جنرل ضیاالحق مرحوم کی قبر‘ اسلام آباد کے وسط میں ہونے کے باوجود‘ گزشتہ کئی برسوں سے'بر مزارِ ما غریباں‘ نے چراغے نے گُلے‘ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ پہلے ایسا نہیں تھا۔ ان کا جنازہ پاکستان کی تاریخ کے چند بڑے جنازوں میں سے ایک تھا۔ کئی سال ان کی برسی جوش و خروش کے ساتھ منائی جاتی رہی۔ بڑی شخصیات اہتمام کے ساتھ شریک ہوتیں۔ پھر صورتِ حال تبدیل ہونا شروع ہوئی اور اب یہاں ویرانی کا راج ہے۔ عوام کے مزاج میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟
اس کے اسباب نظری ہیں‘ تاریخی ہیں اور فطری بھی۔ نظری اسباب میں سرِفہرست جمہوریت کا بطور تصور مقبول ہونا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کم و بیش اجماع ہے کہ ملک کا سیاسی نظام جمہوری ہونا چاہیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ جمہوریت کو بطور تصورِ سیاست‘ ہم نے جزوی طور پر ہی قبول کیا ہے۔ اختلافِ رائے کا احترام اس کا جوہر ہے۔ ہم نے زبانِ حال سے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ ہم اس اصول کے قائل نہیں ہیں۔ مذہب ہو یا سیاست‘ ہم اختلاف کو جگہ دینے پر آمادہ نہیں۔ اس کے ساتھ مگر ہم نے جمہوریت کے اس اصول کو مان لیا ہے کہ مسندِ اقتدار پر بٹھانا عوام کا حق ہے۔ یہ فیصلہ عوام کریں گے کہ کس جماعت کو حکومت کرنی ہے۔ ریاستی ادارے اگرچہ عملاً اس کو نہیں مانتے مگر سماجی سطح پر کوئی یہ جسارت نہیں کر سکتا کہ اس حق کی نفی کرے۔ چند آوازیں‘ اس کے خلاف بھی اٹھتی ہیں اور بعض لوگ جمہوریت کو کفر قرار دیتے ہیں لیکن ان کی عددی حیثیت ناقابلِ ذکر ہے۔
جمہوریت کی اس مقبولیت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آمریت کو قبول نہیں کیا جاتا۔ لوگ اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ کوئی بزور ان کا حکمران بن بیٹھے۔ یہ حرکت اعلانیہ ہو یا غیر اعلانیہ‘ اس کو قبولیتِ عام حاصل نہیں۔ جیسے جیسے یہ سوچ پروان چڑھتی گئی‘ آمروں کے لیے کلمۂ خیر کہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔ جب مارشل لاء کی تعریف ممکن نہیں رہی تو پھر ایک لازمی نتیجے کے طور پر کسی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے لیے بھی کلمۂ خیر کہنا مشکل ہو گیا۔ اس لیے ماضی میں اگر کوئی جنرل ضیا الحق کا حامی تھا بھی تو اب اس کے لیے خاموشی ہی میں عافیت ہے۔
آمریت کی کوئی شکل آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ مسلم معاشروں میں اگرچہ جمہوریت نظری طور پر مکمل سرایت نہیں کر سکی اور مسلمان آج بھی کسی صلاح الدین ایوبی کا راستہ دیکھتے ہیں‘ اس کے باوصف‘ یہ تاریخ کا جبر ہے کہ وہ جمہوریت کے خلاف نہیں۔ وہ ووٹ سے صلاح الدین ایوبی ہی تلاش کرتے ہیں مگر اتنا ارتقا ضرور ہے کہ وہ ووٹ کو اہم سمجھتے ہیں۔ یہ مسلم سماج کی فکری پراگندگی کا اظہار ہے مگر اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انتشارِ فکر کے باوجود‘ کسی آمر کے لیے کلمۂ خیر کہنا آسان نہیں رہا۔
تاریخی اسباب میں سرفہرست جنرل پرویز مشرف صاحب کا عہدِ اقتدار ہے۔ انہوں نے براہِ راست اُس سیاسی گروہ کو نقصان پہنچایا جو جنرل ضیاالحق صاحب کا حامی تھا۔ ان کے دورِ حکومت میں مارشل لاء کے بارے غیر پسندیدگی میں اضافہ ہوا۔ جب (ن) لیگ نے فوجی اقتدار کے خلاف ایک 'اصولی‘ مؤقف اختیار کیا تو اس کے لیے ممکن نہیں رہا کہ سرِعام جنرل ضیاالحق صاحب کی مدح کرے۔ اس کے ساتھ نواز شریف صاحب کے خیالات میں بھی ایک واضح تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باعث (ن) لیگ تدریجاً دائیں بازو سے 'سینٹر‘ کی جماعت بنتی چلی گئی۔ اس کا ایک اور لازمی نتیجہ بھٹو صاحب اور بینظیر صاحبہ کے بارے میں (ن) لیگ کے خیالات میں آنے والی تبدیلی ہے۔
دوسرا تاریخی سبب یہ ہوا کہ ان کی حقیقی اولاد‘ سیاسی طور پر نااہل ثابت ہوئی۔ پہلے مرحلے میں نواز شریف صاحب جنرل ضیاالحق مرحوم کے سیاسی جانشین بن کر سامنے آئے اور انہوں نے مرحوم کے مشن کی تکمیل کا وعدہ کیا۔ عوام کے اُس طبقے نے بھی انہیں اسی نظر سے دیکھا جو بھٹو مخالف تھا۔ جب نواز شریف صاحب نے عملاً اس مشن سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تو ان کی اولاد آگے بڑھ کر اس مسند کو سنبھال نہ سکی۔ بھٹو بھی شاید قصۂ پارینہ بن جاتے اگر انہیں بینظیر جیسی اولاد نصیب نہ ہوتی۔ تیسرا تاریخی عامل یہ تھا کہ ضیاالحق صاحب کے ادارے نے بھی ان کی سیاسی وراثت یا مشن سے کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ اسی وجہ سے ان جہادی تنظیموں نے بھی کبھی ضیاالحق صاحب کا نام نہیں لیا جن کا وجود مرحوم کی سوچ کا عملی اظہار تھا۔
جنرل ضیاالحق مرحوم کو کون اقتدار میں لایا؟ یہ ملکی حالات کا ناگزیر نتیجہ تھا یا کوئی بین الاقوامی سازش؟ ایران کی طرح‘ یہاں اس سوال کا کوئی حتمی جواب ممکن نہیں‘ جہاں مصدق حکومت کو امریکہ نے گرایا اور اس کی دستاویزی شہادت موجود ہے۔ ہم صرف قیاس کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ملکی حالات کی ابتری اور عالمی قوتوں کی ناخوشی‘ دونوں جمع ہو جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں داخلی اسباب سے آنے والی تبدیلی کا عالمی طاقتیں راستہ نہیں روکتیں۔ میرا احساس ہے کہ بھٹو صاحب کے معاملہ میں دونوں اسباب اکٹھے ہو گئے تھے۔ امریکہ جو جمہوریت کا علمبردار ہے‘ اس نے مارشل لاء کی مزاحمت نہیں کی اور ضیا عہد کو قبول کر لیا۔ بعد میں افغانستان میں جو حالات پیدا ہوئے‘ اس میں پاکستان اور امریکہ کے مفادات جمع ہو گئے اور 'دوستی‘ کا ایک نیا سفر شروع ہوا۔ جیسے ہی مشترکہ ہدف حاصل ہوا‘ امریکہ نے دوستی کا ہاتھ کھینچ لیا۔ حالات پر نظر رکھنے والے اکثر اہلِ علم کا خیال ہے کہ ضیا الحق صاحب کی شہادت میں بھی امریکہ کا ہاتھ تھا۔
جنرل ضیاالحق کے چاہنے والوں کا دائرہ اگر سمٹا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ اُن سماجی تبدیلیوں کا ادراک ہے جو مذہب کے سوئے استعمال سے اس معاشرے میں در آئیں۔ انہوں نے جہاد جیسی ریاستی ذمہ داری کو جس طرح سماجی ذمہ داری بنایا‘ اس سے ایک ایسا جہادی کلچر پیدا ہوا جس نے نہ صرف جہاد کو متنازع بنا دیا بلکہ سماجی بُنت ہی کو برباد کر دیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے جس طرح اسلام کو استعمال کیا‘ اس نے ان کے بارے میں حسنِ ظن کو تدریجاً ختم کر دیا۔
جنرل ضیاالحق ویسے ہی ایک فوجی آمر تھے‘ جیسے آمر ہوتے ہیں۔ مخالفین کے لیے ان کے دل میں نرم گوشہ نہیں تھا۔ تاہم ان میں مسلم تہذیب کا ایک شعور تھا جو ان کی انفرادی اور خاندانی زندگی میں نمایاں تھا۔ جیسے مسلم نیشنل ازم بھٹو صاحب کے سیاسی شعور کا حصہ تھا‘ اگرچہ ان کی شخصی زندگی میں اسلامی تہذیب کے رنگ بہت مدہم تھے۔ انسان اسی طرح خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ جب سماجی اور سیاسی سطح پر تقسیم گہری ہو جاتی ہے تو پھر انصاف کا دامن ہی تھامے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان کی شخصی خوبیوں کو آمریت نے گہنا دیا۔
یہ شاید فطری ہے۔ آدمی اپنے غالب کردار ہی کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔ شخصی خوبیاں شاید جنرل پرویز مشرف میں بھی تلاش کی جا سکیں۔ ان کا غالب کردار مگر ایسا تھا کہ قوم کو کبھی اس کی بھنک نہیں پڑ سکی۔ ہمارے معاشرتی رویے اگر تہذیبی شعور سے آراستہ ہوں تو شاید ہماری رائے میں بھی توازن پیدا ہو۔ جنرل ضیاالحق اب قصۂ پارینہ ہیں۔ میرا خیال ہے وہ تاریخ میں زندہ رہ سکتے تھے اگر ان کے اقتدار کی کوئی اخلاقی اور آئینی اساس ہوتی۔ جو آدمی آئین کو پامال کر کے یہ چاہے کہ وہ قانون کی حاکمیت پر مشتمل کوئی معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے‘ اس کے مقدر میں فقط ناکامی ہے۔