"RBC" (space) message & send to 7575

خاک رعب

اگر اجازت ہو تو اس معمولی مضمون جو ایک معمولی انسان کے بارے میں ہے‘ خاکروب کو ''خاک رعب‘‘ لکھوں۔ خیر اگر اجازت نہ بھی ہو تو قلم اور زبانیں کب رکتی ہیں‘ مگر ہمارا قلم کمزور اور لفظ بے جان مگر دل ہے کہ ہمیں آج کل کے کہر کے زمانے میں گرفتہ رکھتا ہے۔ اس دل گرفتگی‘ دھوئیں اور سموگ میں گھرے ماحول میں فیصل آباد کی ''خاک رعب‘‘ نصرت بی بی کی رزق حلال کمانے کی بات نے دل گرفتگی کو وارفتگی میں بدل دیا۔ کافی کے کالے کپ کے پہلے بڑے گھونٹ کے اثر کی طرح ہر رگ اور نس میں ایسی کیفیت جو تنہائی میں محسوس کی جا سکتی ہے‘ مگر بیان کرنے کے لیے قلم میں زور نہیں۔ خاک نشینوں کی خبریں ہمیں ہمیشہ مسحور کرتی رہتی ہیں کہ ایک عرصہ سے ہماری اشرافیہ ہمارے ساتھ جو سلوک کرتی آئی ہے اب خاک نشین ہی ہماری اخلاقیات‘ ایمانداری اور اپنی ذمہ داریوں سے وابستگی کی علامت نظر آتے ہیں۔ غالب نظریہ پوری دنیا میں تو یہ ہے اور کب سے قائم ہے کہ معاشرے کی اخلاقیات‘ آدابِ معاشرت اور اخلاقی رویے حکمران اشرافیہ کے حقیقی رویوں سے مرتب ہوتے ہیں۔ معاشرے بنتے اور بگڑتے انہی کی وجہ سے ہیں۔ عام لوگ ہمیشہ اوپر والوں کی طرف نظریں جمائے رکھتے ہیں۔ ان کی کہانیاں سنتے اور دہراتے رہتے ہیں‘ مگر ترامیم اور اضافوں کے ساتھ۔ اشرافیہ کی اخلاقی چھاپ صرف ان کے مضبوط کردار کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے۔ اگر وہ کچھ کریں جو اکثر زبانِ خلق سے سننے میں آتا ہے تو حکمران پر اعتماد عزت واحترام کے رشتے ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔ دلوں پر جب حکومت نہیں رہتی‘ ذہن کچھ ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو پھر آزمودہ فارمولا آپ کو پتا ہی ہے۔
ہم تو خیر جمہوری ملک ہیں‘ سب کچھ قانون قاعدے‘ آئین اور پُرجوش عوامی حمایت سے ہی ہوتا ہے‘ اس لیے ہم جبر کی مثال صرف سٹالن اور ہٹلر کے عہد کی دے سکتے ہیں کہ یہی محفوظ طریقہ ہے۔ وہ بہت عرصہ پہلے اپنی سلطنت اور محبتیں نچھاور کرتے عوام کو چھوڑ کر کہیں اور جا چکے ہیں۔ ہمارے برصغیر میں جہاں کسی بھی ملک کو استثنا نہیں‘ معاشرے جاگیرداری‘ ذات پات اور کئی دیگر گروہی الجھنوں کا شکار ہیں۔ اوپری اور نچلی ذاتوں کا فرق آج تک آئینی مساوات اور کچھ معاشی ترقی کے باوجود کسی بھی ملک میں نہیں مٹ سکا۔ ذات برادری کا امتیاز‘ تفاخر اور تفریق کسی علاقے میں کم اور زیادہ ضرور ہے مگر جاگیرداری معاشرے کا تاریخی تحفہ گلے میں جعلی پیروں فقیروں کے تعویذوں کی طرح لٹکا ہوا ہے۔ خاکروب کا لفظ کسی نے نہیں سنا‘ لیکن صبح سویرے آنکھ ملتے ہی دل کی طرف سے حکم صادر ہوا کہ ذرا اس لفظ کا تاریخ‘ جغرافیہ اور کچھ معنی اردو اور فارسی میں تلاش کرو۔ اردو میں جو اس کی تعریف پڑھی‘ اور یہ تعریف کرنے والا کوئی ادارہ معارف اردو ہی تھا‘ وہ ناقابل بیان ہے۔ وہی باتیں جنہیں آپ اعلیٰ طبقہ کہتے ہیں‘ زیریں طبقات والوں کے لیے کہتا ہے۔ جو کچھ خاکروبوں سے منسوب ہے اس کا بیان کرنا کم از کم اس تہذیب کے دائرے میں نہیں آتا جس سے ہماری کچھ آشنائی ہے۔ دورِ جدید‘ جس کے معاشی اور سائنسی فیوض وبرکات سے دنیا بھر کی اشرافیہ مستفید ہوتی ہے‘ کا پہلا سنہری اصول یہ ہے کہ ہمیں اس سے کیا سروکار کہ آپ کے باپ دادا اور ان سے پہلے والے کیا تھے‘ اصل بات تو یہ ہے کہ آپ کیا ہیں‘ کیا کرتے ہیں اور آپ کے اپنے کمالات کیا ہیں۔ جاگیرداری معاشرے کا پہلا اور آخری غلبہ گیری کا اصول یہ ہے کہ پدرم سلطان بود۔ بات صرف یہاں تک ہوتی تو ہم مذاق میں ٹال دیتے۔ اہل ''پدرم سلطان بود‘‘ کے ہاتھوں میں طاقت کے سب وسائل‘ زر‘ زمین سے لے کر حکومتی اور سیاسی راہ داریوں پر قبضہ ہے۔ کہانی اس لیے ان کی غالب رہتی ہے ''خاک رعبوں‘‘ کی نہیں۔
اس معاشرے کے تضاد دیکھیں کہ جب ایک طرف اربوں‘ کھربوں مشکوک طریقوں سے ہاتھ تبدیل کرتے ہیں جو آپ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ پڑھے بغیر بھی خاک نشینوں کی روزمرہ کے چائے خانوں‘ گلی محلوں اور چوپالوں میں ہر وقت چلتی پٹی سے سن سکتے ہیں۔ دوسری طرف ''خاک رعب‘‘ نصرت بی بی‘ پانچ بچوں کی ماں‘ ایک معمولی سی آمدنی پر گزارہ کرتی خاتون نو لاکھ ادھر اُدھر کرنے کے بجائے اصل مالک کو لوٹا دیتی ہے۔ ہم درویش لوگوں کے نزدیک اصل اشرافیہ ایسے خاک لوگ ہیں جو اپنی آمدنی‘ اپنی زندگی اور اپنی حق حلال کی کمائی سے مطمئن اور آسودہ ہیں۔ یہ بھی عجیب تضاد دیکھا ہے کہ خاک نشینوں کو اطمینان اور سکون کی دولت کی فراوانی اور اکثر دولت مندوں کو مزید کی تمنا بے سکون رکھتی ہے۔ دورِ جدید کی اخلاقیات وہ نہیں جو آپ سنتے رہتے ہیں۔ اس اخلاقیات کی روح اپنے ہاتھ کی کمائی ہے‘ وہ جتنی بھی ہو۔ اس کمائی سے ہی پُرلطف اور پُرسکون زندگی میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی دورِ جدید کی طرزِ زندگی کا حصہ ہے۔ باقی سب کچھ نمائش اور دکھاوا ہے۔ خاک نشینوں کو اس سے کیا سروکار۔
جب اس معمولی کہانی بارے کھوج لگانے کی کوشش کی تو خیال تھا کہ ہمارے صحافیوں اور اینکروں کے لیے تو یہ نیا موضوع ہو گا‘ اور نصر ت بی بی کے انٹرویوز اور زندگی کی کہانی پر اُس جذبے سے لکھا اور بولا جائے گا جس سے وہ ملک کی سیاسی تقسیم کو اجاگر کرتے ہیں۔ مگر افسوس‘ چند سطور ہی ادھر اُدھر دیکھ سکا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم معاشرے میں کن کے ثنا خوان ہیں‘ اور کون سے زیر طبقات ہیں جنہیں ہم گرد وغبار میں لپٹا دیکھ کر‘ نظریں گاڑی کے سامنے کیے‘ ایک ناپسندیدہ منظر کی طرح پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتے ہیں۔ دورِ جدید جس کی آمد کا ہمارے ہاں بھی انتظار ہے‘ جہاں اس کا ہمیں تجربہ حاصل کرنے کا شرف ملا ہے‘ خاک نشینوں کا رعب اور دبدبہ ہے۔ بڑی بڑی حکومتیں‘ بڑے بڑے لیڈر‘ صرف اُن کی پرچی کی مار ہیں۔ دیکھا نہیں لندن اور نیویارک میں کیا ہوا اور یہ خاک نشین کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ فرق صرف یہ ہے کہ صنعتی معاشرے نے کم از کم قانونی اور سیاسی برابری کو تسلیم کیا ہے۔ باقی باتیں فروعی ہیں کہ آپ کے ساتھ چائے اور کھانے کی میز پر کون بیٹھتا ہے۔ ہمارے جاگیرداری معاشرے میں نظام ہی حکمرانوں نے ایسا بنایا ہے جو صرف ان کے اور بالا طبقات کے غلبے کا تحفظ کرتا ہے۔ زیریں طبقات کے لیے جو کھڑکیاں اور روشن دان جدیدیت اور تعلیم نے کھولے تھے‘ ابھی بند تو نہیں ہوئے مگر نہ تمام دروازے کھلے ہیں اور نہ ان میں اتنی کشادگی پیدا ہوئی ہے جو سماجی انقلاب جدید ریاستیں پیدا کر رہی ہیں جس میں مساوات سرفہرست ہے۔ یہ بھی غنیمت ہے کہ نصرت بی بی کم از کم پنجاب کو ستھرا کرنے اور رکھنے میں‘ محلہ نگہبان پورہ میں سرکاری روزگار سے منسلک ہیں۔ یہاں سب کچھ الٹ ہے۔ صنعتی معاشروں میں خواتین دفتروں‘ بینکوں اور ریستورانوں اور ہر اس جگہ جہاں خدمات مہیا کی جاتی ہیں‘ کہیں زیادہ تعداد میں کام کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں دفتروں میں مرد حضرات اور صفائی ستھرائی کے کام میں خواتین زیادہ نظر آتہیں۔ دفتر میں موجودہ مرد حضرات‘ اگر مناسب سمجھتا تو ان کا حلیہ اور ذہنی صورتحال کا تذکرہ بھی ضرور کرتا‘ مگر نامناسب ہو گا۔ جس دن ہم نے ''خاک رعبوں‘‘ کو تعلیم دے کر دفتروں میں جگہ دی اور مردوں کو پنجاب کو ستھرا رکھنے کی ذمہ داری دی‘ تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ایمانداری اور رزق حلال‘ جو آج کل کے زمانے میں شاید احمقوں کی خواہش ہو‘ پنجاب واقعی صاف ستھرا ہو جائے گا۔ تینوں نقطوں میں بڑی خصوصیت ہے: نگہبان پورہ‘ خاک رعب اور نصرت۔ سوچتا ہوں‘ اگر ملک کی نگہبانی ''خاک رعبوں‘‘ اور عوامی حاکمیت کی ہو تو ملک کو تب نصرت نصیب ہو گی۔ نگہبانی کا تقاضا تو یہی ہے کہ نصرت کی اخلاقیات ہم سب کے اخلاقی اور قانونی رویوں میں ڈھل جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں