"RKC" (space) message & send to 7575

کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سن …(6)

وزیراعظم عمران خان تک یہ باتیں پہنچی تھیں کہ خواجہ آصف ان کے حکم کے باوجود گرفتار نہیں ہوئے‘ نہ کوئی کارروائی ہوئی ہے کیونکہ اُن کا جنرل باجوہ کے سسر سے اچھا اور پرانا تعلق ہے۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنوانے میں ان کے سسر کا بڑا ہاتھ تھا کیونکہ وہ (ن) لیگ میں اپنے پرانے تعلقات استعمال کر رہے تھے اور سب ضمانتیں وہی دے رہے تھے۔اس میں خواجہ آصف کا بھی ہاتھ تھا اور جنرل باجوہ اور اُن کے سسر کو اس معاملے میں ادا کیا گیا ان کا کردار بھی یاد تھا۔
ویسے تو جنرل باجوہ کے سسر جنرل (ر)اعجاز کا نواز شریف خاندان سے کچھ پرانا تعلق بھی نکل آیا تھا جس کے کچھ تانے بانے 1990ء کی دہائی سے جا کر ملتے تھے‘ جب وہ آرمی میں تھے۔ اس لیے نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو وہ جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے۔ جہاں کچھ اور سفارشیں تھیں وہیں اُن کے سسر جنرل (ر) اعجاز کا بھی بڑا تگڑا ریفرنس تھا۔ اس لیے جب جنرل باجوہ آرمی چیف بنے تو اُن کے چھ سالہ دور میں یہ مشہور تھا کہ داماد سے زیادہ طاقتور سسر ہے اور اُن کی زیادہ چلتی ہے۔ جس نے کوئی کام کرانا ہوتا‘ وہ جنرل (ر) اعجاز سے ملتا تو کام ہو جاتا تھا کیونکہ جنرل باجوہ کو علم تھا کہ وہ آرمی چیف نہیں بن سکتے تھے کیونکہ ان سے قابل لوگ سنیارٹی لسٹ میں تھے‘ لیکن نواز شریف نے جب بھی آرمی چیف لگایا ان کے نزدیک قابلیت‘ اہلیت یا پروفیشنلزم سے زیادہ تعلق‘ ذاتی وفاداری اور برادری اہم تھی۔ قابلیت سے انہیں ہمیشہ سے چڑ رہی ہے‘ لہٰذا چیف لگاتے وقت وہ ان کے سفارشی دیکھا کرتے تھے اور ان کی ضمانتیں مانگا کرتے تھے۔ یہ الگ بات کہ ان تمام تر باتوں کے باوجود وہ کوئی ایسا چیف نہ لگا سکے جو اُن کی حکومت برطرف نہ کرتا یا انہیں جیل میں نہ ڈالتا۔ اگر وہ قابلیت اور اہلیت کو ذاتی وفاداری اور برادری‘ تعلق اور ان کے ضامنوں پر اعتبار نہ کرتے تو شاید کبھی برطرف نہ ہوتے نہ ہی جیل جاتے۔ جنرل مشرف ہوں‘ راحیل شریف ہوں یا جنرل باجوہ‘ کسی نہ کسی پاور فل ریفرنس‘ برادری لنک یا تگڑے ضامن کے کہنے پر لگائے گئے تھے۔ جنرل مشرف کو انہوں نے جہاں کمزور چیف سمجھ کر لگایا تھا‘ جس کی فوج میں پٹھانوں اور پنجابیوں کی طرح بڑی لابی نہیں تھی‘ وہیں ان کے سفارشی چودھری نثار علی خاں تھے‘ جنہوں نے شہباز شریف کو بھی ساتھ ملا کر قائل کر لیا تھا۔ جنرل راحیل کی دفعہ کشمیری لنک نکل آیا جبکہ جنرل باجوہ کی دفعہ ان کے سسر نے 1990ء کی دہائی میں اس خاندان کو دی گئی ایک پرانی فیور کا بدلہ مانگ لیا۔
یوں جنرل باجوہ کیلئے یہ مشکل فیصلہ تھا کہ وہ خواجہ آصف کو عمران خان کی خواہش پر گرفتار ہونے دیں۔ ان دنوں بھی‘ ہمیشہ کی طرح نیب عسکری قیادت کی طرف دیکھ اور پوچھ کر ''انصاف‘‘ کیا کرتی تھی۔ نیب اور دیگر اداروں کو خواجہ آصف سے دور رہنے کا کہا گیا جبکہ عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی جن اپوزیشن لیڈروں کو فوراً جیل میں ڈالنے کی منظوری دی تھی ان میں خواجہ آصف سرفہرست تھے۔ ان کے خلاف تو وہ کابینہ سے باقاعدہ منظوری بھی لے چکے تھے اور مقدمہ بھی وہ آرٹیکل چھ کے تحت چاہتے تھے تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ سزا ہو اور گرفتاری کے بعد ضمانت بھی نہ ہو اور ان پر غداری کا لیبل بھی لگے تا کہ ساری عمر وہ اس کا سامنا کرتے رہیں۔ عمران خان کے اتنے شدید غصے کی وجہ وہی تھی جو خواجہ آصف نے کہا تھا کہ خان نے چندہ میں جمع کیے ہوئے لاکھوں ڈالرز باہر انویسٹمنٹ کے نام پر ضائع کر ڈالے‘ اور وہ شوکت خانم ہسپتال میں غریبوں پر خرچ ہی نہیں ہوئے‘ جس کیلئے جمع کیے گئے تھے۔ خان صاحب وہ بات نہیں بھول پا رہے تھے۔ اب انہیں پتا چلا کہ جنرل باجوہ اور اُن کے سسر اس کام میں رکاوٹ ہیں تو عمران خان نے فیصلہ کیا کہ کچھ بھی ہو جائے وہ خواجہ آصف کو تو جیل میں ڈال کر رہیں گے۔ اب معاملہ انا کا بن گیا تھا۔ یوں انہوں نے وزیراعظم کے طور پر ان کی گرفتاری کو یقینی بنایا اور جنرل باجوہ اور ان کے سسر بھی اس دفعہ خواجہ آصف کو نہ بچا سکے اور خواجہ صاحب جیل جا پہنچے اور پورے چھ ماہ نیب کی حراست میں رہے‘ پھر کہیں جا کر ان کی ضمانت ہوئی۔ اس دوران (ن) لیگ کے لیڈروں کو مشکلات کا سامنا رہا۔
جنرل باجوہ اور عمران خان میں اختلافات پیدا ہونے کی جہاں دیگر وجوہات تھیں وہاں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جنرل باجوہ کے اندر ایک احساسِ جرم پیدا ہو رہا تھا کہ جس پارٹی کے وزیراعظم نے انہیں آرمی چیف لگایا تھا وہ جیل میں تھا۔ اور پھر جنرل باجوہ نے عمران خان سے جو کام لینا تھا وہ بھی لے لیا تھا۔ وہ مدتِ ملازمت میں توسیع بھی لے چکے تھے۔ اب عمران خان کا ان کے نزدیک کوئی کام نہیں رہ گیا تھا‘ بلکہ وہ عمران خان سے زیادہ اب آصف زرداری اور نواز شریف کے شکر گزار تھے جنہوں نے پارلیمنٹ میں ووٹ ڈال کر ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرائی‘ اور دونوں اُس وقت جیل میں تھے۔ یوں اس مدتِ ملازمت کے ووٹ کی وجہ سے جنرل باجوہ اور نواز شریف کے درمیان برف پگھلی اور بات دھیرے دھیرے نواز شریف کی رہائی تک جا پہنچی۔ عمران خان وزیراعظم ہو کر ایک مہلک غلطی کر چکے تھے کہ جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع دینی تھی اور اس کیلئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنی تھی تو وہ اکیلے نہیں کر سکتے تھے۔ اس کیلئے انہیں پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کا ووٹ درکار تھا۔ جنرل باجوہ نے ان دونوں کا ووٹ لینا تھا‘ اور زرداری اور نواز شریف‘ دونوں جیلوں میں تھے۔ جب ملک کا آرمی چیف اپنا بندہ ان کے پاس جیل بھیجے گا کہ ہمارے چیف کو ووٹ دو تو قیدی ان سے کیا مانگے گا؟ اگر قیدی ایک آرمی چیف کو تین سال مزید دے رہا تھا تو اسے بھی بدلے میں کچھ چاہیے تھا۔ ایک قیدی نے اس ووٹ کی قیمت جیل سے آزادی مانگی۔ اُس وقت دو باتیں ہو سکتی تھیں‘ پہلی یہ کہ عمران خان کبھی نواز شریف اور آصف زرداری سے جنرل باجوہ کو ووٹ نہ لینے دیتے اور ہمت کر کے نیا چیف مقرر کر کے جنرل باجوہ کو گھر بھیج دیتے۔ خان کو اتنی عقل ہونی چاہیے تھی کہ زرداری اور نواز شریف جنرل باجوہ کو ووٹ ڈالیں گے تو بدلے میں انہیں بھی کچھ دینا پڑے گا۔ وہ بڑی قیمت تھی‘ لہٰذا جنرل باجوہ اب گھر جائیں‘ وہ یہ قیمت نہیں دیں گے تاکہ جنرل باجوہ آصف زرداری اور نواز شریف کا احسان نہ لیں۔
دوسرا کام جنرل باجوہ یہ کر سکتے تھے کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ نیا قانون بنائیں اور عمران خان کے پاس اکثریت نہ تھی تو وہ خود توسیع لینے سے انکاری ہو جاتے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کا ووٹ نہیں لیں گے‘ جنہیں وہ کرپٹ سمجھتے تھے اور ان کی فائلیں اپنے پسندیدہ صحافیوں کو دکھا کر اُن سے ٹی وی پروگرام کراتے تھے۔ لیکن جنرل باجوہ نے اس فارمولے پر چلنے کا فیصلہ کیا کہ اس معاملے میں وہ تکلف سے کام نہیں لیں گے۔ جس نے کی شرم‘ اس کے پھوٹے کرم۔
یوں گیم عمران خان کے ہاتھ سے نکلتی چلی گئی اور خان نے اب قوم سے خطاب کا فیصلہ کر لیا۔ (جاری)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں