وطنِ عزیز میں سیاسیات اور آئینی ارتقا کے مطالع اور تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے طالب علموں اور محققین کیلئے ایک اچھی خبر ہے‘ پروفیسر حسن عسکری رضوی کی نئی کتاب ''Pakistan: Political & Constitutional Engineering‘‘ مارکیٹ میں آ چکی ہے۔ 895 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو سنگِ میل نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں فروری 2024ء کے عام انتخابات تک اُن واقعات اور تبدیلیوں کا ایک گہرا اور جامع تجزیہ پیش کیا گیا ہے جنہوں نے پاکستان کے سیاسی اور آئینی ارتقا کے عمل کو آگے بڑھانے یا اس کو پٹڑی سے اتارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی آئینی اور سیاسی تاریخ پر اور بھی کتب مارکیٹ میں موجود ہیں‘ مثلاً جی ڈبلیو چودھری کی ''Constitutional Development in Pakistan‘‘ اور حامد خان کی ''Constitutional & Political History of Pakistan‘‘۔ مگر پروفیسر حسن عسکری رضوی کی کتاب میں پاکستانی سیاست اور آئینی ارتقا میں کارفرما عوامل کا ایک وسیع تر تناظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔ اسلئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ 1946ء سے 2024ء تک پاکستان کی سیاسی اور آئینی تاریخ میں جتنے بھی اہم واقعات اور تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ انہیں پہلی بار ایک مربوط طریقے سے اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کی آنکھ سے پاکستانی سیاست کی تصویر کا کوئی کونہ پوشیدہ نہیں رہتا۔
حسن عسکری رضوی نے سیاسیات میں ماسٹرز ڈگری پنجاب یونیورسٹی‘ ایم فل ڈگری یونیورسٹی آف لیڈز (برطانیہ) اور پی ایچ ڈی یونیورسٹی آف پنسلوینیا (امریکہ) سے حاصل کی۔ اُن کے علمی کیریئر کا بڑا حصہ ڈیپارٹمنٹ آف پولیٹکل سائنس پنجاب یونیورسٹی میں گزرا ہے۔ اپنے طویل اکیڈیمک کیریئر میں پروفیسر حسن عسکری رضوی نے پاکستان کی اندرونی سیاست اور خارجہ پالیسی کے علاوہ جنوبی ایشیائی ممالک مثلاً بھارت‘ نیپال اور بنگلہ دیش کے سیاسی نظام پر بھی آرٹیکل لکھے ہیں۔ اُن کی حالیہ تصنیف درس و تدریس اور ریسرچ میں ان کے طویل تجربے اور دانش کا نچوڑ ہے۔ کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں حالات و واقعات کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مربوط کرکے سیاسی عمل کی ترقی کو ایک طویل سفر کی داستان کے طور پر پیش کیا گیا ہے‘ جس کے کچھ روشن تر پہلو بھی ہیں اور کچھ ایسے جو قومی المیے اور نقصان کا باعث بنے۔ مثلاً مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ان عوامل کا ذکر کیا گیا ہے جن کا اس موضوع پر دیگر تحریروں میں ذکر نہیں ملتا۔ اس مسئلے پر ڈاکٹر حسن عسکری نے علیحدہ کتاب بھی لکھی ہے جو غالباً ان کے پی ایچ ڈی مقالے پر مبنی ہے۔ اس میں ٹھوس دلائل کے ساتھ ناقابلِ تردید حقائق کے ساتھ واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح کسی ملک کے اندرونی بحران اور تضادات کے حل میں ناکامی بیرونی مداخلت کی راہ ہموار کرتی ہے۔
ڈاکٹر حسن عسکری نے اپنی کتاب میں درست کہا کہ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ملک کے دونوں حصوں‘ جو ایک معاندانہ رویہ رکھنے والے ملک بھارت سے گزرتے ہوئے ایک ہزار میل کے فاصلے پر واقع تھے‘ کو فوری طور پر ایک متوازن‘ منصفانہ اور جمہوری اصولوں پر مبنی فریم ورک کے تحت لانے کی ضرورت تھی مگر اُس وقت کے حکمرانوں‘ جن کا تعلق مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب سے تھا‘ نے اس طرف توجہ نہ دی اور حالات آہستہ آہستہ قابو سے باہر ہوتے گئے۔ اس طرح سول ملٹری تعلقات پر بحث کرتے ہوئے انہوں نے بالکل درست کہا کہ پاکستان میں مسلسل جاری رہنے والے سیاسی بحران کے حل کیلئے اس ایشو کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ اس سلسلے میں ان کا یہ کہنا کہ پاکستان کی سیاست پر سول ملٹری بیورو کریسی کا غلبہ 1950ء کی دہائی کے اولین برسوں میں ہی قائم ہو گیا تھا‘ درست ہے اور اس کا سبب وہ سیاسی جماعتوں کے کمزور ڈھانچے کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب پاکستان اور امریکہ کے مابین فوجی اتحاد کی بنیاد پڑی تھی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست میں امریکی مداخلت کا عمل شروع ہوا تھا۔ اس لیے میرے خیال میں سول ملٹری گٹھ جوڑ اور پہلے سے کمزور اور مختلف دھڑوں میں منقسم سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ایک طاقتور اور بالادست گروہ کے اُبھرنے کا عمل پاک امریکہ اتحاد سے مزید مضبوط ہوا۔
پروفیسر Goodnow کی کتاب The Civil Service of Pakistan, Bureaucracy in a New Nation (1964ء) میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو امریکی امداد (ملٹری اور اقتصادی) سے جو طبقات سب سے زیادہ مستفید ہوئے وہ سول اور ملٹری بیورو کریسی تھی۔ اس کے نتیجے میں ملک کی سیاست پر ان کی بالادستی کا آغاز ہوا اور سیاسی نظام کمزور ہوتا چلا گیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں سرد جنگ کے پاک امریکی اتحاد کا بڑا ہاتھ ہے۔ چند برسوں میں اس اتحاد نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔ 1954ء میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی اور بہت سے لوگوں کی نظر میں 1958ء کی بغاوت اور 1956ء کے پارلیمانی آئین کی منسوخی بھی امریکی دباؤ کے تحت عمل میں آئی تھی کیونکہ امریکیوں اور اس وقت کے پاکستانی حکمران طبقے کو خدشہ تھا کہ اگر 1956ء کے آئین کے تحت عام انتخابات ہوئے تو پاک امریکہ اتحاد کی مخالف بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں الیکشن جیت جائیں گی۔
مذکورہ کتاب 11 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے دو ابواب میں پاکستان کو درپیش اہم سیاسی مسائل مثلاً جمہوریت کے زوال‘ سیاسی انجینئرنگ اور مقتدرہ کے بدلتے ہوئے کردار کا مختصر تعارف اور ان مسائل کا صحیح تاریخی تناظر میں جائزہ لینے کیلئے ان اہم واقعات اور دستاویزات پر بحث کی گئی ہے جنہیں تقسیمِ ہند اور پاکستان کی نئی ریاست کے ظہور میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ ان میں 1946ء کے انتخابات‘ تین جون کا منصوبہ‘ انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ 1947ء‘ باؤنڈری کمیشن کی رپورٹ اور ریاستوں کا کردار شامل ہے۔ باقی ابواب میں جن موضوعات پر بحث کی گئی ہے ان میں پہلی دستور ساز اسمبلی اور اس کے پہلے اجلاس سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کا تاریخی خطاب‘ تقسیم اور قیامِ پاکستان سے جڑے ہوئے مسائل اور عبوری آئین (1947-54ء) شامل ہیں۔ باب چہارم میں پاکستانی سیاسی نظام میں مذہب کے کردار‘ وفاقی ریاست اور طریقۂ انتخاب کے علاوہ صدارتی اور پارلیمانی نظام پر قومی بحث کو مفصل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ دیگر ابواب میں پارلیمانی جمہوریت کے آہستہ آہستہ زوال پذیر ہونے اور اس کی جگہ غیر جمہوری آمرانہ حکومت کے قیام کے عوامل پر بحث کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایوب خان‘ ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں بالترتیب 1962ء کے صدارتی نظام‘ آٹھویں آئینی ترمیم اور سترہویں آئینی ترمیم کے پاکستانی سیاست پر اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ کتاب کا فوکس چونکہ سیاسی اور آئینی انجینئرنگ ہے اس لیے 1948ء سے 2024ء تک اس مقصد کے حصول کیلئے استعمال کردہ تمام ہتھکنڈوں‘ غیر سیاسی عناصر کی براہِ راست مداخلت‘ آئینی ترامیم اور انتخابی عمل میں دھاندلی کا تفصیلاً اور ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ تقریباً نو سو صفحات پر مشتمل ہونے کے باوجود کتاب کو ترتیب و تدوین میں مصنف اور ناشر نے اتنا خوبصورت بنا دیا ہے کہ پہلی ہی نظر میں کتاب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کی علمی مہارت اور سٹائل نے اسے اور بھی دلچسپ بنا دیا ہے اور سب سے بڑھ کر اس میں تفصیلی انڈیکس اور کتابیات کے اضافے نے اس کتاب بلکہ دستاویز کو نہ صرف پاکستانی سیاست کے طلبہ بلکہ محققین کیلئے بھی اہم بنا دیا ہے۔