آج کل حکمران اشرافیہ کے بیانات دیکھ کر یہ یقین سا ہونے لگتا ہے کہ آج کے حکمرانوں کو بنیادی طور پر اُنہی مسائل کا سامنا ہے جن کا سامنا نصف صدی قبل کے حکمرانوں کو تھا۔ ان کے دعوے اور وعدے بھی لگ بھگ وہی ہیں۔ مسائل کے حل کیلئے کیے جانے والے اعلانات بھی وہی ہیں۔ سیاق وسباق‘ الفاظ اور لب ولہجہ تک وہی ہے۔ بس وقت‘ تاریخ اور بیان دینے والے اربابِ حکومت کے نام بدلتے رہتے ہیں۔
میں نے گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ جس زمانے میں ہم بغیر فرنیچر کے سکولوں میں مٹی اور دھول میں بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے اُس زمانے میں پاکستان میں حیرت انگیز اور تیز رفتار ترقی کا چرچا تھا۔ ترقی کا شور اتنا زیادہ تھا کہ یہ بلند وبالا پہاڑوں کا سینہ چیر کر آزاد کشمیر میں ہم جیسے پرائمری سکول کے طلبہ تک بھی پہنچ رہا تھا۔ پاکستان کو ایشین ٹائیگر قرار دیا جا رہا تھا اور یہ باور کرایا جاتا تھا کہ پاکستان دنیا میں تیز ترین رفتار سے ترقی کرنے والے ملکوں میں شامل ہو چکا ہے۔ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ ملک میں سبز انقلاب برپا ہو گیا ہے۔ زراعت میں جدید مشینری متعارف کرا دی گئی ہے۔ زرعی پیداوار میں ملک خودکفیل ہو چکا ہے اور یہ دور پاکستان میں معاشی ترقی کی تاریخ کا سنہری دور ہے۔ لیکن حقیقت میں ایوب خان کے طویل اقتدار کا یہ 'سنہری دور‘ اپنے خاتمے کے بہت قریب تھا۔ اقتدار کو طوالت بخشنے کیلئے ہی حکومت کے ترقیاتی کاموں کا خوب ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا۔ ترقی اور خوشحالی کی کہانیاں عوام میں مقبول ضرور تھیں مگر ان کہانیوں کی کوئی جھلک برسرِ زمین دکھائی نہیں دیتی تھی۔ یہ درست ہے کہ کچھ انڈیکیٹرز کسی حد تک معاشی ترقی کے دعووں کی تصدیق وتائید کرتے تھے لیکن دوسری طرف یہ ملک میں تشویشناک حد تک بڑھتی ہوئی معاشی ناہمواری اور عدم مساوات کو بھی اجاگر کرتے تھے۔ معاشی خوشحالی کا فائدہ ایک محدود طبقہ اٹھا رہا تھا اور لاکھوں‘ کروڑوں لوگ غربت‘ بیروز گاری اور بھوک وننگ کا شکار تھے۔ اس صورتحال پر خود سرکار کے ساتھ کام کرنے والے دانشور اور ماہرین بھی اپنی گہری تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ ڈاکٹر محبوب الحق کی رپورٹ اور 22خاندانوں کا قصہ اس کی ایک کلاسیک مثال ہے۔ اسی طرح دوسرے کئی ماہرین کے علاوہ عالمی بینک کے ماہرِ معاشیات شاہد جاوید برکی نے بھی ایوب دور کی ترقی اور جی ڈی پی انڈیکیٹرز پر ایک بڑی جامع رپورٹ پیش کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ معاشی ترقی کی جڑیں عدم مساوات میں بڑی گہرائی تک پیوست ہیں۔ یہ عدم مساوات مختلف علاقوں اور عوام کے مختلف طبقات کے درمیان مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اپنی رپورٹ میں انہوں نے اُن علاقوں اور لوگوں کا تفصیلی ذکر کیا جو اس نام نہاد ترقی سے مستفید ہو رہے تھے۔ ایوب خان نے جس چمک دمک کو ترقی قرار دے کر اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کی کوشش کی وہ دراصل غیر ملکی امداد کی مرہونِ منت تھی۔ ان کے دوسرے پنج سالہ منصوبے میں غیر ملکی امداد کُل سرمایہ کاری کا 40فیصد تھی۔ ترقی اور روزگار کے بڑے دعووں کے باوجود دوسرے پنج سالہ منصوبے کے دوران بیروزگار لوگوں کی تعداد 58 لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ اسی غربت وافلاس اور طبقاتی تقسیم کے نتیجے میں آگے چل کر 'روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا مقبول نعرہ سامنے آیا جس نے ہماری ملکی سیاست کا رُخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ البتہ ایوب دور کی حکمران اشرافیہ رائے عامہ کو یہ باور کرانے میں کافی حد تک کامیاب رہی کہ ملک انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کر رہا ہے اور یہاں صنعتی انقلاب رونما ہو رہا ہے۔ اعداد وشمار بھی یہ بتا رہے تھے کہ ملک میں صنعت انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے لیکن عملاً ہو یہ رہا تھا کہ حکومت جو بھاری غیر ملکی امداد وصول کرتی تھی اس میں سے کچھ رقم فیکٹریاں لگانے پر خرچ کی جاتی تھی۔ کچھ عرصہ تک ان فیکٹریوں کو سرکاری کنٹرول میں چلایا جاتا اور پھر یہ نجی شعبے میں اپنے پسندیدہ اور مراعات یافتہ لوگوں کو فروخت کر دی جاتی تھیں۔ اس سرگرمی سے اعداد وشمار میں بڑے پیمانے پر صنعتوں کا قیام ظاہر ہوتا تھا۔ یہ ایک بڑی معاشی سرگرمی تھی جس کو تمام انڈیکیٹرز معاشی ترقی دکھاتے تھے لیکن اس عمل کے نتیجے میں جو معاشی عدم مساوات پیدا ہوئی‘ اس کو کہیں نہیں دکھایا جا رہا تھا۔ عالمی معاشی ادارے اور تجزیہ کار بھی اس کو تیز رفتار صنعتی ترقی قرار دیتے تھے۔ اس ترقی کے ثبوت کے طور پر گاہے بڑی بڑی عالمی شخصیات کی گواہی بھی پیش کی جاتی تھی۔ کبھی صدر جانسن کا بیان کوٹ کیا جاتا اور کبھی چارلس ڈیگال کے تعریفی کلمات پیش کیے جاتے کہ عالمی برادری پاکستان کی صنعتی ترقی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ظاہر ہے یہ بیانات سرد جنگ کے تناظر میں ایک خاص معاشی ماڈل کی مصنوعی کامیابی کیلئے چلائی جانے والی عالمی مہم کا حصہ تھے۔
اس وقت کی اشرافیہ کا ایک پسندیدہ بیانیہ یہ بھی تھا کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام لائے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں ترقی اور سرمایہ کاری کے دروازے کھلے ہیں۔ اس دعوے کے پس منظر میں وہ سیاسی عدم استحکام کارفرما تھا جس کا ملک طویل عرصے سے شکار تھا۔ قیامِ پاکستان کے ابتدائی 11سالوں میں حکومتیں بدلنے کا ایک نیا ریکارڈ قائم ہو چکا تھا۔ اس عرصے میں چار سربراہانِ ریاست اور سات وزیراعظم بدل چکے تھے۔ اس پس منظر میں ایوب خان یہ نتیجہ اخذ کر چکے تھے کہ سیاستدان نااہل ہیں‘ وہ حکومت کرنے اور ملک کا انتظام وانصرام چلانے کے قابل نہیں۔ اسی سوچ کے پیشِ نظر آگے چل کر سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر سیاست سے باہر نکالنے کیلئے قوانین بنائے گئے۔ سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عوام کے بارے میں بھی ایوب خان کی رائے زیادہ اچھی نہیں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ عوام جاہل اور بے شعور ہیں اور قومی مسائل ومعاملات کے بارے میں رائے دینے اور فیصلہ کرنے کے قابل نہیں۔ عوام کو سیاسی معاملات میں براہِ راست شرکت سے روکنے کیلئے ہی بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت معدودے چند لوگوں کو صدر کے انتخاب کا حق دیا گیا اور پھر ان گنے چنے نمائندوں کو نوکر شاہی کے ذریعے ایوب خان کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا گیا۔ صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کو شکست دینے کیلئے نہ صرف بنیادی جمہوریتوں کے نظام کو استعمال کیا گیا بلکہ اس مقصد کیلئے وسیع پیمانے پر بنیاد پرست قوتوں کو بھی بروئے کار لایا گیا۔
ایوب دور میں حکمران اشرافیہ نے جو کارنامے انتہائی فخر سے اور نمایاں انداز میں پیش کیے ان میں سبز انقلاب سرفہرست تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ٹریکٹر‘ زرعی مشینری اور زرعی ادویات کے استعمال نے ملک میں سبز انقلاب برپا کر دیا ہے۔ پاکستان نہ صرف زراعت کے شعبے میں خودکفیل ہو چکا ہے بلکہ اب یہ دوسرے ملکوں کو خوراک مہیا کرنے کی پوزیشن میں بھی آ گیا ہے۔ دوسرا کارنامہ صنعتی انقلاب تھا جو بنیادی طور پر سرکاری سرپرستی میں صنعت لگا کر بعد ازاں اسے فروخت کرنا تھا۔ ان دونوں کاموں کا انحصار غیر ملکی بالخصوص امریکی امداد پر تھا جس کے بغیر سبز انقلاب اور صنعتی انقلاب ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ جہاں تک سیاسی استحکام کے دعووں کا تعلق ہے تو آنے والے دنوں میں ملک جن طوفانی حالات سے گزرا اس نے اس استحکام کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا‘ جو حکمران اشرافیہ نے دس سال کے طویل عرصے میں بڑی محنت سے قائم کیا تھا۔ آج وہ سبز انقلاب اور سنہری دور ماضی کا قصہ ہے ۔ اس کے زمین پر کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ سیاسی عدم استحکام آج بھی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور آج بھی حکمران اشرافیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام لا رہے ہیں‘ لیکن ان کے یہ دعوے زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتے۔