘ تین چار گولیاں نوجوان کے سینے میں اتار دیں اور اسے خون میں نہلا دیا۔ یہ کلپ جہاں مجھے تڑپا گیا ہے وہاں مجھے یہ حقیقت بھی سمجھا گیا ہے کہ اپنی تاریخ سے ہم نے کچھ سیکھا ہے اور نہ ہی ہم سے جدا ہونے والے بھائیوں نے کوئی سبق حاصل کیا ہے۔
تیسری دنیا کے تنگ نظر حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے ہر حربہ استعمال کرنے کو روا سمجھتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ ہفتے لاکھوں طلبہ اپنے مطالبات کیلئے ڈھاکہ میں ہی نہیں‘ دیگر شہروں کی سڑکوں پر بھی اُمڈ آئے۔ ان چھ سات روز کے دوران 163 لوگ بنگلہ دیشی فوج‘ پولیس اور ہتھ چھٹ عوامی لیگ کے سٹوڈنٹ وِنگ نے ہلاک کر دیے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہسپتالوں میں پڑے کراہ رہے ہیں۔1971ء کی ''جنگِ آزادی‘‘ میں عوامی لیگ کا ساتھ دینے والے اور چھاپہ مار کارروائیوں میں شرکت کرنے والوں کی دوسری‘ تیسری نسل کو بنگلہ دیشی ملازمتوں میں 30 فیصد کوٹا دیا جاتا تھا۔ 10 فیصد کوٹا خواتین اور 10 فیصد دیہی علاقوں کے رہائشیوں کیلئے مخصوص تھا‘ چھ فیصد کوٹا اقلیتوں اور معذوروں کو دیا جاتا تھا۔ یوں یہ کوٹا 56 فیصد بنتا تھا۔
اس بندر بانٹ کے بعد میرٹ پر شاندار پرفارمنس دکھانے اور جاں توڑ محنت کرنے والے طلبہ و طالبات کیلئے کچھ نہیں بچتا تھا۔ جس ملک کا نظام ایسی ظالمانہ و غیرمنصفانہ تقسیم پر قائم ہو وہ کب تک چل سکتا ہے؟ اس وقت بنگلہ دیش میں تقریباً دو کروڑ نوجوان بیروزگار ہیں۔ طلبہ کے اس شدید احتجاج کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے 1971ء کی جنگ لڑنے والوں کی اولادوں کے کوٹے کو 30 سے کم کرکے صرف پانچ فیصد کر دیا جبکہ اقلیتوں اور معذوروں کو ایک‘ ایک فیصد کوٹا ملے گا۔ مظاہرین ان اقدامات کو غیرواضح قرار دے رہے ہیں۔ ڈھاکہ اور دیگر کئی شہروں میں ابھی تک کرفیو نافذ ہے۔ طلبہ کا احتجاج اس اُبلتے ہوئے لاوے کا ایک شعلہ ہے جو دس‘ بارہ برس سے اندر ہی اندر پک رہا تھا۔
حسینہ واجد کی حکومت کی بنیاد ہی ظلم اور آمرانہ ہتھکنڈوں پر رکھی گئی ہے۔ وہ گزشتہ پندرہ برس سے بنگلہ دیش کی وزیراعظم ہیں۔ وہ فوج اور اعلیٰ عدالتوں کی حمایت سے کسی دوسری سیاسی جماعت کو انتخابی اکھاڑے میں اترنے ہی نہیں دیتیں۔ 2008ء سے لے کر اب تک بنگلہ دیش میں تین انتخابات ہوئے ہیں۔ اب شیخ حسینہ واجد انتہائی غیرمقبول ہونے کے باوجود مینجڈ الیکشن کے ذریعے کامیابی اپنے نام لکھ لیتی ہیں۔ عملاً ملک میں وَن پارٹی رول ہے۔
ہیومن رائٹس واچ جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کی تازہ رپورٹ کے مطابق‘ گزشتہ تین بنگلہ دیشی انتخابات میں ایک مرتبہ بھی آزادانہ اور منصفانہ پولنگ نہیں ہوئی۔ ہیومن رائٹس کی ڈائریکٹر کی آبزرویشن کے مطابق بنگلہ دیش میں جمہوریت نہیں‘ آمریت ہے۔ بنگلہ دیش میں کرپشن اپنے عروج پر ہے۔ کرپشن میں حسینہ واجد بنفسِ نفیس اور اُن کی حکومت کے عوامی لیگی وزرا و زعما پوری طرح ملوث ہیں۔ یہاں پاکستان میں بھی ایک چپڑاسی کے بینک اکاؤنٹ کا بڑا چرچا ہوا تھا۔ 16جولائی 2024ء کی ایک عالمی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی وزیراعظم کے ایک چپڑاسی کے اکاؤنٹ سے 400 کروڑ ٹکے نکلے ہیں۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) وہاں کی مرکزی اپوزیشن ہے۔ 2024 ء کے الیکشن سے قبل بی این پی اور کالعدم جماعت اسلامی کے 20 ہزار کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بی این پی نے 2014ء اور 2024ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ گزشتہ پندرہ برس کے دوران 80سے زائد افراد لاپتا ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اپوزیشن پارٹیوں سے ہے۔
ڈھاکہ والوں نے پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ اُس وقت کی فوجی حکومت نے 1971ء کے انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے اور ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ عوامی لیگ اپنی سیاسی و اخلاقی ساکھ قائم کرنے کیلئے بنگلہ دیش میں حقیقی جمہوری کلچر رائج کرتی اور قانون کی حکمرانی یقینی بناتی مگر حسینہ واجد اپنے غیر جمہوری اقتدار کیلئے ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہی ہے۔
بنگلہ دیش کے اہلِ دانش کو اپنے ملک میں بھارت کی بڑھتی ہوئی مداخلت اور ہر شعبۂ زندگی میں اُس کی درپردہ موجودگی پر شدید تشویش ہے۔ بھارت کے زیر نگرانی چلنے والے نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل بنگلہ دیش اور پھر بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے 40 برس کے بعد اچانک ناکردہ جرائم کی پاداش میں یک طرفہ کارروائیاں کرکے معزز سیاسی و دینی رہنماؤں کو پھانسیاں دینا شروع کر دیں۔ 2013ء سے لے کر 2015ء تک جماعت اسلامی‘ اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر کئی دینی جماعتوں کے 1971ء کے زمانے کے نوجوانوں کو پیرانہ سالی میں پھانسی کی سزائیں سنائیں اور ان پر عملدرآمد بھی کر ڈالا۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں۔ جماعت کے رفاہی ادارے تباہ کر دیے گئے ہیں۔ بعض اداروں پر عوامی لیگیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ بنگلہ دیش کی انہی بے وقار عدالتوں نے چودھری معین الدین کو اُن کی غیر موجودگی میں سزائے موت سنا دی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں چودھری صاحب جمعیت سے وابستہ تھے مگر 1970-71ء میں وہ ایک ممتاز صحافی کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ چودھری معین الدین 1973ء سے برطانیہ کے رہائشی اور 1984ء سے برطانوی شہری ہیں۔ بنگلہ دیشی حکومت نے 2019ء میں اُن کے ریڈ وارنٹ جاری کروا کے برطانوی حکومت سے اُن کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ برطانوی ہوم ڈپارٹمنٹ نے معین الدین چودھری کو اپنی رپورٹ میں ایک سزا یافتہ جنگی مجرم کے طور پر درج کر دیا۔ چودھری صاحب نے برطانوی سپریم کورٹ میں وہاں کے ہوم ڈپارٹمنٹ کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کر دیا کہ بغیر تحقیق انہیں نام نہاد بنگلہ دیشی عدالت کے فیصلے پر جنگی مجرم کیوں کہا گیا؟ چودھری معین الدین برطانیہ کے ممتاز کمیونٹی رہنما ہیں۔ وہ کئی رفاہی اداروں کے سربراہ اور فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ برطانوی سپریم کورٹ نے 20 جون 2023ء کے روز معین الدین چودھری کو بنگلہ دیشی عدالت کے الزامات سے مکمل طور پر بری کر دیا اور اپنے تفصیلی فیصلے میں بنگلہ دیش کی ''غلام عدالتوں‘‘ کی حیثیت کو ساری دنیا میں بے نقاب کر دیا۔ اب یہ عدالتیں ساری دنیا میں بے وقعت ہو گئی ہیں۔ بنگلہ دیش کے حالیہ مظاہروں کے اسباب میں کوٹہ سسٹم‘ غیر جمہوری وَن پارٹی شو‘ لاقانونیت کی حکمرانی‘ بے پناہ کرپشن اور رشوت ستانی‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور فیئر اینڈ فری انتخابات کی عدم موجودگی شامل ہیں۔
اگر شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی بیگم حسینہ واجد کو سنارِ بنگلہ سے حقیقی محبت ہوتی تو وہ وہاں آمریت نہیں جمہوریت کو فروغ دیتیں‘ شہری آزادیوں کو عام کرتیں‘ بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتیں اور ایک عادلانہ و منصفانہ سوسائٹی قائم کرتیں اور خوشحال جمہوری بنگلہ دیش کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے اندھے انتقام سے اجتناب کرتیں اور سب کو ساتھ لے کر چلتیں۔ مگر یہ نہ تھی بنگلہ دیش کی قسمت۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں