"SSC" (space) message & send to 7575

دیوندر اِسر: کیمبل پور سے کان پور تک

پرانی جگہوں کی تلاش میں گھومتا پھرتا میں ایک دن کیمبل پور (اٹک) کے تاریخی کالج جا پہنچا۔ ان روشوں پر چلتے ہوئے مجھے کتنے ہی چہرے یاد آئے جنہوں نے علم‘ ادب اور سیاست کی دنیا میں نام پیدا کیا۔ انہی میں ایک چہرہ دیوندر اِسر کا بھی ہے جس نے اس کالج سے تعلیم حاصل کی‘ یہاں کے اساتذہ سے کسبِ فیض کیا‘ اس کالج کے میگزین ''مشعل‘‘ سے لکھنے کا آغاز کیا اور پھر اردو اور ہندی کا ایک معروف کہانی کار‘ ناول نویس اور نقاد بنا۔
دیوندر اِسر حسن ابدال میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم آریہ سماج سکول کیمبل پور سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان بھی ہائی سکول کیمبل پور سے پاس کیا۔ سکول کے زمانے سے ہی دیوندر کا ذہن اپنے اردگرد کے سیاسی اور سماجی حالات سے آشنا ہو چکا تھا۔ اس کا رجحان شروع سے بائیں بازو کی سیاست کی طرف تھا۔ سکول کے زمانے میں اس نے دوستوں کے ہمراہ اپنی ریڈ آرمی (Red Army) بنائی تھی۔ میٹرک کے بعد وہ کالج میں آیا تو یہاں کی فضا میں اسے علم و ادب کی خوشبو محسوس ہوئی۔ غلام جیلانی برق‘ صدیق کلیم اور پروفیسر محمد اجمل اُس کے اساتذہ میں شامل تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی ذات میں انجمن تھا۔ اس نے ان سب سے بہت کچھ سیکھا۔ یہیں پر اس کے لکھنے کی ابتدا ہوئی۔ دیوندر نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس کی ادبی پیدائش اور پرورش میں اجمل صاحب کا اہم کردار تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کو انگریزی‘ روسی اور اردو ادب اور ان کے رجحانات کے بارے میں بتاتے تھے۔ دیوندر کے مطابق اگرچہ وہ فلسفے کے استاد تھے لیکن ان کا علم اور ان کی دلچسپی کے لیے موضوع کی کوئی بندش نہ تھی‘ نہ ہی کوئی حد۔ وہ بار بار ہماری حوصلہ افزائی کرتے تھے کہ ہم کچھ نہ کچھ لکھیں۔ ایک بار میں نے ایک کہانی لکھی اور ان کو دکھائی تو انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہانی کو ''ساقی‘‘ رسالے میں بھیجنے کو کہا۔ دیوندر نے سوچا کہ ''ساقی‘‘ تو بڑا رسالہ ہے جہاں کرشن چندر‘ عصمت‘ منٹو‘ احمد علی اور حسن عسکری چھپتے تھے‘ لیکن اجمل صاحب کے اصرار پر دیوندر نے یہ کہانی ''ساقی‘‘ کو بھیج دی۔ ادھر ملک کے سیاسی حالات میں جوار بھاٹا آ گیا ۔ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو چکا تھا‘ فسادات کی آگ بھڑک اٹھی تھی اور سرحد کے دونوں طرف سے ہجرت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ پھر ایک دن دیوندر کے خاندان نے بھی اپنا اسباب سمیٹا اور ایک قافلے کے ہمراہ چل پڑے۔ دیوندر کی ساری دنیا حسن ابدال‘ کیمبل پور اور راولپنڈی تک محدود تھی۔ جب اسے چھٹیاں ہوتیں تو راولپنڈی آ جاتا تھا جہاں اس کا ننھیال تھا اور جہاں اس کے ماموں کاروبار کرتے تھے۔ اس نے اپنی زندگی کی انیس بہاریں نہیں دیکھی تھیں کہ ہندوستاں کی تقسیم کا اعلان ہو گیا۔ ہجرت کا یہ سفر آسان نہ تھا۔ ان کا قافلہ دہلی کے ریلوے سٹیشن پہنچا تو اس نے سٹیشن کے ایک سٹال پر ''ساقی‘‘ کا افسانہ نمبر دیکھا جس میں اس کی کہانی ''ردِعمل‘‘ چھپی تھی۔ یہ کامیابی کے زینے پر اس کا پہلا قدم تھا۔
دیوندر اِسر کی شخصیت پارہ صفت تھی۔ وہ کسی ایک شے پر قانع نہیں تھا۔ نت نئے تجربے اس کی ذات کا حصہ تھے۔ پہلی کہانی لکھنے کے بعد اس نے ڈرامہ ''بھوکے دیوتا‘‘ لکھا۔ اس سے پہلے وہ تنقیدی مضمون ''آرٹ کا سائنٹیفک نظریہ (1946ء)‘‘ لکھ چکا تھا۔ اردو کے ساتھ ساتھ اس نے ہندی زبان میں بھی طبع آزمائی کا سوچا اور پہلی ہندی کہانی 1947ء میں لکھی۔ ہجرت کے بعد وہ کیمبل پور سے کان پور آ گئے تھے۔ اسی دوران اس نے الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے اکنامکس کیا اور واپس کانپور آ گیا جہاں وہ 1949ء میں اُردو روزنامہ ''امرت‘‘ کے شعبہ ادارت سے وابستہ ہو گیا۔ کانپور میں وہ روزنامہ ارتقا اور شعلہ کے ساتھ بھی وابستہ رہا۔ 1950ء میں وہ دہلی منتقل ہو گیا جہاں اس نے 1952ء میں دہلی یونیورسٹی سے بی ایڈ کا امتحان پاس کیا۔ ادبی سرگرمیوں کو ایک نیا رُخ اور پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لیے اس نے دہلی میں ''کلچرل فورم‘‘ کی بنیاد رکھی۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ دیوندر پاکستان سے جانے کے بعد باقاعدہ طور پر کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں شریک ہوتا تھا اور ایک بار تو اسے ان سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار بھی کر لیا گیا اور وہ کچھ عرصہ جیل میں بھی رہا لیکن بعد میں اس کے خیالات میں تبدیلی آ گئی۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ اس نے دہلی میں کلچرل فورم کی بنیاد رکھی۔ دیونندر اِسر ایک کثیر المطالعہ ادیب تھا۔ اسے انگریزی ادب اور ادبی تحریکوں کا پورا ادراک تھا۔ اس کے ذہنی افق پر متعدد عالمی رجحانات کے رنگ تھے۔ اسے کورنیل یونیورسٹی میں ایک پروگرام کے حوالے سے فرانس‘ اٹلی‘ ڈنمارک‘ جرمنی‘ سوئٹزرلینڈ‘ انگلینڈ اور ایران جانے کا موقع ملا۔ اس کی دلچسپی صرف انگریزی‘ اردو‘ ہندی اور پنجابی ادب تک محدود نہ تھی‘ اس کے موضوعات کا کینوس بہت وسیع تھا جن میں خواتین کی آزادی‘ آرٹ‘ سٹریٹ آرٹ‘ ٹیلی ویژن‘ سٹریٹ تھیٹر‘ سینما‘ سماج اور معیشت کے موضوعات شامل تھے۔ اس کے پسندیدہ ادیبوں میں ٹالسٹائی‘ دوستو ویسکی اور میلان کنڈیرا شامل تھے۔ اس کے پسندیدہ کرداروں میں مہاتما بدھ اور بھگت سنگھ سرِ فہرست تھے۔ اس کے افسانوں کے مجموعوں میں گیت اور انگارے (1952ء)‘ شیشوں کا مسیحا (1955ء)‘ کینوس کا صحرا (1983ء) اور پرندے کیوں نہیں اڑتے (1992ء) شامل ہیں۔ اس کے افسانوں کا Treatment روایتی نہیں‘ وہ اپنے افسانوں میں 'ان کہے‘ کا اظہار کرنے کے لیے کئی طریقے اپناتا ہے جن میں شعور کی رو‘ علامت‘ عکس‘ خواب ‘ تخیل اور Fantasy شامل ہیں۔ ایک انٹرویو میں دیوندر نے بتایا تھا کہ ہم اپنے ہونے کے معنی کو محسوس اور بیان کر سکتے ہیں۔ ہمارے وجود کی پرتوں کو ہمارے الفاظ کے کوڈز (codes) کھولنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ افسانوں کے علاوہ دیوندر اِسر نے ایک ناولٹ ''خوشبو بن کر لوٹیں گے‘‘ تحریر کیا۔ یہ ایک سوانحی ناول ہے جس میں دیوندر کی زندگی اور شخصیت کے کئی رنگ نظر آتے ہیں۔ یہ ناولٹ بھی اس کے افسانوں کی طرح اپنی ہیئت اور اسلوب میں منفرد ہے۔ اردو ادب کے نقادوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس ناولٹ کو کسی ایک صنف میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ دیوندر اِسر کا اپنا خیال تھا کہ ''خوشبو بن کر لوٹیں گے‘‘ کی صنف کا تعین کرنا بہت مشکل ہے۔ ایک انٹرویو میں اس نے بتایا کہ اسے شعور کی رو کے تحت لکھی ہوئی کئی کہانیوں کا سلسلہ کہا جائے یا آٹو رائٹنگ‘ یادداشتیں یا خود نوشت‘ سوانح عمری‘ اسے فکشن کہیں تو بھی غلط نہ ہو گا۔ دیوندر اِسر کی شخصیت کی تیسری پہچان اس کی تنقید ہے۔ دیوندر کے تنقید کے مجموعوں میں فکر وادب اور نفسیات‘ ادب اور جدید ذہن‘ مستقبل کے روبرو‘ ادب کی آبرو اور نئی صدی اور ادب شامل ہیں۔ دیوندر نے اردو کی روایتی تنقید سے ہٹ کر تنقید میں نئے موضوعات متعارف کرائے۔ وہ مغربی ادب کے تمام تنقیدی رحجانات سے آگاہ تھا اور جانتا تھا۔
دیوندر کی شخصیت کثیر الجہت تھی۔ اس نے اردو‘ ہندی اور پنجابی میں لکھا۔ اس نے افسانے‘ ناولٹ‘ تنقید اور تراجم کی دنیا میں کام کیا۔ ادب کی دنیا کو اتنا باثروت بنانے والے شخص کی اپنی زندگی بہت خاموش اور اداس تھی۔ زندگی کے ان دنوں میں اسے اپنے لڑکپن کے دن بے طرح یاد آجاتے جو اس نے حسن ابدال ‘کیمبل پور اور راولپنڈی میں گزارے تھے اور پھر اس کے سامنے کیمبل پور کالج میں اپنے استاد پروفیسر اجمل کا چہرہ آ جاتا جنہوں نے اسے لکھنے کی راہ پر لگایا تھا۔ وہ سوچتا کہ وہ زندہ ہوتے تو ادب میں اس کی کامیابیوں پر کتنا خوش ہوتے۔ آج کیمبل پور کالج کی روشوں پر چلتے ہوئے مجھے کئی پرانے چہرے یاد آ گئے جن میں ایک چہرہ دیوندر اِسر کا ہے۔ جس نے اس کالج سے تعلیم حاصل کی‘ یہاں کے اساتذہ سے کسبِ فیض کیا اور پھر اردو اور ہندی کا ایک معروف کہانی کار‘ ناول نویس اور نقاد بنا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں