ایک طرف غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے جاری ہیں تو دوسری طرف بین الاقوامی محاذ پر اسرائیلی جارحیت پسندوں کو ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف‘ جو اقوام متحدہ کا سب سے اہم قانونی ادارہ ہے‘ نے اپنے تازہ ترین فیصلے میں دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ چار کے مقابلے میں 11 ججز نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی قابض انتظامیہ کی پالیسیوں اور اقدامات کو بھی ناجائز ‘غیر قانونی اور فلسطینیوں کے ان تمام حقوق کے منافی قرار دیا ہے جو انہیں جنیوا کنونشنز کے تحت حاصل ہیں۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے یہ فیصلہ 2022ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے بھیجے گئے ایک ریفرنس پر دیا ہے جس میں عدالتِ انصاف سے مقبوضہ عرب علاقوں خصوصاً دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی قانونی حیثیت کے بارے میں رائے دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ عدالتِ انصاف کا یہ فیصلہ نان بائنڈنگ ہے اور بین الاقوامی رائے عامہ اور اداروں کی طرف سے ماضی کے مطالبات اور قراردادوں کی طرح اسرائیلی حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ عدالتِ انصاف کے اس فیصلے کے مندرجات کو تسلیم کرے گی‘ تاہم قانون اور بین الاقوامی امور کے ماہرین کی رائے ہے کہ اقوامِ متحدہ اور دنیا کے دیگر ممالک کیلئے اس فیصلے کو نظر انداز کرنا مشکل ہو گا‘ خصوصا ًاس صورت میں جب غزہ میں اسرائیل کی بربریت تمام حدیں پار کر چکی ہے اور اسرائیلی وزیراعظم جنگ بندی اور امن کی تمام اپیلوں کو مسترد کر چکا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ خصوصاً فلسطینی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے میں عالمی عدالتِ انصاف کا یہ فیصلہ فلسطینی عوام کی اپنے بنیادی انسانی حقوق اور حقِ خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس فیصلے میں فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق اور اپنی سرزمین پر ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے رہنے کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت پر جاری ہوا ہے جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے مطابق اسرائیل دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور بیت المقدس کے قرب و جوار میں فلسطینی زمین کو ہتھیا کر اور ان کے گھروں کو مسمار کر کے نئی یہودی بستیاں بسانے کا عمل تیز کر چکا ہے تاکہ فلسطین میں دو ریاستوں کے قیام کے فارمولے کے تحت فلسطین کے مسئلے کا ایک مستقل حل ناممکن بنا دیا جائے۔ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے اس خدشے کی تائید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مغربی کنارے اور بیت المقدس (مشرقی) کے ارد گرد فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے یہ اقدامات ان علاقوں کو اسرائیل میں مستقل طور پر ضم کرنے کے مترادف اور بین الاقوامی قانون کی واضح خلاف ورزی ہیں کیونکہ جنیوا کنونشنز کے مطابق کسی مقبوضہ علاقے کو مستقل طور پر کوئی ملک ضم نہیں کر سکتا۔ فیصلے میں اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو فلسطینی عوام کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنانے کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ فیصلے کے مطابق مقبوضہ علاقوں کے بارے میں اسرائیل کی پالیسیاں اور اقدامات نسل پرستی کے مترادف ہیں جو بین الاقوامی قانون کی نظر میں ناقابلِ قبول ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ان پالیسیوں اور اقدامات کو اسرائیل جتنی جلدی ختم کر دے بہتر ہے ورنہ فلسطینی عوام کو صحت‘ سماجی ترقی اور معاشی لحاظ سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ لیکن اپنے ردِ عمل میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے عالمی عدالت کے فیصلے کو رَد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس کے علاقے اسرائیل کا حصہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان علاقوں میں اسرائیل فلسطینیوں کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ نئی یہودی بستیاں بسانے کی پالیسی جاری رکھے گا۔
عالمی عدالتِ انصاف کے اس فیصلے کا اعلان ہونے سے قبل نیتن یاہو کی کابینہ کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رکن اور وزیر خزانہ بذلیل سموٹرچ(Bezalel Smotrich) نے دھمکی دی تھی کہ اگر عالمی عدالت نے فلسطینیوں کے حق میں فیصلہ دیا تو وہ وزیر اعظم نیتن یاہو سے کہیں گے کہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کے عمل کو تیز کر دیا جائے۔ گزشتہ جون میں جب یورپ کے تین ممالک سپین‘ آئرلینڈ اور سویڈن نے صدر محمود عباس کی قیادت میں قائم فلسطینی اتھارٹی کو ایک آزاد خود مختار ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا توبذلیل سموٹرچ نے مشرقی بیت المقدس کے نواحی علاقوں میں آباد فلسطینی باشندوں کو ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل کر کے تین نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ یاد رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت اپنی بقا کیلئے کابینہ میں شامل مذہبی انتہا پسندوں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے تعاون کی محتاج ہے‘ اس لیے زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اسرائیل عالمی عدالتِ انصاف کے اس فیصلے کا اثر نہیں لے گا بلکہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کی تعداد میں اضافہ کر کے ان علاقوں کے اسرائیل میں انضمام کی راہ ہموار کرنے کی کوشش جاری رکھے گا۔ مگر اسرائیل کو دنیا میں کسی ایک ملک کی بھی اس مسئلے پر حمایت حاصل نہیں ہے۔ یورپ اور خود امریکہ‘ جو اسرائیل کا سب سے بڑا مددگار ہے‘ بھی ان علاقوں میں اسرائیل کے دعوے کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ امریکی و یورپی ممالک 1993ء میں مرحوم یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن کے درمیان اوسلو معاہدے کے تحت فلسطین میں اسرائیل کیساتھ ساتھ ایک آزاد ‘خود مختار اور بااختیار فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں ہیں اور غزہ میں اسرائیلی جارحیت کی موجودگی میں دو ریاستی حل کو مسئلے کا واحد حل قرار دے چکے ہیں۔
دنیا کی تمام تر توجہ غزہ پر مرتکز ہونے کی وجہ سے مغربی کنارے میں نیتن یاہو کی حکومت کو ایسے اقدامات کا موقع ملا جن کے نتیجے میں فلسطین میں ایک علیحدہ اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام حتمی طور پر خارج از امکان ہو جائے۔ ان اقدامات میں اسرائیلی فوج کی مدد سے مغربی کنارے پر یہودی آباد کاروں کی طرف سے فلسطینی آبادیوں‘ گھروں اور زمینوں کو ہتھیانا اور ان پر قاتلانہ حملے کرنا بھی شامل ہے۔ اگرچہ غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کیلئے موجودہ صورتحال سنگین ترین اور انتہائی مایوس کن ہے مگر تجزیہ کاروں کی رائے میں عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اُن کیلئے امید کی ایک کرن ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ عالمی رائے عامہ مکمل طور پر نہ صرف غزہ بلکہ مغربی کنارے کے معاملے میں بھی اسرائیلی اقدامات کے خلاف ہو چکی ہے۔ دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے نہ ہوئے ہوں ۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں یورپ سمیت کئی ممالک کی حکومتیں فلسطینیوں کے حق میں اقدامات پر مجبور ہو چکی ہیں۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی نئی حکمت عملی نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کے ساتھ فلسطینی مہاجرین کی امداد کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کی مالی امداد بحال کر دی ہے۔ تجزیہ کاروں کو یقین ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ عالمی سطح پر اسرائیلی اقدامات کے خلاف پائی جانے والی مخالفت کی بنیاد پر ایک وسیع تر اور زیادہ مؤثر تحریک کا باعث بن سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں غزہ اور مغربی کنارے میں اسرائیلی جارحیت کو روکنے کا یہ واحد راستہ نظر آتا ہے ‘لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے اسرائیل میں مذہبی انتہا پسندوں اور دائیں بازو کے نظریات کے حامل سیاسی عناصر کی حکومتوں نے فلسطین کے مسئلے کا ایک مستقل اور پائیدار حل مزید پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے۔