"KMK" (space) message & send to 7575

سرکار تو مزے سے سو رہی ہے

دیرپا اور قابلِ عمل منصوبہ بندی وغیرہ جیسی فضولیات کی ہمارے ہاں سرے سے کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی کوئی تصور موجود ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے‘ بلکہ فیصلہ بھی کب ہوتا ہے‘ جس کا جو جی کرتا ہے کر لیتا ہے پھر آہستہ آہستہ وہ چیز پھیل کر عفریت بن جاتی ہے اور ناقابلِ درستی کی حد پر پہنچ جاتی ہے۔ چنگ چی اور موٹر سائیکل رکشہ قسم کی کئی خرابیاں اب اتنی عام ہو چکی ہیں کہ اس جن کو بوتل میں واپس بند کرنا ممکن نہیں رہا۔
لوڈشیڈنگ ناقابلِ برداشت ہوئی تو قوم نے یو پی ایس اور جنریٹروں میں پناہ ڈھونڈی۔ اول اول جب ان جنریٹروں کو گھریلو گیس کے کنکشنوں سے جوڑ کر چلایا گیا تو حسبِ معمول ذمہ دار ادارے آنکھیں بند کرکے پڑے رہے‘ جب ان جنریٹروں کے طفیل گھروں میں گیس آنا بند ہو گئی تو کئی لوگوں نے اپنے کنکشن کے ساتھ کمپریسر لگا لیے۔ اب جنہوں نے کمپریسر لگائے ان کی تو موج ہو گئی اور جن کنکشنوں کے ساتھ کمپریسر نہیں تھا‘ ان گھروں کے چولہے‘ جن اوقات میں گیس آتی بھی تھی‘ جب چلنے سے عاری ہو گئے تب گیس کے ادارے نے چھاپے مارنے شروع کردیے اور جنریٹروں والے میٹر کاٹنے شروع کر دیے۔ لوگ عدالتوں میں چلے گئے کہ نہ سرکار بجلی دیتی ہے نہ ذاتی بندوبست پر لگائے گئے جنریٹروں کے ذریعے اس کا حل نکالنے دیتی ہے۔ کہیں حکم امتناعی مل گیا اور کہیں ویسے ہی کام چل گیا۔
اب جب بجلی کی قیمت ناقابلِ برداشت ہو گئی تو لوگوں نے متبادل کے طور پر سولر کے ذریعے اپنے لیے سستی بجلی کا بندوبست کرنا شروع کردیا۔ ظاہر ہے جب کوئی چیز میری قوتِ خرید سے نکل جائے گی تو میں اس کا کوئی سستا متبادل تلاش کروں گا اور یہ میرا حق ہے کہ میں اپنی جیب کے مطابق کوئی متبادل اختیار کروں۔ اگر تنور پر روٹی میری قوتِ خرید سے باہر ہو جائے تو میں سال بھر کی گندم خرید کر رکھ لوں گا اور اسے چکی سے پسوا کر اپنی روٹی کی ضرورت پوری کروں گا۔ ایک حد تک تو میرایہ حق منطقی طور پر درست ہے لیکن بعض اوقات اس قسم کے متبادل نظام کے ساتھ کچھ قباحتیں بھی جڑی ہوتی ہیں‘ جو فوری طور پر تو شاید دکھائی نہیں دیتیں لیکن ان کے منفی اثرات کچھ دیر بعد نہ صرف دکھائی دینے لگ جاتے ہیں بلکہ یہ منفی اثرات ناقابلِ اصلاح حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اصل خرابی کو واپس پرانی جگہ پر لانا بھی کسی کے بس میں نہیں رہتا۔ سرکار پہلے پہل خاموش بیٹھی رہتی ہے اور اس کی خاموشی کے پیچھے پہلی وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اس بات پر مطمئن ہو جاتی ہے کہ اس کے سر سے بلا ٹل گئی ہے‘ جو کام اس کی ذمہ داری تھی وہ لوگوں نے خود کر لیا ہے۔ اس طرح سرکار سمجھتی ہے کہ اس کے سر سے ذمہ داری کا بوجھ اگر عوام نے خود بانٹ لیا ہے یا اٹھا لیا ہے تو بھلا اسے کیا مسئلہ ہے؟ کار پردازانِ حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکامی پر اپنی نااہلی کے ازالے کیلئے عوام کے کیے گئے اقدامات کو اپنے لیے غیبی مدد سمجھتے ہیں اور سکھ کا سانس لیتے ہیں۔
ساتھ ہی ان چیزوں سے متعلق قواعد و ضوابط وضع کرنے اور لاگو کرنے والے اداروں کے افسر اور اہلکار اس سارے جگاڑ میں اپنے لیے بالائی آمدنی کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیتے ہیں اور ان ساری خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ تیسری بات یہ کہ اس نئی صورتحال کے طفیل پیدا گیر مافیا کے بھی مزے ہو جاتے ہیں اور کمائی کا ایک اور در کھل جاتا ہے۔ کبھی یو پی ایس درآمد کرنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے‘ کبھی جنریٹر امپورٹ کرنے والوں کا چھکا لگ جاتا ہے اور کبھی سولر کا کام کرنے والوں کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔ بقول ایک دوست کے کہ آج کل یہ کام اتنے زوروں پر ہے کہ سولر کا کام کرنے والی جس کمپنی میں جو لڑکا کل تک ہیلپر کے طور پر بھی نکما اور نالائق تصور ہوتا تھا‘ اب وہ بھی اپنی کمپنی بنا کر لوگوں کی چھتوں کو بجلی گھروں میں تبدیل کر رہا ہے اور جب کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کو صرف اتنا ہی کام آتا تھا۔ بعد از سیل سروس وغیرہ اس نے ابھی استاد سے سیکھی ہی نہیں تھی۔ بازار میں موجود سولر سسٹم لگانے والوں میں سے بے شمار لوگ عملی طور پر اپنے کام میں اتنی ہی مہارت رکھتے ہیں جتنی عیدِ قربان پر چھریاں اٹھا کر گلیوں میں پھرنے والے نو آموز قصاب اپنے فن میں رکھتے ہیں۔
بات کہیں اور چلی گئی۔ اس سولر سسٹم کے طفیل ایک بار خرچہ کرنے کے بعد ملنے والی مستقل مفت بجلی کی سہولت سے جڑی ہوئی ایک خرابی ایسی ہے جس کا اندازہ فی الوقت تو کسی کو نہیں ہو رہا لیکن چند سال بعد اس کا خمیازہ قوم کو عمومی طور پر اور اسے استعمال کرنے والے کو خصوصی طور پر بھگتنا پڑے گا۔ یہ مسئلہ سولر پر چلنے والے زرعی ٹیوب ویلوں سے جڑا ہوا ہے۔ نہری پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کاشتکار ٹیوب ویل کے پانی سے کام چلاتا تھا لیکن وہ ٹیوب ویل کے ذریعے صرف اپنی اشد ضرورت کا پانی حاصل کرتا تھا۔ بجلی کے بل میں ہونیوالا روز افزوں اضافہ جب کسان کی استطاعت سے باہر ہو گیا تو بل کی عدم ادائیگی وغیرہ پر ٹیوب ویلوں کے کنکشن کٹنا شروع ہو گئے۔ اس آفت نے کسان اتحاد نامی تحریک کو جنم دیا۔ اس مسئلے پر بیشمار بار سرکار اور کسانوں میں معاملات طے ہوئے مگر بوجوہ چند روز بعد ہی کسی نہ کسی طرف سے ہونے والی وعدہ خلافی کے باعث یہ بیل کبھی منڈھے نہ چڑھ سکی۔ ہر چار چھ دن بعد وہی مسائل دوبارہ سر اٹھا لیتے۔ ہنگامے‘ دھرنے‘ جلسے‘ جلوس اور مذاکرات کی ایک طویل داستان ہے جس سے کبھی بھی دیرپا حل نہ نکل سکا۔ پھر سولر کا رواج آ گیا۔
جن بڑے زمینداروں کے پاس اپنے ٹیوب ویل سولر سسٹم پر منتقل کرنے کیلئے یکشمت خرچ کی استطاعت تھی انہوں نے تو یہ کام کر لیا اور ٹیوب ویل چلانا مفت کی سہولت میں بدل گیا۔ خرچہ تو ایک بار ہو گیا تھا‘ اب جتنا جی چاہیں ٹیوب ویل چلائیں اور مزے کریں۔ ادھر ہماری طرف سورج کم از کم بھی آٹھ نو گھنٹے تو اپنی چھب دکھاتا ہے۔ اب ٹیوب ویل صبح سورج نکلتے چلنا شروع ہوتے ہیں اور سورج ڈھلنے تک مستقل چلتے رہتے ہیں۔ پہلے اپنی ضرورت پوری ہوتی ہے اور پھر ارد گرد والے کاشتکاروں کو پانی بیچا جاتا ہے۔ ہمارے علاقے میں فی گھنٹہ پانی سپلائی کا معاوضہ اٹھارہ سو سے دو ہزار روپے تک ہے۔ اب ٹیوب ویل بلا تعطل سارا سارا دن چل رہا ہے اور اس کا مالک روزانہ دس سے پندرہ ہزار روپے کما رہا ہے۔ اس سے فی الحال تو موج میلہ ہو رہا ہے۔ سولر پر ٹیوب ویل چلانے والا بھی خوش ہے اور سرکار بھی مطمئن ہے کہ اب کسان نہ بل جلا رہے ہیں‘ نہ دھرنے دے رہے ہیں اور نہ ہی بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے اہلکاروں کو میٹر کاٹنے کی مصیبت سے پالا پڑ رہا ہے لیکن کسی کو اس بات کا احساس نہیں کہ جس رفتار سے بلاضرورت پانی زمین سے نکالا جا رہا ہے اس سے زیرِ زمین پانی کی سطح جس تیزی سے نیچے جا رہی وہ مستقبل میں ایک ایسے بحران کو جنم دے گی جس کا ازالہ کسی طور ممکن نہیں ہوگا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ٹیوب ویل سولر پر نہ چلیں‘ مگر اس کا کوئی ایسا قابلِ عمل میکانزم بنایا جائے کہ صرف مفت کا ہونے کی وجہ سے بلا ضرورت نکالے جانے والے پانی پر کوئی طے شدہ بندش ہو تاکہ آنے والی نسلوں کو پینے کیلئے پانی میسر ہو۔ اگر یہ نہ ہوا تو اگلے دس سال بعد شاید پینے کا پانی بھی کسی کو میسر نہیں ہوگا۔ پانی کی متوقع کمی اور کمیابی جس رفتار سے ہماری طرف بڑھ رہی ہے اس کا شاید کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے۔ اس صورتحال کو مزید خراب کرنے کیلئے سرکاری سطح پر زرعی ٹیوب ویل سولرائزیشن پروجیکٹ اناؤنس ہو گیا ہے۔ سرکار کو اپنی ذمہ داریوں سے چھٹکارا اور سستی شہرت اکٹھی مل رہی ہو تو بھلا اسے کس بات کی فکر ہو گی۔ لہٰذا سرکار مزے سے سو رہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں