شنید ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید نو مئی کے واقعات اور بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے بعد بھی مختلف ذرائع سے خان صاحب سے رابطے میں تھے۔مبینہ طور پرعسکری حکام نے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی مشکوک سرگرمیوں پر انہیں ایک سے زائد مرتبہ خبردار کیا تھا لیکن وہ باز نہ آئے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید نو مئی کے واقعات کی منصوبہ بندی میں بھی ملوث تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دورانِ سروس فیض حمید کئی خلافِ قانون سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ٹاپ سٹی ہاؤسنگ کا معاملہ تو سبھی کے علم میں ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جنرل فیض حمید الیکشن کمیشن سمیت متعدد اداروں کے معاملات میں بھی مداخلت کرتے رہے اور ان سے اپنی مرضی کے کام کراتے رہے۔ اس حوالے سے ایک آڈیو لیک بھی سامنے آچکی ہے۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے بھی یہ باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ فیض حمید الیکشن کمیشن میں زیرِ سماعت مقدمات میں مداخلت کرتے رہے۔ شنید ہے کہ الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف لگے ممنوعہ فنڈنگ کیس کو ختم کرانے کے لیے انہوں نے 2019ء میں اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر کو ڈرایا دھمکایا جس کی وجہ سے یہ معاملہ لٹک گیا۔ اس کیس پر کام کرنے والی ٹیم کو بھی دھمکیاں موصول ہوئیں۔ حکومتی سطح پر جن ماہرین کو ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا تھی ان کو بھی روکنے کی کوشش کی گئی۔مبینہ طور پر اس کیس میں رابطہ کاری کے لیے پارلیمنٹ کی ایک اہم شخصیت کو استعمال کیا گیا اور اس شخصیت کو ممنوعہ فنڈنگ کیس ختم کرانے کے لیے چیف الیکشن کمشنر کے پاس بھیجا جاتا رہا۔ میں نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس بارے بتایا تھا کہ پارلیمنٹ کی ایک شخصیت چیف الیکشن کمشنر پر ممنوعہ فنڈنگ کیس کو ختم کرانے اور عمران خان سے خفیہ ملاقات کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔ اس پر صدر عارف علوی نے مجھے ذاتی طور پر ایوانِ صدر میں مدعو کیا اور فرینڈلی ماحول میں پوچھا کہ وہ کون سی شخصیت ہے جو ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ روکنے کی کوشش کر رہی ہے‘ تو میں نے ان کو دو افراد کے نام بتا دیے۔ میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس حوالے سے آگاہ کرنا چاہتا تھا لیکن مقتدر حلقوں میں موجود میرے کچھ دوستوں نے مجھے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ میری یہ کوشش بے سود جائے گی کیونکہ ان سب کارروائیوں کا مرکز ایک ہی ہے۔
جنرل (ر) فیض حمید نے الیکشن کمیشن کے دیگر فیصلوں میں بھی مداخلت کی۔ تحریک انصاف کے جن رہنماؤں نے الیکشن کمیشن کی توہین کی بادی النظر میں ان کی پشت پر بھی کسی اہم شخصیت کا ہاتھ تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کو دھمکانے اور لالچ دینے کی کوشش کی گئی اور چیف الیکشن کمشنر سے ملاقاتیں کرنے والے اراکینِ پارلیمنٹ نے اپنے قریبی میڈیا پرسنز کو الیکشن کمیشن کے خلاف مہم چلانے کی ہدایت کی تھی۔ جنرل (ر) فیض حمید آرمی چیف بننے کے خواہاں تھے اور اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اُنہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا۔ یہاں تک کہ وہ طالبان کے ساتھ ہاتھ ملانے کو بھی تیار تھے۔ بطور ڈی جی آئی ایس آئی وہ حکومت کے اُن احکامات کو بھی بجا لاتے تھے جو اُن کے دائرہ کار سے باہر اور خلافِ قانون تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اُس وقت کے وزیر اعظم کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ اس گٹھ جوڑ کی وجہ سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ جو جو سیاستدان یا غیر سیاسی عہدیداراُن کے پے رول پر تھے ان سب کا محاسبہ کیا جائے۔ کسی کو بھی ملک میں انتشار پھیلانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کیس میں جن افسران کو شاملِ تفتیش کیا گیا ہے ان میں بریگیڈیئر (ر) نعیم‘ بریگیڈیئر (ر) غفار اور کرنل (ر) عاصم شامل ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) غفار اور بریگیڈیئر (ر) نعیم کا تعلق ضلع چکوال سے ہے۔ ان پر الزام ہے کہ یہ پیغام رسانی کا کام کر رہے تھے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے آفس پر چھاپے کے دوران مبینہ طور پر ترجمان تحریک انصاف رؤف حسن کے غیر ملکی شخصیات سے روابط کے شواہد سامنے آئے ہیں۔پی ٹی آئی کارکنوں کے موبائل فون فرانزک کے دوران بھی غیر ملکی شخصیات سے روابط کا انکشاف ہوا۔ رؤف حسن اور بین الاقوامی جریدے انٹر سیپٹ کے صحافی رائن گرم وٹس ایپ کے ذریعہ رابطوں میں تھے۔سُنا ہے کہ رؤف حسن اور رائن گرم کا باقاعد ہ رابطہ جنوری 2024ء میں ہوا ۔ رائن گرم نے 8 جون کو رؤف حسن سے بانی پی ٹی آئی کے 15 مئی کو لکھے مواد کی تصدیق چاہی۔ یہ وہی مدت ہے جب اس جریدے میں پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف آرٹیکلز لکھے گئے۔بانی پی ٹی آئی نے ایک بہت مضبوط لابی کی سفارش پر رؤف حسن کو پارٹی کا سیکرٹری اطلاعات مقرر کیا تھا حالانکہ رؤف حسن 2013ء کے بعد تحریک انصاف سے لاتعلق ہو چکے تھے اور اپنی ایک ایجنسی چلا رہے تھے۔ رؤف حسن کے حوالے سے یہ بھی واضح رہے کہ یہ میاں نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری اور سابق نگران وزیر فواد حسن فواد کے سگے بھائی ہیں۔
سیاست سے ہٹ کر اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو ہمارے سیاستدانوں کی کوتاہ بینی کی وجہ سے بلوچستان میں چلنے والی تحریکیں ایک سنجیدہ مسئلہ بن رہی ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے سیاستدانوں اور مقتدرہ کی غلط پالیسیوں نے حالات کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ اب ہر جگہ عوام سراپا احتجاج ہیں۔ یقینا اب بھی حالات کنٹرول میں آ سکتے ہیں اور خوش اسلوبی سے معاملات کو سنبھالا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے حکومتی سنجیدگی ضروری ہے۔ بلوچستان میں شرپسندی کو ہوادینے والے عناصر کو معلوم نہیں کہ بلوچستان کا پاکستان سے ہٹ کر کوئی وجود نہیں۔ ایسی صورت میں یہ علاقہ کانگو سے بھی بدتر ایک ایسی معیشت کا منظر پیش کرے گا جوعالمی طاقتوں کی سازشوں کی آماجگاہ ہو گی اور جس سے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کے عوام کا ہوگا۔ اس لیے بلوچستان کے عوام کو بھی شرپسندعناصر کی باتوں پر دھیان دینے کی کوئی ضرورت نہیں‘ بلکہ انہیں شر پسندی پھیلانے والے عناصر کے خلاف ریاست کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ بلوچستان کے حالات بہتری کی جانب گامزن ہو سکیں۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی ایک جہاندیدہ سیاسی شخصیت ہیں۔سابق نگران حکومت میں ان کے پاس وفاقی وزارتِ داخلہ کی اہم ذمہ داریاں تھیں جبکہ وہ بلوچستان میں صوبائی وزیر داخلہ کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کو صوبے میں شرپسندی کو ہوا دینے والے عناصر سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔ جن تنظیموں سے بات چیت کے ذریعے معاملات سلجھ سکتے ہیں اُن سے بات چیت کی جانی چاہیے اور جو عناصر صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں اُن سے اسی زبان میں بات کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے حکومت اور عوام کا ایک پیج پر ہونا لازم ہے۔