علامہ اقبال بیسویں صدی کے اُن اولین مفکرین میں سے ہیں جنہوں نے مسلمان ذہن کو یہ باور کرایا کہ اسلام کا سیاسی فکر اپنے جوہر میں جمہوری ہے۔ اس میں شہنشاہیت کیلئے کوئی جگہ ہے نہ پاپائیت کیلئے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے یہ مقدمہ قائم کیا کہ اسلام کے روایتی اداروں کی اگر آج تشکیلِ نو ہونی ہے تو لازم ہے کہ ان کی روح جمہوری ہو۔ اجتہاد کو بھی وہ انفرادی کے بجائے اجتماعی دانش اور اجماع کو پارلیمان کی صورت میں متشکل ہوتا دیکھتے ہیں۔اقبال مشرق و مغرب کے علوم سے آشنا تھے مگر ان کے غور و فکر کا محور اسلام اور مسلمانوں کا علمی و فکری ماضی اور مستقبل ہے۔ وہ روایت سے الگ نہیں ہونا چاہتے مگر اسے جمود کی نذر بھی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ اسلام کے اصولِ حرکت کو دریافت کرتے اور اس کی بنیاد پر ماضی کو مستقبل سے جوڑ دیتے ہیں۔ اپنے فکری سفر میں انہوں نے یہ دریافت کیا کہ جمہوریت مسلم سیاسی فکر کی روح ہے۔یہ بات کب اور کہاں کہی‘ اس کیلئے چند حوالے پیشِ خدمت ہیں۔
1۔اقبال کے عہد میں مسلمانوں کا روایتی سیاسی ادارہ 'خلافت‘ دم توڑ رہا تھا۔ اقبال نے جان لیا تھا کہ وقت نے جو کروٹ لی ہے اسکے بعد خلافت باقی نہیں رہ سکتی۔ مسلمانوں کیلئے لازم ہو چکا کہ وہ سیاسی اجتماعیت کیلئے کوئی متبادل تلاش کریں۔ جس سرزمین پر خلافت کا ادارہ علامتی طور پر موجود تھا اور جہاں اسنے آخری سانسیں لیں‘ وہیں سے اس کا ایک متبادل سامنے آیا۔ یہ متبادل کیا تھا؟ اقبال کے الفاظ میں ''ترکوں کا اجتہاد یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی رو سے اس منصب (خلافت) کو افراد کی ایک جماعت بلکہ کسی منتخب شدہ مجلس کے ذمہ بھی کیا جا سکتا ہے‘‘۔ ترکوں کے اس اجتہاد پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ''ترکوں کا یہ نقطۂ نظر سر تا سر درست ہے‘ اتنا درست کہ اسکی تائید میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ اسلئے کہ ایک تو جمہوری طرزِ حکومت اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ ثانیاً اگر ان قوتوں کا بھی لحاظ رکھ لیا جائے جو اس وقت عالمِ اسلام میں کام کر رہی ہیں تو یہ طرزِ حکومت اور بھی ناگزیر ہو جاتا ہے‘‘۔ (خطبہ: الاجتہاد فی الاسلام، ترجمہ: نذیر نیازی)
2۔اجماع‘ اقبال کے نزدیک اسلام کے قانونی تصورات میں سب سے اہم ہے۔ یہ ادارہ اپنے جوہر میں اجتماعی دانش کا مظہر ہے۔ یہ لازم تھا کہ اسے ایک اجتماعی قانون ساز ادارے کی صورت دی جاتی۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو اس کی ذمہ دار وہ ملوکیت تھی جو خلافتِ راشدہ کے بعد مسلم سیاسی نظام میں در آئی۔ ''اموی اور عباسی خلفا کا فائدہ اسی میں تھا کہ اجتہاد کا حق بحیثیتِ افراد مجتہدین ہی کے ہاتھ میں رہے‘ اس کے بجائے کہ اس کیلئے ایک مستقل مجلس (قانو ن ساز) قائم ہو‘‘۔ اقبال اس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ مغرب میں ہونیوالے سیاسی تجربات کے زیرِ اثر مسلمانوں میں بھی اجماع کے ادارے میں مخفی امکانات کو دریافت کرنے کا شعور پیدا ہو رہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''بلادِ اسلامیہ میں جمہوری روح کی نشو و نما اور مجالسِ قانون ساز کا بتدریج قیام‘ ایک بڑا ترقی ساز قدم ہے۔ اسکا یہ نتیجہ ہو گا کہ مذاہبِ اربعہ (چاروں مسالک) کے نمائندے جو سرِ دست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں‘ اپنا یہ حق مجالسِ تشریعی (مجالسِ قانون ساز) کومنتقل کر دیں گے۔ مزید براں عام افراد بھی جو اِن امور میں بڑی گہری نظر رکھتے ہیں‘ اس (قانونی بحث) میں حصہ لے سکیں گے‘‘۔ ان الفاظ سے واضح ہے کہ اقبال عام آدمی کو بھی قانون سازی کے عمل میں شریک کرنا چاہتے ہیں۔ یہ شرکت ظاہر ہے کہ منتخب نمائندوں کی معرفت ہو گی۔
3۔علامہ اقبال نے اسلام کے سیاسی فکر کو اپنے ایک مضمون ''مسلم سیاسی فکر‘‘ (Muslim Political Thought) میں بیان کیا ہے۔ یہ مضمون 1910ء میں شائع ہوا۔ وہ لکھتے ہیں ''یہ بات شروع ہی میں متعین ہو گئی کہ سیاسی اقتدارِ اعلیٰ حقیقتاً لوگوں کے پاس ہے۔ اور یہ کہ رائے دہندگان اپنی آزاد اور متفقہ پسند سے اپنا یہ اختیار کسی خاص شخصیت کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اور اس طرح یہ اجتماعی رائے ایک فرد میں منتقل ہو جاتی ہے‘‘۔ (علامہ اقبال: تقریریں‘ تحریریں اور بیانات، مترجم: اقبال احمد صدیقی، ناشر: اقبال اکیڈمی، صفحہ 159)
اقبال نے اسی مضمون میں یہ بتایا ہے کہ سیاسی نظم کے باب میں مسلمانوں میں تین نظریات پیدا ہوئے: سنیوں کی انتخابی خلافت‘ شیعہ تصورِ امامت‘ خوارج کی جمہوریت۔ ان کی تفصیل بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں: ''یہ واضح ہے کہ بنیادی اصول جو قرآن کریم میں مذکور ہے‘ وہ ہے اصولِ انتخاب (Election)۔ اس کی تفصیلات یا اس اصول کو ایک قابلِ عمل حکومتی سکیم میں متشکل کرنے کا کام بعض دیگر امور پر غور و خوض پر منحصر کر دیا گیا ہے۔ الیکشن کا یہ تصور بدقسمتی سے جمہوری خطوط پر آگے نہ بڑھ سکا۔ اور مسلمان فاتحین نتیجتاً ایشیا میں کوئی سیاسی بہتری لانے میں ناکام رہے‘‘۔
جمہوریت کے باب میں علامہ اقبال کے خیالات میں نے انکے اپنے الفاظ میں پیش کر دیے ہیں۔ یہ اتنے واضح ہیں کہ کسی تسہیل یا تشریح کے محتاج نہیں۔ دو باتیں البتہ ایسی ہیں جو وضاحت طلب ہیں۔ ایک یہ کہ اقبال نے متحدہ ہندوستان میں جمہوری اصول کے اطلاقی نتائج کے بارے میں تشکیک کا اظہار کیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ دوسری یہ کہ اپنی شاعری میں وہ جمہوریت پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا سبب کیا ہے؟ علامہ اقبال اپنی تحریروں میں یہ اصول بیان کر رہے ہیں کہ ایک مسلم معاشرے یا نظمِ اجتماعی کو اگر ترقی کرنی ہے تو اجتہاد اور حرکت کے اصول کو اپنا نا ہوگا۔ سیاست میں اس کا ظہور جمہوریت کی صورت میں ہو گا اور یہی اسلام کی روح ہے۔ مسلم معاشرے میں جو جمہوریت ہو گی‘ ظاہر ہے کہ وہ مسلم تہذیبی روایت کے زیرِ اثر ہو گی۔ اقبال کائنات اور سماج کی روحانی تشکیل کے قائل ہیں۔ اسی لیے وہ روحانی جمہوریت کا تصور پیش کرتے ہیں۔
اگر مسلمان ایسے معاشرے میں آباد ہیں جہاں وہ اقلیت میں ہیں تو وہ پارلیمان کے ذریعے اس اجتہاد اور اجماع کے ادارے یا روحانی جمہوریت کو متشکل نہیں کر پائیں گے جو اسلام کی روایت کا حصہ ہے۔ وہ اپنے خطبے ''الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں اس شبہے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''تاہم‘ ہندوستان میں اس حوالے سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کہ ایک غیر مسلم قانون ساز اسمبلی میں اجتہاد کی قوت کا استعمال ایک مشکوک امر ہے‘‘۔ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ کیا مسلمانوں کی الگ اسمبلی ہو جہاں اجتہاد کیا جا سکے؟ کیا متحدہ ہندوستان میں یہ ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے وہ تصورِ پاکستان تک پہنچے کہ اجتہاد کو عملی صورت دینے کیلئے لازم ہے کہ ایک خطۂ زمین ایسا ہو جہاں مسلمان اپنی مرضی سے ایک سیاسی نظم قائم کر سکیں۔ جہاں زمامِ کار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو گی‘ وہاں ان کے نزدیک جو سیاسی نظم بنے گا وہ لازماً جمہوری ہو گا کیونکہ اسلام کی روح جمہوری ہے۔
جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے تو ان کی تنقید جمہوریت پر نہیں‘ مغرب کے سیاسی رویے پر ہے جو ان کے خیال میں بظاہر جمہوری ہے لیکن اس کی روح شہنشاہیت ہے:
ہے وہی سازِکہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
جہاں تک تصورِ جمہوریت کا تعلق ہے تو وہ مغرب کے شکر گزار ہیں جس نے مسلمانوں کو اس جانب سوچنے پر مجبور کیا اور انہیں جمہوری ادارے بنانے کی راہ دکھائی۔ تاہم 'متفرق خیالات‘ (Stray Reflections) میں وہ 'مسلم جمہوریت‘ کے عنوان سے اپنے شذرے میں لکھتے ہیں کہ اس جمہوریت نے یورپی جمہوریت کے برعکس معاشی مواقع کی توسیع کے تصور سے نہیں‘ روحانی اصول سے جنم لیا ہے جو اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ہر انسان مخفی طاقت کا مرکز ہے‘ جسے تعمیرِ سیرت سے ترقی دی جا سکتی ہے۔