جسٹس امین الدین کی سربراہی میں بنایا جانے والا سات رکنی آئینی بینچ آج‘ 11دسمبر کو انتخابی دھاندلی کے خلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کرے گا۔ آئینی بینچ کی طرف سے انتخابی دھاندلی کے کیس کا کیا فیصلہ آئے گا‘ اس پر فی الحال کوئی رائے دینا قبل از وقت ہے۔ دراصل آئین کے آرٹیکل 226میں اس حوالے سے ایک واضح روڈ میپ دیا گیا ہے جس کے مطابق الیکشن کے حتمی نتائج کے خلاف عدالت صرف اُنہی کیسوں کی سماعت کرے گی جو پہلے سے الیکشن ٹربیونلز میں زیر سماعت ہوں‘ لہٰذا بادی النظر میں یہ دکھائی دے رہا ہے کہ آئینی بینچ ان تمام درخواستوں کو آئین کے آرٹیکل 226کے تحت خارج کر دے گا اور درخواست کنندگان کو ہدایات جاری کرے گا کہ وہ الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کا انتظار کریں۔ الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے خلاف آئینی بینچ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
اُدھر بانی پی ٹی آئی 24نومبر کے احتجاج کی ناکامی کے بعد اب اپنا آخری کارڈ استعمال کرنے کے لیے اپنے حامیوں کو متحرک کر رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی اپنے حامیوں کو متحرک کرنے کا نسخہ خوب جانتے ہیں۔ اُنہوں نے اب حکومت کے سامنے دو مطالبات رکھے ہیں‘ پہلا انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی اور دوسرا 9مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام۔ پی ٹی آئی کے رہنما ایک طرف خان صاحب کے مطالبات کی منظوری کے لیے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف 14دسمبر تک مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے عمر ایوب خان‘ علی امین گنڈاپور‘ صاحبزادہ حامد رضا‘ سلمان اکرم راجہ اور اسد قیصر پر مشتمل جو پانچ رکنی مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے‘ بشریٰ بی بی اُس کمیٹی پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکی ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ معاملہ کیا رُخ اختیار کرتا ہے۔
عمران خان کو چاہیے کہ احتجاج اور سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کے بجائے اپنے ایامِ اسیری کے دوران اپنی ناکامی کی سرگزشت لکھنے کا آغاز کر دیں اور خود احتسابی کے جذبے کے تحت وہ تمام حقائق منظرِعام پر لائیں جن کی وجہ سے ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان نے اپنی ساری منصوبہ بندیاں ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد اب جس آخری کارڈ کا اعلان کیا ہے‘ وہ صرف اپنے حامیوں اور کارکنوں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کا ایک نیا حربہ ہے۔ اس سے قبل عمران خان کی جیل بھرو تحریک بھی ناکام ہو چکی ہے‘ اسی طرح پنجاب اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت تحلیل کرنے کا فیصلہ بھی ان کے خلاف جا چکا ہے۔ ان کی پارٹی بھی بظاہر تقسیم کا شکار ہے۔ احتجاج کی فائنل کال بھی ناکامی کا منہ دیکھ چکی ہے۔ یعنی اب تک خان کی کوئی حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی۔ان حالات میں عمران خان کے پاس صرف دوہی راستے بچے ہیں۔ ایک یہ کہ اپنا کیس سڑکوں پر لڑنے کے بجائے عدالتوں میں اپنے وکلا کے ذریعے مکمل دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ لڑیں اور دوسرا مقتدرہ کی طرف دیکھنے کے بجائے حکومت سے مذاکرات کریں کیونکہ مقتدرہ ان سے کسی قسم کی مذاکرات نہیں کرے گی۔ عمران خان شاید ابھی تک اسی زعم میں ہیں کہ ان کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان ہوتے ہی ان کے حامی لبیک کہیں گے۔انہیں ادراک ہونا چاہیے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملک میں جو ترسیلاتِ زر بھجواتے ہیں وہ کسی سرمایہ کاری کی مد میں نہیں بھجواتے کہ اس سے صرف ملک کا نقصان ہوگا بلکہ وہ یہ رقوم اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے بھجواتے ہیں۔ وہ خان صاحب کے کہنے پر اپنے خاندان کی کفالت سے تو ہاتھ نہیں اُٹھا سکتے۔اسی طرح اگر عوام بجلی‘ گیس یا پانی کا بل ادا نہیں کرتے تو متعلقہ محکموں کی جانب سے ان کے کنکشنز کاٹ دیے جائیں گے‘ یعنی ہر دو صورت میں نقصان صرف عوام کا ہی ہے۔ اسی لیے عوام اس مشکل صورتحال کے لیے آمادہ نظر نہیں آتے۔
پی ٹی آئی کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے سے پہلے ہی اگرپارٹی کو آئین کے آرٹیکل 17کے تحت کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے اور آئینی بینچ بھی فل کورٹ طلب کر کے اس مؤقف کو تسلیم کر لیتا ہے تو پھر الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے دفاتر سیل کرنے اور اس کے اثاثے ضبط کرنے کا مجاز ہے۔ اس صورت میں تحریک انصاف کو ایک بار پھر سنی اتحاد کونسل کے سہارے کی ضرورت پڑے گی۔ مجھے تویوں نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کے اردگرد موجود لوگ ان کے ساتھ مخلص نہیں ہیں‘ اور ان دنوں ان کی جماعت بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ اگر خان صاحب کے قریبی لوگ ان کی رہائی کے لیے مخلص ہیں تو حکومت یا مقتدرہ پر مختلف حربوں سے دباؤ ڈالنے کے بجائے مذکرات کا راستہ اپنائیں۔ خان صاحب کے لیے اس مشکل صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔ 24نومبر کے احتجاج کی ناکامی میں بھی خان صاحب کے لیے یہی پیغام پوشیدہ ہے۔ دوسری طرف اگر سات اپریل 2022ء کو ہونے والی تحریک عدم اعتماد کے سلسلہ میں قاسم سوری کی رولنگ کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت مقدمات درج ہو جاتے اور نو مئی کے مقدمات کا فیصلہ تاخیر کا شکار نہ ہوتا تو 24 نومبر کو جو واقعات رونما ہوئے ہیں‘ وہ نہ ہوتے۔ اس دوران ایک‘ دو مرتبہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنسوں میں نو مئی کے ذمہ داران کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کااشارہ بھی دیا گیا لیکن حکومت سیاست کا کھیل کھیلتی رہی۔ اقتدار کی راہداریوں میں یہ بات گونج رہی ہے کہ حکومت 24نومبر کو بھی مصلحت کا کھیل کھیلتی رہی۔ نواز شریف بھی اس موقع پر مری میں خاموش بیٹھے رہے۔ صدرِ مملکت آصف علی زرداری بھی مصلحتاً پس منظر میں رہے۔ اطلاعات ہیں کہ مقتدرہ اس صورتحال سے خوش نہیں جس کے بعد ایسی افواہیں زیر گردش ہیں کہ مقتدرہ اب کسی ایسے فارمولے پر راضی ہو سکتی ہے جس سے پارلیمنٹ تو چلتی رہے لیکن چہرے تبدیل ہو جائیں۔
دوسری طرف عوام اب ٹیلی ویژن کے پرانے چہروں سے بے زار نظر آتے ہیں اور سوشل میڈیا پر زیادہ انحصار کرتے دکھائی دیتے ہیں‘ جس سے فیک نیوز پھیلانے اور پروپیگنڈا کرنے والے مخصوص گروہوں کا کاروبار خوب چمک رہا ہے۔ عام شہری سوشل میڈیا کے سحر میں پوری طرح گرفتار ہو چکا ہے۔پاکستانی معاشرے میں جو منفی تبدیلیاں اور رویے دیکھے جا رہے ہیں‘ عدم برداشت‘ اشتعال انگیزی اور گالم گلوچ کا جو رواج پروان چڑھ رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے کیونکہ اس میڈیم میں کوئی فلٹر موجود نہیں ہے۔ لیکن اب حکومت عوام کے جذبات بھڑکا کر اپنا کاروبار چمکانے والوں کے خلاف متحرک ہو چکی ہے اور ایسے عناصر کے خلاف جلد شکنجہ کسا جائے گا۔
اُدھر دیکھا جائے تو سول بیورو کریسی پالیسی سازی میں کوئی اہم کردار ادا کرنے سے اس لیے قاصر ہے کہ اہم ترین عہدوں پر فائز اکثر بیوروکریٹس دہری شہریت رکھتے ہیں‘ اس لیے انہیں کسی احتساب کا ڈر اور خوف بھی نہیں ہے۔ لیکن اگر حکومت مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان بیورو کریٹس‘ جو دہری شہریت کے حامل ہیں‘ کی بیرونِ ملک جائیداد ضبط کر لیتی ہے تو بیوروکریسی سیدھی ہو جائے گی اور انتظامی معاملات بہتر ہونے سے ملک چند سالوں میں مسائل کے بھنور سے نکل سکتا ہے۔ بھارت کی ترقی کا راز یہی ہے کہ بھارتی بیوروکریٹس صرف بھارتی کے شہری ہیں‘ ان کیلئے دہری شہریت کا خیال خارج از امکان ہے۔ ہمارے ہاں آئین و قانون ساز اداروں میں بھی ایسے کئی ارکان موجود ہیں جو دہری شہریت کے حامل ہیں۔ آئین میں ابہام کی وجہ سے ان پر کسی قسم کی قدغن بھی نہیں لگ سکتی۔