"AYA" (space) message & send to 7575

کہاں چلے تھے کہاں پہ آئے

پرانے وقتوں کے گائیک شنکر داس گپتا کا دل موہ لینے والا گانا ہے جو کیا خوب ہماری داستانِ ستم کی عکاسی کرتا ہے ''عجیب ہے زندگی کی منزل‘ کہاں چلے تھے کہاں پہ آئے‘‘۔ بانیانِ پاکستان جب منٹو پارک لاہور میں 23 مارچ 1940ء کو اکٹھے ہوئے تھے‘ کیسے کیسے خیالات اُن کے ذہنوں سے گزرے ہوں گے۔ اور جب بنگال کے اے کے فضل الحق نے قراردادِ پاکستان پیش کی تو کیسے تصورات اُن کے سامنے ہوں گے کہ جس مملکت کی بات ہم شروع کر رہے ہیں کیا رنگ وبو اُس کی زینت کا سامان بنیں گے‘ کیسا گلستان وہ ہوگا‘ الحمرا کی خوبصورتی‘ مغلوں کی شہنشاہی‘ یہ سب خصوصیات اُس میں سموئی ہوں گی۔ علم وادب کا گہوارا ہو گا‘ دنیائے اسلام رشک بھری نظروں سے اس آنے والی مملکت کو دیکھے گی۔ ایسی امیدوں کو سمیٹ کر بانیانِ پاکستان چلے تھے۔ ہندوستان کا بٹوارا ہو گیا‘ اسلام کے نام پر ایک نئی مملکت معرضِ وجود میں آ گئی لیکن کہاں چلے تھے کہاں پہ آئے۔ گانے کی یہ لائن بھی ہے ''نہ کوئی رستہ نہ کارواں ہے‘ ستم کی دیوار درمیاں ہے‘‘۔ ہماری کہانی کچھ ایسی ہی رہی ہے۔
آج کے نوجوان شاید یہ بات سمجھ نہ سکیں کہ اب تو ضیا الحق یاد آنے لگے ہیں۔ ڈکٹیٹرِ مطلق تھے اور نہایت اہتمام سے پاکستانی جمہوریت کا جنازہ انہوں نے نکالا۔ لیکن اگر ذرا غور کریں پھر بھی وہ کسی نہ کسی قاعدے کے پابند تھے۔ آئین معطل ہوا اور ایک طرف رکھ دیا گیا لیکن ختم نہ ہوا۔ عوامی تائید کے تابع نہ تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عوامی تائید کی ضرورت محسوس ہوئی اور اسی احساس کے تحت دسمبر 1984ء میں ایک مضحکہ خیز قسم کا ریفرنڈم کرا ڈالا۔ لطیفوں سے بھرا وہ ریفرنڈم تھا لیکن اتمامِ حجت تو کرنا پڑا۔ اور پھر اگلے سال بادل نخواستہ الیکشن بھی کرانا پڑے۔ غیر جماعتی بنیادوں پر 1985ء کے الیکشن کرائے گئے لیکن انتخابات ہوئے تو سہی‘ ووٹ ڈالے گئے اور ووٹ گِنے بھی گئے۔ تب بھی کوئی چیف الیکشن کمشنر تھا لیکن اُس کا نام سکندر سلطان راجہ نہ تھا۔ پیپلز پارٹی نے حماقت کی اور الیکشن کا بائیکاٹ کیا‘ لیکن الیکشن کے نتیجے میں ایک ایسی قومی اسمبلی منتخب ہوئی جس پر جنرل ضیا الحق کا حکم نہ چلتا تھا۔
جنرل صاحب چاہتے تھے کہ اُن کے من پسند امیدوار خواجہ صفدر (خواجہ آصف کے والد) سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوں لیکن قومی اسمبلی میں ایک بغاوت کی سی کیفیت پیدا ہو چکی تھی اور ممبران نے جنرل ضیا کی رائے کو ٹھکراتے ہوئے فخر امام کو سپیکر منتخب کر لیا۔ اور پھر کرسی پر بیٹھتے ہی سید فخر امام نے کچھ ایسا لب ولہجہ اختیار کیا جو ایوانِ صدر میں قطعاً پسند نہ کیا گیا۔ جب جنرل ضیا الحق قومی اسمبلی سے خطاب کرنے آئے تو اپنی لکھی ہوئی تقریر کو ایک طرف رکھتے ہوئے اور چشمہ اُتار کے ایوان سے مخاطب ہوئے کہ کھائیں ضرور! لیکن کچھ ٹھنڈا کرکے کھائیں۔ یعنی جو کرنا ہے کریں لیکن اتنی تیزی نہ دکھائیں۔ اُنہی انتخابات کی پاداش میں جنرل صاحب کو ایک وزیراعظم بھی چننا تھا۔ اُس زمانے میں پیر پگاڑا کی رائے بہت معتبر سمجھی جاتی تھی اور پیر صاحب نے محمد خان جونیجو کا نام آگے کیا۔ جنرل صاحب مان گئے اور جونیجو صاحب وزیراعظم ہو گئے لیکن جنرل صاحب کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب پہلی ہی بالمشافہ ملاقات میں جونیجو پوچھ بیٹھے کہ مارشل لاء کب ہٹے گا۔ دروغ بر گردنِ راوی‘ جنرل صاحب دم بخود رہ گئے۔ گزارہ نہ چل سکا تو تین سال بعد جونیجو صاحب کی چھٹی ہو گئی اور اُس کے ساتھ ہی اُس وقت کے سارے آئینی بندوبست کا بستر گول ہو گیا۔
اُس وقت کا مقابلہ آج کے حالات سے کیا جائے تو وہ زمانہ جسے ہم اکثر دورِ سیاہ کہتے ہیں‘ جمہوریت کا ایک نخلستان لگتا ہے۔ مارشل لاء لگا تھا تو ہٹ بھی گیا اور مارشل لاء کا دور بھی تھا تو یہ امید زندہ تھی کہ جمہوریت کا سورج طلوع ہوگا اور پاکستان میں لازماً بہار آئے گی۔ جونیجو آئے تو اچھے لگے‘ بینظیر بھٹو وطن واپس لوٹیں تو جیسے دل کھِل اُٹھے اور ہم جیسے کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے۔ اُن ارمانوں کا کیا بنا وہ الگ کہانی ہے‘ یہاں بات موازنے کی ہو رہی ہے۔ تب پتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے یا کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن آج ہمارے قومی سفر کو دیکھیں‘ کوئی سمجھ ہے کسی کو کہ کہاں جا رہے ہیں اور کون سی منزل قوم کے سامنے ہے؟ 1985ء کے انتخابات میں بھی جنرل ضیا الحق کی اپنی خواہشات تھیں کہ فلاں قسم کے لوگ منتخب ہوں۔ پنجاب میں اُن کے چہیتے نواز شریف تھے اور انہی کو چیف منسٹر بنانے کے لیے سب جتن کیے گئے۔ لیکن انتخابات کو انتخابات ہی رہنے دیا اور اُن کے نتائج کے ساتھ وہ نہ کیا گیا جو موجودہ زمانے میں قوم حیرانی میں ڈوبی نگاہوں سے دیکھ چکی ہے۔
یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اُس زمانے میں کسی کو نہ پتا تھا کہ فارم 45کیا چیز ہے اور فارم 47کس معجزے کا نام ہے۔ ایسے نوبیل انعام یافتہ ریاضی سے قوم ناآشنا تھی۔ پولنگ سٹیشنوں پر ووٹ گِنے جاتے اور نتائج کا اعلان ہوتا اور کسی کو یہ فکر نہ ہوتی کہ پریزائیڈنگ آفیسروں سے معہ مہر رسیدیں بھی لینے کی ضرورت ہے۔ کچا نتیجہ جو ملتا اُسی کو کافی سمجھا جاتا۔ یہ تو آج کی نیکی اور پارسائی کا موسم ہے کہ انتخابات میں ایسے رفو لگائے گئے اور ایسی رنگ بازیاں ڈالی گئیں کہ اگر اس سارے ناٹک کا ایک ادنیٰ سا نمونہ بھی منٹو پارک جلسے میں بانیانِ پاکستان کو دکھایا جاتا تو شاید وہ گہری سوچ میں پڑ جاتے کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ جو کھلواڑ اس ملک کے ساتھ ہو چکا ہے کیا قائداعظم کے وہم وگمان میں بھی یہ بات آ سکتی تھی کہ اُن کے بعد جو آئیں گے وہ اُن کے بنائے ہوئے ملک کا یہ حشر کریں گے؟ جس پائے کے وہ وکیل تھے اُنہیں کوئی فارم 45اور 47کے رموز سمجھانے بیٹھتا تو اُن کا ردِعمل کیا ہوتا؟
ایک چپ ضیا الحق کے دور میں تھی اور ایک چپ آج کی ہے۔ سوشل میڈیا نام کی بلا تب کوئی نہ تھی لیکن یقین مانیے آج کی چپ کچھ زیادہ ہی گہری ہے۔ کہنے کو شاید بہت کچھ ہو لیکن بس دیکھ ہی رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ اب تو معمول سا بن گیا ہے کہ کہیں جانا ہو تو کوئی نہ کوئی پوچھ بیٹھتا ہے کہ ملک کا کیا بنے گا۔ سن کر مسکرا دینا ہی بہتر ہے‘ نہیں تو کہا تو یہ بھی جا سکتا ہے کہ پہلے کون سا بنا ہے کہ اب بن کے رہے گا۔
بات کسی ایک فردکی نہیں‘ اس غلطی میں کوئی نہ پڑے۔ افراد تو آتے جاتے رہتے ہیں‘ بات تو اس بانجھ پن کی ہے جو لگتا ہے اس دھرتی کوہو چکا ہے۔ کھیت ہو اُس میں کوئی آبیاری تو ہو‘ فصل کی کوئی امید پیدا ہو۔ خشک سالی صرف موسموں تک محدود نہیں ہوتی۔ عمومی حالات سوکھے پڑ جائیں تو جیسے زمین کی عجیب حالت ہو جاتی ہے قوموں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ آج اپنے پہ حیرانی ہو رہی ہے کبھی سوچ نہ سکتے تھے کہ جنرل ضیا الحق کے لیے کوئی کلمہ خیر ان لبوں سے ادا ہو سکے گا۔ مسائل کیا‘ سب المیوں کا موجد ہم جیسے اُن کو ٹھہراتے تھے۔ لیکن ستم ہائے زمانہ دیکھئے کہ ہم پہنچ وہاں گئے کہ تقابل میں ہی سہی‘ وہ دور ذرا بھلا محسوس ہونے لگا ہے۔ بات تو پھر وہی ہے‘ کہاں چلے تھے کہاں پہ آئے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں