جس طرح موسمِ بہار کے دوران باغ میں رنگ برنگے پھولوں کو ہنستے مسکراتے دیکھ کر دل شاد ہوتا ہے اسی طرح فروری میں رخصت ہوتے جاڑے کے دوران کتاب میلے کی سیر سے روح شاداب اور ایک ولولۂ تازہ پیدا ہوتا ہے۔
کتابیں پڑھنے کا مقصد بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے کہ آپ جو کچھ پڑھتے ہیں اسے یاد رکھیں تاہم کتاب پڑھنے کا اصل مقصد کسی نئے خیال کی تلاش ہے۔ ایسا خیال جو ہماری زندگی کو بہتر بنا سکے اورہماری سوچ کا زاویہ بدل سکے۔ حال ہی میں لاہور میں منعقد ہونے والے سہ روزہ کتاب میلے میں درجنوں بک سٹال تھے جن میں اُردو‘ انگریزی اور عربی کی ہزاروں کتابیں تھیں۔ میں جب کتاب میلے میں ہال نمبر وَن سے اندر داخل ہوا تو سب سے پہلے لاہور کے ایک قدیمی اشاعتی ا دارے کے بورڈ پر نظر پڑی۔ اُس ادارے کے سٹال کے اندر داخل ہوتے ہی پہلی نظر کتاب ''آقاﷺ‘‘ پر پڑی۔ ''آقاﷺ‘‘ کے نام سے ایک ہی جلد میں ایک ہزار صفحات سے اوپر ابدال بیلا کی سیرتِ مصطفیﷺ پر کتاب نہایت قابلِ قدر ہے۔ ابدال بیلا کا اندازِ نگارش ایک طرف نہایت دلربا اور دلنشیں ہے اور دوسری طرف انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ نہایت تحقیق و جستجو سے لکھا ہے۔میں اس کتاب کو پہلے پڑھ چکا ہوں۔''آقاﷺ‘‘ سے صرف ایک جھلک یہاں پیشِ خدمت ہے۔ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کا واقعہ ہر مسلمان کو ازبر ہوگا۔'' اپنی بہن اور بہنوئی کو زخمی کرنے کے بعد جب اُن کا غصہ قدرے کم ہوتا ہے تو سیّد نا عمرؓ قرآنی آیات پڑھنا شروع کرتے ہیں جن کی اس گھر میں تلاوت کی جا رہی تھی۔ وہ قرآن کی آسمانی آیات پڑھتے جاتے اور ان کا جسم کپکپائے جاتا‘قرآن کا ایک ایک لفظ اُن کی روح میں جذب ہونے لگا۔ فصاحتِ زبان‘ محاسنِ کلام‘ ندرتِ بیان‘ معنویت کی بلندی‘ جامعیت اور آسمانی اندازِ تخاطب سیدھا روح میں اُتر رہا تھا۔ سیّدنا عمرؓ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسو سجدہ ریز ہو گئے۔عربی زبان و ادب سے آشنا کوئی شخص تعصب کی عینک اتار کر جب اس آسمانی کتاب کی چند آیات ہی پڑھ لیتا تو اس کی روح پہلے بے قرار ہوتی اور پھر وجد میں آتی اور یوں اس کی سوچ کا دھارا ہی نہ بدلتا بلکہ اس کی زندگی کا مکمل نقشہ ہی تبدیل ہو جاتا‘‘۔
قریب ہی انگریزی کتابوں کے ایک بڑے سٹال پر خواتین و حضرات اور طلبہ و طالبات کا ایک ہجوم تھا۔ یہاں انگریزی ادب کی بے شمار کلاسیکی کتابوں کے ساتھ ساتھ دورِ جدید میں تازہ چھپنے والی بیسٹ سیلرز کتب بھی قطار اندر قطار موجود تھیں۔ کسی زمانے میں نامور نابینا خاتون ہیلن کیلر کے بارے میں تفصیل سے پڑھا تھا‘ اتوار کے روز انگریزی کتابوں کے سٹال پر کیلر کی خود نوشت ''دی سٹوری آف مائی لائف‘‘ دکھائی دی تو میں نے لپک کر اسے خرید لیا۔ہیلن 1880ء میں پیدا ہوئی اور 1968ء میں اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ وہ صرف انیس ماہ کی تھی جب اس پر ایک ایسی بیماری کا حملہ ہوا جس سے اس کی بصارت‘ سماعت اور گویائی‘ سب ختم ہو گئیں۔ ان حالات میں سات سال کی عمر میں اسے این سیلیون نامی ایک ایسی ٹیچر ملی جو اس کیلئے فرشتۂ رحمت ثابت ہوئی۔اس ٹیچر نے اسے نہایت محبت سے‘ بغیر آنکھوں کے پڑھنا‘ بغیر سماعت کے سننا اور بولنا سکھایا۔ آگے چل کر ہیلن نے لاکھوں نابینا لوگوں کی تاریک زندگیوں میں روشنی کے چراغ جلا ئے اور انہیں مایوسیوں سے نکال کر شاہراہِ امید پر رواں دواں کر دیا۔چند روزقبل ایک نابینا بھارتی نوجوان کی ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔وہ بھی این سیلیون جیسی ایک مہربان ٹیچر کی توجہ سے ایم آئی ٹی امریکہ تک پہنچا۔ وہ نوجوان ایک تقریب میں کہہ رہا تھا کہ بھارت میں 98 فیصد لوگ آنکھوں والے اور دوفیصد نابینا ہیں تاہم 90 فیصد بھارتی آنکھیں تو رکھتے ہیں مگر بصارت سے محروم ہیں۔
تھوڑا آگے بڑھا تو دینی مطبوعات کے ایک سٹال پر سجی سجائی کتابوں نے دیدہ دل کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ اس ادارے کے روحِ رواں کی وہاں موجودگی خوشگوار حیرت کا باعث بنی۔ اُن سے پرانی یاد اللہ ہے۔ وہ کم و بیش اُسی زمانے میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی وزارتِ دفاع میں ایک عام سی ملازمت کیلئے گئے تھے جس زمانے میں یہ خاکسار سعودی وزارتِ تعلیم میں تدریسی فرائض انجام دینے طائف گیا تھا۔پاکستان میں قرآن پاک کی خطاطی کرنے والے اس نوجوان نے چند ہی برس میں ملازمت کی تنگنائے کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا اورکچھ عرب دوستوں کے ساتھ مل کر دینی کتابوں کی اشاعت کا ایک عالمی معیار کا ادارہ قائم کر لیا۔یقینا اس راستے میں کئی مشکل مراحلے بھی آئے ہوں گے۔ اُن کی زندگی پاکستانی نوجوانوں کیلئے مشعلِ راہ اور ایک Motivational داستان ہے۔وہ تقریباً 26 زبانوں میں قرآن پاک کا ترجمہ شائع کرتے اور 13 زبانوں میں دینی کتب تقریباً دنیا کے ہر براعظم تک پہنچاتے ہیں۔ ان کی ا ٓسان اردو‘ انگریزی کتابیں دامنِ دل کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں۔اس بار یہ دیکھ کر دلی مسرت ہوئی کہ بچوں کیلئے بھی نہایت خوبصورت کتابیں اردو اور انگریزی میں شائع کی گئی ہیں۔
ایک اور سٹال پر پہنچے تو ادارے کے مدار المہام گرم جوشی سے پیش آئے۔ انہوں نے اپنے ادارے کی طبع کردہ کتب کا تعارف بھی کرایا۔حسنِ اتفاق سے اسی سٹال پر جسٹس (ر) میاں نذیر اختر بھی تشریف فرما تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب ''سر سیّد‘‘میں اُن کے بعض دینی و فکری نظریات کا شدت سے محاکمہ کیا ہے۔ جسٹس صاحب کا اسلوبِ تحریر خاصا تندو تیز ہے۔ وہ سر سیّد احمد خان کی مسلمانانِ ہند کیلئے انگریزی تعلیم کے بھی ناقد دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم انہوں نے علمی دیانت سے کام لیتے ہوئے اپنی کتاب میںسر سیّد کے اُس خط کا ذکر بھی کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے ''ولیم میور صاحب کی کتاب ''لائف آف محمد‘‘ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس نے دل کو جلا دیا اور اس کی ناانصافیوں اور تعصبات کو دیکھ کر دل کباب ہو گیا اور مصمم ارادہ کیا کہ علمی طور پر سرولیم کی کتاب کا بھرپور توڑ کروں گا۔ اگر تمام روپیہ خرچ ہو جائے اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جاؤں تو بلا سے‘‘۔ سر سیّد نے فرانس‘ جرمنی اور مصر سے سیرت پر انگریزی‘ عربی اور لاطینی زبان میں لکھی گئی کتب منگوائیں۔ وہ خود اپنے بیٹے کے ساتھ انگلستان گئے اور خطبات ِاحمدیہ کے نام سے خالص علمی انداز میں ولیم میور کی کتاب کا محاکمہ کیا اور اسے لاجواب کر دیا۔ سر سیّد کے خطبات کو پڑھ کر ولیم میور نے خود بھی سرسیّد کے علمی دلائل کی بہت تعریف کی تھی۔ سرسیّد احمد خاں حبِ رسول اور عشقِ مصطفیﷺ سے سرشار تھے۔
یوں تو استاذِ محترم ڈاکٹر خورشید رضوی سے اکثر ملاقاتیں ہوتی ہیں مگر کتاب میلے میں ان کا اچانک ملنا ملاقاتِ مسیحاو خضرکا مزہ دے گیا۔کتاب میلے میں جس طرح لوگ جوق در جوق آ رہے تھے اور شوق و ذوق سے کتابوں کے تھیلے بھر بھر کر لے جا رہے تھے اس سے یہ عیاں تھا کہ بہت کچھ آن لائن شفٹ ہونے کے باوجود کتاب کی کشش آج بھی پوری طرح موجود ہے۔