اللہ تعالیٰ نے برصغیر کے مسلمانوں کو ایک رہبر دیا۔ یہ رہبر کریکٹر کا سراپا سچ تھا۔ مسلمان ایک آزاد وطن مانگ رہے تھے۔ اس رہبر نے اس مقصد کے حصول کیلئے اپنی جان لڑا دی۔ برطانیہ اس زمانے کی واحد سپر پاور تھا۔ اس رہبر نے دلائل کی قوت کو استعمال کیا اور ایک نہیں‘ اس نے دو پاکستان لے لیے۔ برطانیہ کے دائیں ہاتھ سے بھی پاکستان لیا۔ بائیں ہاتھ سے بھی پاکستان لیا۔ دہلی میں کھڑے ہو کر سمندر کی جانب رخ کریں تو دائیں جانب مغربی پاکستان اور بائیں جانب مشرقی پاکستان تھا‘ جو انگریزوں سے لیا گیا۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انگریز اور ہندو‘ دونوں پاکستان نہیں دینا چاہتے تھے مگر اس رہبر نے ان دونوں سے ایک نہیں دو پاکستان لیے۔ اسی لیے تو اس رہبر کو قائداعظم کہا جاتا ہے۔ وہ یقینا برصغیر کی سیاست کے سب سے بڑے قائد تھے۔ ان کا نام محمد علی جناح تھا۔ یہ دو پاکستان دراصل ایک ہی ملک تھا اور قائد کی قیادت میں یکجا تھا۔ پاکستان کے حصے میں جو فوج آئی وہ افواجِ پاکستان بن گئی‘ اس فوج نے تقسیم کے دوران لٹے پٹے اور کٹے پھٹے قافلوں کو منزلِ مراد تک پہنچانے کے لیے ایک لازوال کردار ادا کیا۔ جہاں یہ فوج نہ تھی وہاں قافلوں کے قائد اپنی حفاظت خود کرتے ہوئے‘ لڑتے بھڑتے‘ نقصان اٹھاتے منزلِ مراد پاکستان میں پہنچے۔ سب کے عجب جذبے تھے۔ یہی جذبے1965ء میں بیدار ہوئے جب بھارتی فوج نے رات کے اندھیرے میں لاہور اور سیالکوٹ سمیت دیگر جگہوں سے بین الاقوامی سرحد کو عبور کر پاکستان پر حملہ کر دیا۔ دشمن سرحدوں کے اندر تک آ گئے تھے۔ ان کا ایک افسر اپنی جیپ لے کر شالامار باغ تک پہنچ گیا تھا۔ جموں اور کشمیر کی سرحدی لائن متنازع تھی‘ ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ بھارتی طے شدہ انٹرنیشنل بارڈر کو پامال کریں گے۔ اس پامالی پر پاکستانی افواج کے سالار ایوب خان نے تاریخی خطاب کیا کہ دشمن نہیں جانتا کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے؟ اٹھو! لا الہ الا اللہ پڑھتے ہوئے دشمن پر جھپٹ پڑو۔ اور پھر عوام نے جب یکجہتی اور محبت سے پاک افواج کے کندھوں سے کندھا ملایا‘ تو دیکھتے ہی دیکھتے دشمن واپس سرپٹ بھاگا۔ کہیں تین ٹینکوں سے چھ ہزار ٹینکوں کے پڑخچے اڑائے جا رہے تھے تو کہیں ایک ہوائی جہاز ایک منٹ میں متعدد طیاروں کو گرا کر عالمی ریکارڈ بنا رہا تھا۔ سمندروں میں دوارکا کا بھارتی ساحلی شہر لرز رہا تھا تو میدان لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کی صدائوں سے لرزہ طاری تھا۔ دشمن کے دل دہل گئے تھے۔ دہلی تو اس قدر دہل گیا تھا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ یہ سب اس لیے تھا کہ ہم سب ایک تھے‘ یک جہت تھے۔ ہاتھوں میں ہاتھ تھے تو دلوں میں دل تھے۔ قائداعظمؒ کا دیا ہوا جذبہ بھی جنون کا حامل تھا۔ جہاں جہاں سے بخیے اُدھیڑے ہوئے تھے‘ لا الہ الا اللہ کی سلائی مشین نے سی دیے تھے۔
6 ستمبر 1965ء کی جنگ ہم پر اس لیے مسلط کی گئی کیونکہ ہم اس وعدے کا ایفاء مانگتے تھے جو کشمیر کا وعدہ تھا‘ جو وعدہ جواہر لال نہرو نے کیا تھا۔ ہمارے قائداعظمؒ نے کشمیر کو پاک وطن کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ ہمارے قائد نے فلسطین کی بات بھی کی تھی۔ اہلِ فلسطین کی ریاست کی بات کی تھی۔ یہ باتیں انسانیت کی باتیں تھیں۔ امن کی باتیں تھیں۔ دونوں باتوں کو پس پشت ڈالا گیا تو دنیا کا امن دائو پر لگ گیا۔ آج بھی دنیا کو امن کی شاہراہ پر ڈالا جا سکتا ہے اگر ان دونوں مسئلوں میں اہلِ حق کو ان کا حق دے دیا جائے۔ وعدوں کی پاسداری کی جائے۔ فلسطین کے بارے میں اس عہد نامے کی پاسداری کر لی جائے جو معاہدہ یروشلم کے بارے میں ہوا تھا۔ مسلمانوں نے جب یروشلم کا محاصرہ کر لیا تھا تو کوئی ساڑھے تین ماہ کے محاصرے کے بعد اہلِ یروشلم کے مذہبی لیڈر اور سیاسی حکمران سوفرونیوس پیٹریارچ نے شہر کی فصیل پر آکر حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ کو مخاطب کیا اور کہا: اگر آپ لوگ اپنے امیر المومنین کو یہاں لے آئیں تو ہم شہر کی چابیاں ان کے ہاتھ پر رکھ دیں گے۔ حضرت عمرؓ تک یہ پیغام پہنچا تو امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری (المتوفیٰ 310ھ) کے مطابق حضرت عمرؓ نے اپنا قائم مقام امیر المومنین حضرت علیؓ کو بنایا اور خود یروشلم کی جانب چل دیے۔ یروشلم میں آئے تو چابیاں ان کے ہاتھ پر رکھ دی گئیں جو معاہدہ طے پایا گیا وہ اس طرح تھا:
''امن کی یہ وہ تحریر ہے اور معاہدہ ہے جو اللہ کے بندے امیر المومنین عمر بن خطاب نے ایلیا (یروشلم) کے لوگوں کے ساتھ کیا ہے۔ یہ معاہدہ ان کی جان‘ مال‘ گرجا‘ صلیب‘ تندرست‘ بیمار اور ان کے تمام ہم مذہبوں کے لیے ہے۔ ان کے گرجوں میں نہ رہائش رکھی جائے گی نہ انہیں منہدم کیا جائے گا۔ گرجوں کو‘ وہاں کے احاطوں کو کسی بھی نقصان سے دوچار نہیں کیا جائے گا۔ ایلیا میں نصاریٰ کے ساتھ یہودی نہیں رہ سکیں گے۔ ایلیا کے باسی باقی شہروں کی طرح جزیہ دیں گے۔ یونانیوں (جرائم پیشہ) اور چوروں کو شہر سے نکال دیا جائے گا۔ ان میں سے جو شخص شہر سے نکلے گا اس کی جان اور مال کو امن کی ضمانت ہے تاکہ یہ لوگ اپنے مقامِ امن پر پہنچ جائیں۔ البتہ جو شخص ایلیا میں (اچھے رویے کے ساتھ) رہنا چاہے تو اجازت ہے۔ امن کی ضمانت بھی ہے؛ البتہ اسے جزیہ دینا ہوگا۔ مزید برآں! ایلیا والوں میں سے جو لوگ اپنی جان اور مال کے ساتھ یونانیوں کے ساتھ جانا چاہیں تو ان کو‘ ان کے گرجوں کو اور ان کی صلیبوں کو امان ہے کہ وہ بھی اپنے جائے امن تک پہنچ جائیں۔ اس تحریر اور معاہدہ پر اللہ‘ اس کے رسولﷺ مسلمانوں کے امیر اور مسلمانوں کا ذمہ ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ یہ لوگ مقررہ وقت پر جزیہ ادا کرتے رہیں گے‘‘۔
یاد رہے! گزشتہ پانچ سو برس سے یہود کا یروشلم میں داخلہ بند تھا۔ حضرت عمرؓ انہیں یہاں بسنے کی اجازت بھی دے رہے تھے مگر سرفرونیوس پیٹریارچ نے کہا: امیر المومنین! ہماری گزارش ہے کہ یہودیوں کو یروشلم میں رہنے کی اجازت نہ دی جائے‘ چنانچہ حضرت عمرؓ نے ان کے کہنے پر معاہدے میں لکھ دیا کہ یہودی یروشلم میں رہائش نہ رکھ سکیں گے۔ وہاں آئیں‘ عبادت کریں اور چلے جائیں۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد پروٹسٹنٹ اور کیتھولک مسیحیوں کے حکمرانوں نے اس معاہدے کو پس پشت ڈالا اور یہود کو یروشلم میں آباد ہونے کی اجازت دی۔ آرتھوڈوکس مسیحی‘ جن کا قائد روس ہے‘ وہ آج بھی اس اجازت کے خلاف ہیں۔ ان کا مذہبی رہنما آج بھی پیٹریارچ (Patriarch) کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی کا رزلٹ یہ ہے کہ آج دنیا کا امن دائو پر لگا ہوا ہے۔ دنیا کا امن بحال کرنے کے لیے بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی پاسداری ضروری ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان برطانیہ کی قائم کی ہوئی سرحد ڈیورنڈ لائن کی پاسداری بھی ضروری ہے۔ الحمدللہ پاکستان اپنی میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی قوت کے ساتھ ایک مضبوط ترین عسکری قوت ہے۔ چھ ستمبر کا پیغام یہ ہے کہ معاشی میدان میں بھی مضبوط بننا ہوگا۔ اس کے لیے آئی پی پیز کے جال سے وطن عزیز کو نکالنا ہو گا۔ اس کے بغیر معاشی قوت کی شاہراہ پر چلنا ناممکن ہے۔ کالا باغ ڈیم بھی اب بنا لینا چاہئے۔ ہم سستی توانائی سے ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا شروع کر دیں گے۔ اس کے لیے عدلیہ کو بھی عالمی رینکنگ میں پہلی دس پوزیشنوں میں لانے کا عزم کرنا ہو گا۔ چھ ستمبر 1965ء کے جذبے دوبارہ قوم میں پیدا کرنا ہوں گے۔ 1973ء کے آئین کی یہ گارنٹی کہ ہر پاکستانی کو میٹرک تک مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے‘ پر عمل کرتے ہوئے ہمیں 100فیصد خواندگی کے ٹارگٹ کو حاصل کرنا ہو گا۔ پولیس کو قانون کا پابند اور عوام دوست بنانا ہو گا۔ رشوت کی لعنت کا خاتمہ‘ ملاوٹ سے پاک خوراک مہیا کرکے اپنی قوم کے مستقبل کو صحت مند بنانا ہوگا۔ چھ ستمبر 2024ء کے موقع پر ایسے اقدامات کے ساتھ ہم عملی طور پر آگے بڑھیں تو نہ صرف اپنا دفاع مضبوط کریں گے بلکہ کشمیر اور فلسطین جیسی مظلوم اقوام کے کام بھی آ سکیں گے۔ ان شاء اللہ!