ہمارے زمانے کا ایک مشہور گانا تھا: کچھ تو لوگ کہیں گے۔ خیر‘ دنیا میں ہمارے بارے میں لوگ جو کچھ کہتے رہیں‘ ہمیں نہ فرق پڑا ہے‘ نہ کوئی ایسے امکانات دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارا انفرادی اور قومی چلن اب ایسا بن چکا ہے کہ ہم کسی کی پروا نہیں کرتے‘ بالکل آزاد ہیں‘ دنیا کی کچھ پروا نہیں۔ ہماری انوکھی عادات واطوار ہر آنے والے وقت کے ساتھ عالمی دھارے سے ہمیں الگ تھلگ کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ روزانہ ایسی باتیں سنتے‘ دیکھتے اور عام لوگوں کے عام رویے نظر سے گزرتے ہیں تو گمان نہیں‘ بلکہ یقین کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ دورِ حاضر کی غالب اخلاقات اور تہذیب تو دور کی بات ہے‘ ہمارا اپنا تہذیبی رنگ‘ جس کے بارے میں وعظ ونصیحت اور بلند بانگ دعووں کی کمی نہیں‘ پھیکا پڑتا نظر آ رہا ہے۔ وقت کی پابندی‘ صداقت‘ ایمانداری‘ سچ گوئی‘ حلال کی کمائی‘ قانون کی پابندی اور دوسرے شہریوں کے حقوق کا لحاظ تو عام اور سادہ سی توقعات اس دنیا میں ہیں‘ جسے ہمارے اکابرین اچھا خیال نہیں کرتے۔ یہ الگ بات کہ اگر وہاں اُنہیں پکا ٹھکانہ مل جائے اور کچھ زرِمبادلہ بھی آتا رہے تو سب ٹھیک ہے۔ گھر کی چار دیواری سے نکل کر جب بھی بازاروں میں‘ جہاں ایک زمانے میں شام ہوتے ہی چکر لگاتے تھے‘ اب صرف مجبوری سے جانا پڑ جائے تو احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ ملک نہیں جو ہماری یادوں اور خوابوں میں رہا ہے۔ کوئی ایک واقعہ ہو تو دیکھیں‘ اور وہ معاملات جو ہمیں ذاتی طور پر درپیش ہیں‘ یا رہے ہیں‘ ان کے بارے میں ہم اپنی روایتی درویشی اختیار کر کے چپ رہتے ہیں۔ بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ دنیا آگے نکل گئی ہے اور ہمارا پسماندگی کا سفر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
ابھی چونکہ تازہ خبر ہے‘ اس لیے معلوم نہیں کہ ہماری حکومتوں کے ترجمان کیا فرماتے ہیں‘ مگر جو باتیں دبی اور کھلی زبان میں آٹھ فروری کے انتخابات کے بارے میں یہاں ہو رہی ہیں‘ اب ان کی گونج امریکہ کے ایوانِ نمائندگان میں بھی سنی گئی ہے۔ ایسا شاید ہمارے مارشلائی ادوار میں بھی نہیں ہوا کہ اتنی بھاری اکثریت سے کوئی قرارداد ہمارے خلاف منظور ہوئی ہو۔ ان ترجمانوں سے درخواست ہے کہ مہربانی فرما کر ان 368نمائندگان کے بارے میں یہ نہ کہہ دینا ہے کہ وہ ایک معتوب سیاسی جماعت کے پروپیگنڈے کا شکار ہوئے ہیں‘ یا اس کے بانی کے جادو کے زیر اثر ہیں۔ اس قرارداد کی زبان کافی محتاط ہے اور تاریخی حوالے سنجیدگی سے اکٹھے کیے گئے ہیں۔ مداخلت اور بے ضابطگیوں کے بارے میں دعووں (الزامات) کا لفظ استعمال ہوا ہے‘ مگر یہ درست ہے کہ جب تک تحقیق نہ ہو‘ کانگریس جیسا کوئی ادارہ الزام کو جرم بنا کر اپنی ساکھ اور اعتماد کو کمزور نہیں کرے گا۔ انہوں نے ''آزاد اور مکمل‘‘ انکوائری کرانے پر زور دیا ہے۔ یہاں بھی کوئی مختلف بات نہیں ہو رہی۔ جن دیگر امور کا ذکر ہے‘ اُن میں ہراسگی‘ تشدد‘ تخریف‘ بلاجواز حراست اور معلومات کے ذرائع پر پابندیاں ہیں۔ ویسے تو اس قرارداد میں ہر بات قابلِ ذکر ہے‘ مگر ایک کا ذکر بہت ضروری ہے کہ جمہوریت میں لوگوں کی شرکت کو نہ دبایا جائے اور نہ روکا جائے۔ انسانی حقوق کے لحاظ کا بھی کچھ ذکر ہے‘ مگر ایسے مطالبات پر دنیا کا سامنا کرنے کا ہم نے وہی طریقہ اپنایا ہوا ہے جو غیر جمہوری ممالک میں رائج ہے‘ کہ آپ کی اطلاعات غلط اور ادھوری ہیں‘ سنی سنائی باتیں ہیں اور یہ ہماری ریاست کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت ہے‘ اور یہ کہ آپ اپنے کام سے کام رکھیں۔
کوئی بھی ملک عصرِ حاضر کے غالب نظریات‘ اخلاقیات اور ریاستوں اور حکومتوں کو چلانے کے لیے عالمی معیار کو نظر انداز کرکے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم ایک آزاد ریاست ہیں‘ اور ہمیں اپنی آزادی کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اس پر کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔ یہ بھی غلط نہیں کہ بیرونی ریاستوں کو کسی کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ مگر اس آزادی کا مطلب عوام کی آزادیوں کو کچلنا‘ ان کی رائے کو رد ی کی ٹوکری میں ڈالنا اور الیکشن کو ''سلیکشن‘‘ میں بدل دینا قومی آزادی کی روح کے منافی نہیں تو اور کیا ہے؟ لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ گورے صاحب کی جگہ کہیں کالے تو کہیں بھورے صاحب نے لے لی ہے۔ حقیقی آزادی ہم جسے کہتے ہیں‘ وہ عوام کی منشا کے مطابق ان کی نمائندہ حکومت کی تشکیل اور ایسی حکومت کا کام صرف اور صرف شہریوں کا تحفظ‘ امن و امان‘ معاشی ترقی اور جو ایک انگریز مفکر نے اٹھارہویں صدی میں کیا تھا‘ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ پُرمسرت رکھنا۔ یہاں تو جہاں جائیں‘ جہاں دیکھیں ہر عام و خاص کے چہرے لٹکے ہوئے ہیں‘ شکایات کے علاوہ کچھ اور نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں۔ ہر چہرہ فکرمند دکھائی دیتا ہے۔ جب ہم آٹھ فروری کو ووٹ ڈال رہے تھے اور اس سے قبل جو سیاسی کھیل پاکستان جمہوری اتحاد کی صورت میں دیکھ چکے تھے‘ اور پھر انتخابات کی رات کا ڈرامہ اور اگلے دن شام تک کی ہمارے جمہوری سفر کی روداد ساری دنیا دیکھ رہی تھی‘ اسی دن جو تبصرے عالمی میڈیا پر دیکھے‘ مغربی دنیا کے سرکاری نمائندوں کی طرف سے جو بیان دیے گئے‘ وہ عوامی سطح پر چنائو کے واقعات کی رائے کی تائید تھی۔ یوں سمجھیں کہ سفارتی آداب کی ساتھ جو دنیا کئی ماہ سے کہہ رہی تھی‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی جائزیت مشکوک نظر آتی ہے۔
جہاں کہیں سیاسی دھاندلی ہوتی ہے‘ یا آمریت قائم ہوتی ہے‘ حکومتیں ریاستی اقتدار کا سہارا لے کر ہر منفی بیان کو رد کرتی رہتی ہیں۔ جمہوریت کی بحالی اور متشدد نوعیت کی آمریتوں کو ختم کرنے کے لیے کئی بار عسکری مداخلتیں بھی ہم نے دیکھی ہیں جن کے اثرات نے ایسی ریاستوں اور ان کے معاشروں کو ایسا تباہ کیا ہے کہ دہائیوں بعد بھی ایک متفق اور متحدہ اور مؤثر سیاسی اکائی کے طور پر منظم نہیں ہو پائے۔ دھاندلی پر قائم حکومتوں کی نہ تو کہیں پذیرائی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی باتوں کی کہیں کوئی وقعت رہتی ہے۔ وہ اپنا وجود منوانے کے لیے ہمیشہ کچھ دوست ممالک کا رخ کرتے ہیں۔ اچھے سوٹ پہن کر‘ کیمروں کے ساتھ مسکراتے تصاویر بنا کر قوم کو بار بار دکھاتے ہیں۔ بدلے ہوئے زمانوں میں ہم جانتے ہیں کہ صرف وہ ریاستیں کامیاب ہوئیں‘ ترقی کے سفر پر گامزن ہوئیں جنہوں نے داخلی جائزیت قائم کی اور عالمی اقتصادی نظریے کو اپنے قومی حالات کے مطابق ڈھال لیا۔ یہ جو ہم اکثر کہتے ہیں کہ ہمارا محل وقوع ایسا ہے کہ ان ممالک کو جن کا دنیا میں راج ہے‘ وہ بھاگے ہمارے پاس آئیں گے‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ کس کی حکومت ہے اور کیسے بنی ہے‘ ووٹ کیسے گنے‘ فارم کیسے بنے۔ ایک درستی فرمائیں: وہ زمانہ اب گزر چکا۔ یہ قرارداد دنیا کے طاقتور ملک کے طاقتور ایوان نے منظور کی ہے۔ آپ اب بے شک اُن کی درگت بناتے رہیں‘ جن کی بنا رہے ہیں۔ جو معتوب ہیں‘ انہیں معتوب ہی رہنے دیں۔ مگر دنیا آپ کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دے گی اور آپ ''ظلمت کو ضیا‘‘ کہنے پر مذاق بن کر رہ جائیں گے۔