"KDC" (space) message & send to 7575

پارلیمانی کمیٹی بہترین آپشن

موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال ہونے کو ہے لیکن ابھی تک حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمت کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہونے پر آٹھ فروری کو ملک بھر میں احتجاج کی کال دے رکھی ہے جس کا مقصد فروری 2024ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کو جواز بنا کر امریکہ اور یورپی یونین کے انسانی حقوق کمشنرز کی توجہ حاصل کرنا اور انہیں یہ باور کرانا ہے کہ پاکستانی حکومت کے پاس حقیقی مینڈیٹ نہیں۔ تحریک انصاف کی طرف سے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کے بعدوزیراعظم شہباز شریف نے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی پیشکش کر کے ایک بار پھر انہیں مذاکرات کی دعوت دی۔ اس کا مقصد بظاہر یہی تھا کہ فریقین اپنے مسائل مل بیٹھ کر حل کر یں۔ وزیراعظم نے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی آفر کرتے ہوئے اس کا یہ جواز پیش کیا کہ جولائی 2018ء کے انتخابات کے بعد اپوزیشن نے دھاندلی کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا تو پی ٹی آئی حکومت نے جوڈیشل کمیشن کے بجائے ایک 30 رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی۔اگرچہ تحریک انصاف کی طرف سے پارلیمانی کمیٹی کے قیام پررضا مندی ظاہر نہیں کی گئی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں ایک پارلیمانی کمیٹی کا قیام بہترین آپشن ہے۔ اس پارلیمانی کمیٹی کی سربراہی جمعیت علمائے اسلام کو دی جاسکتی ہے۔ انتخابی دھاندلی کا معاملہ بھی اسی پارلیمانی کمیٹی میں اٹھایا جا سکتا ہے‘ جس کے لیے ضروری ہے کہ اس کمیٹی میں ایسے ماہرین کو شامل کیاجائے جن کو انتخابی سسٹم پر دسترس ہو۔اس پارلیمانی کمیٹی میں ریٹرننگ افسران اور ان کی تعیناتی کرنے والے حکام کو بھی تحقیقات کیلئے بلایا جا سکتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی پارلیمانی کمیٹی کے قیام پہ رضامند ہو جاتی ہے تو یہ کمیٹی نہ صرف کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب ریٹرننگ افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لا سکتی ہے بلکہ آئندہ انتخابات میں دھاندلی کا راستہ روکنے کیلئے بھی ٹھوس حکمت عملی تشکیل دے سکتی ہے۔اس پارلیمانی کمیٹی کو اگر سابق نگران حکومت کے وزرا کو طلب کرنے کی اجازت دی جائے تو اس سے تحقیقات کا دائرہ کار مزید وسیع ہو جائے گا۔ یہ کمیٹی انتخابی نتائج جمع کرنے والے نظام ‘آر ٹی ایس‘ پر بھی سوال اٹھا سکتی ہے۔ فارم 45 اور 47 کا موازنہ کرکے اس بارے پیدا ہونے والی غلط فہمیاں بھی دور کی جاسکتی ہیں۔اپوزیشن کو وزیراعظم کی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی پیشکش قبول کر لینی چاہیے۔ 26ویں ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن کی افادیت ویسے ہی ختم ہوچکی ہے۔
اگر آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ انتخابات بہتر انداز میں ہوئے تھے۔ بعض حلقوں میں ریٹرننگ افسران کی نااہلی‘ تربیت کے فقدان اور الیکشن قوانین سے نابلد ہونے کی وجہ سے کچھ خرابیاں ضرور سامنے آئیں لیکن انہیں دور کیا گیا۔ اب تک تو سبھی ریٹرننگ افسران اپنا ریکارڈ درست کرچکے ہوں گے۔ آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوان مکمل ہوچکے‘ صدرِ مملکت کا انتخاب عمل میں آچکا‘ چیئرمین سینیٹ‘ سپیکر قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی حکومتیں نہ صرف تشکیل پا چکی ہیں بلکہ پوری طرح فعال ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 226 کے مطابق یہ مراحل مکمل ہونے کے بعد الیکشن نتائج کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ سوائے اُن کیسز کے جو الیکشن ٹربیونلز میں زیر سماعت ہوں۔
اگر عالمی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے امریکہ اور چین کی معاشی جنگ میں تیزی آ چکی ہے۔ چین نے امریکہ میں اپنی مصنوعات پر نئی ڈیوٹیز کے جواب میں امریکی درآمدات پر 10 سے 15 فیصد نیا ٹیرف عائد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ چین اور امریکہ کے مابین ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی جنگ جاری ہے۔ مصنوعی ذہانت کی چینی ٹیکنالوجی ڈیپ سیک کی ایجاد نے سیلیکون ویلی سمیت پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ چینی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے طاقتور ماڈل امریکی کمپنیوں کی طرف سے اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار کیے جانے والے مصنوعی ذہانت سے کہیں زیادہ سستے ہیں۔ ڈیپ سیک نے دراصل ان لوگوں کے نقطۂ نظر کو تقویت دی ہے جو عرصہ سے وارننگ دے رہے تھے کہ جدید ٹیکنالوجی اور ریسرچ میں چین امریکہ کو بہت جلد پیچھے چھوڑ جائے گا۔ جو لوگ امریکہ کی جدید ٹیکنالوجی میں برتری کو دیکھ کر یہ خیال کرتے تھے کہ یہ معاملہ ہمیشہ یونہی رہے گا‘ وہ دراصل امریکہ کی مثال بھلا بیٹھے تھے۔ بیسویں صدی کی ابتدا تک امریکہ یورپ کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ ملک تھا جہاں جدید ٹیکنالوجی اور دیگر مصنوعات یورپ سے درآمد کی جاتی تھیں۔ تب اس کی فی کس آمدنی بھی بہت کم تھی ‘ پھر امریکہ نے ریسرچ اور ٹیکنالوجی میں اپنی برتری کی بنیاد رکھی اور چند دہائیوں میں دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا۔ امریکہ کی ٹیکنالوجی میں ترقی کے پیچھے تھامس ایڈیسن جیسے افراد تھے۔ تھامس ایڈیسن نے ایڈیسن لیبارٹریز کی بنیاد رکھ کر سائنسی ایجادات کوباقاعدہ بزنس کی شکل دی۔ نکولا ٹیسلا بھی اسی کی فرم میں کام کیا کرتا تھا۔ ایڈیسن لیبارٹریز صنعتی مصنوعات نہیں بناتی تھی بلکہ بنیادی سائنس سے نئی ٹیکنالوجی اخذ کرکے مختلف فرموں کو اس کا لائسنس یا پیٹنٹ بیچتی تھی۔ جلد ہی اس آئیڈیا کو گراہم بیل نے بھی اپنا لیا اور بیسویں صدی میں بیل لیبارٹریز کی بنیاد رکھی۔ 1950ء کی دہائی تک اے ٹی اینڈ ٹی اور آئی بی ایم جیسی بڑی کمپنیاں اس دوڑ میں شامل ہوچکی تھیں۔ ان کمپنیوں میں سائنسدان یونیورسٹیز کے مقابلے میں وقت اور سرمایہ کی پابندی سے آزاد ہوکر نئی ٹیکنالوجی ایجاد کر رہے تھے ۔ اس سے قبل یہ رجحان جرمنی تک محدود تھا ۔ 1930ء اور 40ء کی دہائی میں جرمن سائنسدان اپنی فیلڈ میں باقی دنیا سے بہت آگے تھے لیکن پچاس کی دہائی تک اس کام کو ایک بزنس بنا کر امریکہ جرمنی سمیت باقی دنیا سے بہت آگے نکل گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ہم جس جدید ٹیکنالوجی کو استعما ل کر کے مستفید ہو رہے ہیں وہ زیادہ تر امریکہ کی ایجاد کردہ ہے۔ 1950ء کی دہائی میں‘ جب امریکہ میں نت نئی ایجادات ہو رہی تھیں‘ تب تک چین میں بیلوں کی مدد سے کاشتکاری ہوتی تھی۔
امریکی برتری کی یہ بنیادیں 90ء کی دہائی میں کھسکنا شروع ہوگئیں۔ اس کی وجہ گلوبلائزیشن کا رجحان تھا۔ امریکی اور یورپی صنعتی فرمیں اپنے کام میں آسانی کیلئے امریکہ سے نئی ٹیکنالوجیز خریدنے کے بجائے چین یا تیسری دنیا کے دیگر ممالک سے ‘ جہاں لیبر سستی تھی‘ مینوفیکچرنگ کرانے لگیں‘ جس سے انہیں زیادہ منافع ہوتا تھا۔ یوں دس سال کے اندر ہی امریکی ریسرچ کے بڑے بڑے ادارے دیوالیہ ہو گئے۔ اس کے بعد امریکہ میں تحقیق کا شعبہ صرف یونیورسٹیوں تک محدود ہو گیا۔یہ وہ وقت تھا جب چین اس دوڑ میں باقاعدہ ریاستی پلاننگ سے شامل ہوا اور اس نے مغربی یونیورسٹیوں میں اپنے طالبعلموں کی بھرمار کردی۔ راقم الحروف تب یونیورسٹی آف بارسلونا سے کورس کر رہا تھا۔ میں بارسلونا یونیورسٹی میں چینی طلبہ کی بھرمار دیکھ کر حیران رہ گیا۔ چینی طالب علم پاکستان اور بھارتی طلبہ کی طرح تعلیم مکمل کرنے کے بعد مغربی ممالک میں رکنے کے بجائے واپس چین چلے جاتے تھے اور وہاں ریسرچ کے شعبوں میں اپنی خدمات انجام دیتے تھے۔ اس وقت چین دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ریاستی سطح پر سائنس سے نئی ٹیکنالوجی وضع کرنے پہ کام ہورہا ہے جبکہ باقی دنیا میں یہ کام بہت محدود ہو چکا ہے۔ اس لیے آنے والے وقت میں چین کا ریسرچ اور ٹیکنالوجی کی دوڑ میں امریکہ سے کہیں آگے نظر آنا طے ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں