میں جہاں جاتا ہوں مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ میں کچھ دیر خاموش رہ کر ان کے چہروں کی طرف دیکھتا ہوں‘ مجھے لگتا ہے کہ وہ مجھ سے بری خبریں‘ کچھ نیگٹو سننا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں انہیں کچھ ایسا بتائوں کہ جب وہ صبح اٹھیں تو قیامت آ چکی ہو۔ ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے کہ اگر میں نے ان کی توقعات پر پورا اترنا ہے تو مجھے سب کو برا بھلا کہنا ہو گا۔ مجھے رونا ہوگا اور انہیں سمجھانا ہو گا کہ ان کی زندگیاں کتنی مشکل ہو چکی ہیں۔ وہ کوئی پازٹیو بات سننے کے موڈ میں بالکل نہیں ہوتے۔ میں ان کے چہروں کو دیکھتے ہوئے سوچتا ہوں کہ اگر میں نے پاکستان کے بارے میں کوئی اچھی بات کی تو شاید وہ میری کلاس لے لیں کہ تم نے ایسا سوچا بھی کیسے؟ اب میرے پاس دو ہی آپشن ہوتے ہیں‘ ایک یہ کہ انہیں وہ بات بتائوں جس پروہ پہلے سے یقین کیے بیٹھے ہوتے ہیں‘ اور وہ یہ کہ ہمارے حالات خراب ہیں اور کسی بھی لمحے آسمان گر پڑے گا۔ دوسرا یہ کہ میں انہیں کچھ امید دلائوں یا ملک کے بارے میں مثبت باتیں بتائوں۔ اس شش و پنج میں یہ سوچ کر میں رک جاتا ہوں کہ اگر میں نے انہیں کوئی اچھی بات بتائی تو میری ریٹنگز کم ہوں گی‘ لوگ مجھے صحافی نہیں مانیں گے۔ میری ساکھ متاثر ہو گی۔ اچھی بات بھلا صحافی یا اینکر کے منہ سے کب اچھی لگتی ہے‘ لہٰذا وہ آپ سے اچھی خبر یا تجزیے کی امید بالکل نہیں رکھتے۔ اگر آپ نے اچھی بات کہہ دی تو پھر ایک طویل بحث کے لیے تیار رہیں‘ جو وہیں کھڑے کھڑے آپ کو سننا پڑے گی اور اگلا بندہ آپ کو ایک ہزار برائیاں بتائے گا‘ اپنی مرضی کے لٹیرے کو چھوڑ کر باقی سب سیاستدانوں کو گالیاں دے گا‘ پھر آپ سے داد کا خواہشمند ہو گا کہ دیکھا! آپ کتنے جاہل انسان ہیں‘ آپ کو علم ہی نہیں کہ اس ملک اور اس کے لیڈروں میں کیا کیا برائیاں ہیں اور شاید ہی کل کا دن ہمیں دیکھنا نصیب ہو۔ وہ آپ کو فخریہ انداز سے دیکھے گا کہ صحافی ہو کر بھی آپ کو تو کچھ پتا ہی نہیں‘ اور اسے سب علم ہے۔ ہاں! اگر میں نیگٹو باتیں کروں تو وہ مجھے تھپکی دے گا اور میری ہاں میں ہاں ملائے گا۔ اب میرے لیے مشکل ہو جاتا ہے کہ میں کیا جواب دوں؟ مجھے نعیم بھائی یاد آتے ہیں۔
جب چھٹیوں میں نعیم بھائی گائوں آتے تو سب لوگ ان سے مشورہ لینے پہنچ جاتے۔ مجھ سے کبھی کسی نے مشورہ نہیں مانگا۔ میں نے ایک دن نعیم بھائی سے پوچھا کہ یہ کیا چکر ہے‘ سب آپ سے مشورہ کرتے ہیں مگر مجھ سے کوئی نہیں پوچھتا۔ شاید مجھے وہ اس قابل نہیں سمجھتے۔ سب آپ کے دیوانے ہیں کہ ڈاکٹر نعیم بڑا اچھا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ ہنس کر بولے: ایک بات ذہن میں رکھنا کہ جو بندہ بھی آپ سے کوئی مشورہ کرنے آتا ہے‘ اس کے ذہن میں اس مسئلے کا ایک حل ضرور ہوتا ہے۔ وہ آپ سے کوئی نیا مشورہ نہیں چاہتا بلکہ اس کے اپنے ذہن میں جو حل ہوتا ہے‘ و ہ آپ سے اس کی حمایت یا تصدیق چاہتا ہے۔ میں ہمیشہ اُس بندے سے پوچھتا ہوں کہ پہلے آپ بتائیں کہ آپ کا یہ مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے۔ وہ فٹافٹ بولنا شروع ہو جاتا ہے کہ میرے خیال سے اگر میں ایسا کر لوں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں اسے کہتا ہوں کہ بالکل ایسا ہی کرو۔ تم بالکل ٹھیک سوچ رہے ہو۔ وہ بندہ خوش ہو جاتا ہے کہ جو میں نے مسئلے کا حل سوچ رکھا تھا وہی حل اچھا ہے۔ یوں وہ بندہ نئے جوش کے ساتھ محنت کر کے‘ زور لگا کر وہ مسئلہ حل کر لیتا ہے۔ وہ اپنے حالات کو بہتر سمجھتا ہے لیکن اسے بس ایک حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بالکل ٹھیک سوچ رہا تھا۔ نعیم بھائی کہتے تھے کہ میں کچھ بھی نہیں کرتا‘ بس اس کی سوچ کو Endorse کر دیتا ہوں اور وہ سمجھتا ہے کہ ڈاکٹر نعیم بڑا ذہین انسان ہے‘ جو مشورہ دیتا ہے اس سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے حالانکہ میں نے اسے وہی مشورہ دیتا ہوں جو وہ اپنے ذہن میں سوچ کر مجھ سے مشورہ کرنے آیا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس تم مسئلہ سن کر اپنا کوئی حل بتانے لگ جاتے ہو جس کو وہ اونرشپ نہیں دے پاتا۔ اس کے ذہن میں کشمکش چل رہی ہوتی ہے کہ کیا اس نے جو حل سوچا تھا وہ ٹھیک تھا یا یہ موصوف جو کچھ مجھے بتا رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ اسے تمہارے مشورے کا سر پیر سمجھ نہیں آتا‘ لہٰذا وہ بوجھل دل کے ساتھ تمہاری بات سن تو لیتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کر پاتا اور یوں اس کا مسئلہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ وہ کہنے لگے: اس کا حل یہی ہے کہ تم ہمیشہ اگلے بندے سے پوچھو کہ اس کا اپنا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ پھر اس کا جواب سن کر بتا دیا کرو کہ تم بالکل ٹھیک سوچ رہے ہو۔ کرنی اس نے ویسے بھی اپنی مرضی ہی ہوتی ہے۔ 99 فیصد لوگ دوسروں سے مشورہ تو کر لیتے ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کر پاتے کیونکہ انہیں وہ مشورہ اپنے حالات سے مطابقت کھاتا نہیں لگتا۔
مجھے نعیم بھائی کی یہ بات اب بہت یاد آتی ہے۔ اب جو بھی مجھ سے پوچھتا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا تو میں اس پر لمبا بھاشن دینے کے بجائے وہی سوال اس سے پوچھ لیتا ہوں کہ مجھے چھوڑیں‘ آپ بتائیں کہ اس ملک کا کیا بننے جا رہا ہے؟ وہ کھل کر اپنا غصہ نکالتا ہے اور پھر مجھے فخریہ انداز سے دیکھتا ہے کہ اب مجھے داد دو۔ میں مسکرا کر اسے داد دیتا ہوں اور وہ بندہ یہ توقع رکھ کر سو جاتا ہے کہ کل صبح وہ اٹھے گا تو یا اس کی قسمت بدل چکی ہو گی یا ملک پر آسمان گر چکا ہو گا۔ میں اگر ان کی سوچ اور رائے کے خلاف کوئی بات کر دوں تو مجھے طویل بحث کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بڑے عرصے بعد احساس ہوا کہ میں کیا بیوقوفی کرتا ہوں۔ کون اپنے خیالات چند منٹ کی گفتگو میں تبدیل کرے گا؟
لندن کے گولڈ سمتھ کالج کی کلاس یاد آتی ہے‘ جہاں ہمارے پروفیسر نے ایک دن ہمیں ایک سروے دیا کہ اخبارات‘ میڈیا یا ٹیلی ویژن سے عوام کی رائے پر کتنا اثر پڑتا ہے؟ مطلب کتنے فیصد لوگ؍ ووٹرز میڈیا‘ کالم یا ٹاک شوز کی وجہ سے اپنی سیاسی رائے یا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں۔ پتا چلا کہ مشکل سے دس‘ پندرہ فیصد لوگ ہی اپنی رائے بدلتے ہیں‘ اسّی فیصد لوگوں پر میڈیا کے تجزیوں‘ خبروں یا کالموں کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔ وہ جس پارٹی کو پسند کرتے ہیں‘ اسی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں البتہ بعض دفعہ وہ دس‘ پندرہ فیصد لوگ ہی سوئنگ ووٹرز کے طور پر حکمرانوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ امریکہ میں بھی یہی حال ہے کہ وہاں اکثریت ریاستوں کا سب کو علم ہوتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں‘ صرف دس یا پندرہ فیصد ووٹرز ہی اپنی رائے تبدیل کرتے ہیں اور سب پارٹیاں اپنا سارا زور اُن دس فیصد کو اپنی طرف لانے کے لیے لگا دیتی ہیں‘ کیونکہ وہی ووٹرز فیصلہ کن کہلاتے ہیں۔ اگر امریکہ میں چار سال میں پورا میڈیا اور لیڈر مل کر بھی لوگوں کی رائے تبدیل نہیں کرسکتے تو پھر ہم کیا فضول بحث مباحثے کرتے رہتے ہیں؟ لوگوں کی رائے بدلنا آسان کام نہیں‘ نہ ہی وہ اپنی رائے بدلتے ہیں۔ جو بدلتے ہیں‘ وہ غیر معمولی لوگ ہوتے ہوں گے۔
لہٰذا اب جب لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بتائیں ملک کا کیا بن رہا ہے تو میں آگے سے مسکرا کر کہتا ہوں: آپ بتائیں کہ کیا بنے گا؟ پھر وہ نان سٹاپ بولتے چلے جائیں گے اور پانچ منٹ میں پورا نقشہ سمجھا دیں گے۔ وہ دراصل آپ کو نہیں سننا چاہتے بلکہ اپنی سنانا چاہتے تھے۔ ہر بندے کو ایک سامع درکار ہے اور وہی لوگ دنیا میں مقبول ہوتے ہیں جو خاموش رہ کر دوسروں کو سن سکتے ہیں‘ کیونکہ یہاں ہر بندہ بولنا چاہتا ہے‘ سننا کوئی نہیں چاہتا۔ لہٰذا جب سے نعیم بھائی والا اصول اپنایا ہے زندگی کچھ آسان ہو گئی ہے۔ اب بحث نہیں کرتا۔ اگلے بندے کی اپنی مرضی اور اپنی رائے۔ آپ کا کیا جاتا ہے اگر آپ چند منٹ اسے سن لیں‘ وہ بھی تو آپ کو ٹی وی یا وی لاگ پر سنتا ہے۔
تو پھر دوستو! آپ بتائو کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟