اسلام آباد‘ واشنگٹن اور بیجنگ

بظاہر تین مختلف شہروں سے آنے والی مختلف خبریں ہیں مگر اُن کے درمیان ایک دلچسپ ربط باہم بھی ہے۔
بیچارے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ گزشتہ تین چار ہفتوں سے خود بھی ایک بخار کی حدت اور شدت سے بے چین تھے اور انہوں نے ساری قوم کو بھی اسی بخار میں مبتلا کر رکھا تھا۔ وزیر موصوف کو کہیں سے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا ٹاسک سونپا گیا ‘ لہٰذا وہ صبح شام اس جماعت کے اکثریتی جن کو قابو کرنے کے لیے دھواں دھار بیانات داغ رہے تھے۔
البتہ 24جولائی کو اُن کے ولولوں پر اوس پڑ گئی کیونکہ کابینہ نے اچانک انہیں بریکیں لگا دی ہیں اور اعلان کر دیا کہ پی ٹی آئی پر پابندی اور آرٹیکل6کا معاملہ فی الحال مؤخر کر دیا گیا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے دوسری سیاسی جماعت پر پابندی لگانے یا لگوانے کا مشغلہ لائقِ تحسین نہیں‘ قابلِ مذمت ہے۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ بانی تحریک انصاف اپنے ووٹروں کی توقعات پر پورا اترے اور نہ ہی انہیں لانے والوں کی اُن سے وابستہ امیدیں کوئی برگ و بار لا سکیں۔ تاہم بانی پی ٹی آئی کے پسِ دیوار زنداں جانے سے ایک 'مظلوم‘ کے ساتھ عوام کی ہمدردیاں اور بڑھ گئی ہیں۔
جہاں تک عمران خان کی مقبولیت کا تعلق ہے اس پر اُن کے حامی اور مخالف سب یک زبان ہیں کہ وہ اس وقت ایک مقبول ترین سیاستدان ہیں۔ شاید خان صاحب نے جیل کی چار دیواری کے اندر فرصت کے لمحات میں گہرائی سے سوچا ہو کہ مقبولیت ایک پُرکشش فراٹے بھرتے ہوئے گھوڑے کی مانند ہے کہ جس پر سوار ہونا آسان مگر اس سے اترنا دشوار ہوتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ جتنا جلدی مقبولیت کے گھوڑے سے اُتر کر کوچۂ سیاست میں وارد ہو جائیں گئے وہ اُن کے لیے اور اُن کی جماعت کی سیاسی بقا کے لیے اتنا ہی مفید ہوگا۔
25 جولائی کو ایک اخبار کی مین لیڈ ہے ''پی ٹی آئی پر پابندی کا معاملہ مؤخر‘‘۔ سیکنڈ لیڈ ملاحظہ کیجئے۔ ''امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے لیے ایوانِ نمائندگان سے10کروڑ ڈالر بجٹ مانگ لیا‘‘۔ اس خبر کی تفصیل میں لکھا ہے کہ اس کا مقصد پاکستان کا چین پر انحصار کم کرنا اور جمہوریت کو مضبوط بنانا ہے۔ امریکہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ڈونلڈ لُو نے امریکی کانگریس کے نمائندگان کی کمیٹی کے روبرو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق پر مکمل توجہ مرکوز کی جائے گی‘ نیز پاکستان کو باور کرایا جائے گا کہ وہ تمام جماعتوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر رویہ اپنائے۔اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد سے جاری ہونے والی خبروں میں کیسا دلچسپ ربط موجودہے۔
غالباً مسلم لیگ (ن) کے بعض دانشوروں کا خیال ہوگا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی وابستگی کے فارم الیکشن کمیشن میں جمع کرانے والے ایم این ایز کو یہ ڈراوا دیا جائے کہ تم جس پارٹی کے ساتھ علی الاعلان اپنی وابستگی پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہے ہو‘ وہ پارٹی تو خلافِ قانون قرار دی جا رہی ہے۔ مگر داخلی و خارجی دباؤ اور دیگر قانونی و آئینی پیچیدگیوں کی بنا پر تحریک انصاف پر پابندی نہیں لگائی جا سکی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کرتی اور پارلیمنٹ میں اپنا بھرپور سیاسی و پارلیمانی کردار ادا کرتی مگر نجانے کیوں تحریک انصاف پارلیمان کے اندر آنے کے بجائے اسمبلیوں کے باہر ڈیرہ لگانے کو ترجیح دے رہی ہے۔
اب واشنگٹن اور بیجنگ کی خبروں کے درمیان جو قابلِ توجہ لنک ہے اس سے عالمی سیاسیات کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے میں نے خوب لطف اٹھایا ہے۔ امریکہ کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ چین نہ صرف پاکستان بلکہ سارے خطے کی سفارتی و سیاسی اور تزویراتی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔عالمی طاقت نے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ چین کے ساتھ جا کر پاکستان ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہو جائے گا جبکہ امریکہ مستقبل کا پیغام رساں ہے۔ امریکہ کو یقینا معلوم ہے کہ آج ستاروں کی گزرگاہوں سے لے کر سمندر کی تہوں تک سائنسی و تحقیقی دنیا کا کون سا ایسا شعبہ ہے جہاں چین نے کامیابی کے جھنڈے نہ گاڑے ہوں۔
چین کی تازہ ترین کامیابی فلسطین کی دو بڑی پارٹیوں حماس اور الفتح سمیت 14سیاسی دھڑوں کا مکمل اتحاد کرانا ہے۔ چین نے یہ عظیم کارنامہ تین‘ چار روز پہلے سرانجام دیا۔ جو کام کوئی عرب ملک یا اسلامی فورم نہ کر سکا اسے چین نے ''خاموش ڈپلومیسی‘‘ کے ذریعے انجام دے ڈالا ہے۔
خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے امریکہ کو بہت تشویش ہے۔سینیٹرحسین سید چین کے امورِ خارجہ پر سند کی حیثیت رکھتے ہیں اور عالمی منظر نامے پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ امریکہ جیسی سپر پاور کے فوری انہدام کا تو کوئی امکان نہیں مگر اس کا انحطاط شروع ہو چکا ہے۔ عالمی سیاست پر اس کی گرفت کمزور ہو رہی ہے ۔ اب آہستہ آہستہ عالمی باگ ڈورمغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے آج سے تقریباً 80 برس قبل پیشگوئی کی تھی جو آج سچ ثابت ہو رہی ہے۔
کھول آنکھ‘ زمین دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
فی الواقع چین مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے والی قوت کے طور پر نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ 14فلسطینی جماعتوں کا مستحکم اتحاد نہ صرف عالمی سطح پر ایک بااختیار و خود مختار ریاست کے طور پر اپنا وجود منوائے گا بلکہ ایک متحد و متفق قوم کی حیثیت سے اسرائیلیوں کی چالوں اور سازشوں کا بطریقِ احسن مقابلہ بھی کر سکے گا۔
ہم نے غالباً تین ماہ قبل ایک کالم میں حماس اور الفتح کے اتحاد کی برکات و ثمرات کا ذکر کیا تھا مگر کسی مسلم ملک یا فورم نے اس کام کا بیڑہ نہ اٹھایا۔نئے فلسطینی اتحاد کی یقینا اوّلین ترجیح غزہ میں فی الفور فائر بندی کرانا ہو گی۔ اس وقت تک غزہ میں 40ہزار مرد و خواتین اور بچوں کو شہید کیا جا چکا ہے جبکہ ہزاروں کی تعدا دمیں شدید زخمی ہیں۔ اسرائیل تمام تر اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر اہلِ غزہ کی نسل کشی کر رہا ہے۔ یہ ساری شہری ریاست کھنڈرات میں بدل چکی ہے۔ امریکہ اگر اسرائیل کی سرپرستی سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا تو کم از کم اس صہیونی ریاست سے اہلِ غزہ کی نسل کشی کا سلسلہ تو بند کرائے۔
اب نیو یارک پر بھی ایک طائرانہ نگاہ ڈال لیتے ہیں جہاں امریکہ کے سب سے بڑے تجارتی شہر کی بار ایسوسی ایشن سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج‘ جسٹس اطہر من اللہ نے 24 جولائی کو خطاب کرتے ہوئے زور دے کر کہا کہ آئین کا تحفظ ایک مقدس فریضہ ہے‘ اس فریضے کی ادائیگی کیلئے عدالتوں کو ہر وقت جاگتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے نیو یارک کے قانون دانوں کو بتایا کہ اگر 1958ء‘ 1977ء اور 1999ء کے مارشل لاؤں کے نفاذ کے موقع پر عدالتیں جاگ رہی ہوتیں تو ایسا نہ ہوتا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ میری خواہش ہے کہ مارشل لاء کے خطرے کے دوران عدالتیں کھلی ہوں ۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ حکومت امریکہ اور برطانیہ جیسے جمہوری ملکوں کے اشاروں اور اعلیٰ عدلیہ کے تیور کو سمجھنے میں دیر نہیں لگائے گی اور تصادم کی بجائے تفاہم کا راستہ اختیار کرے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں