ہمارے جامعہ پنجاب کے زمانے کے اشتراکی انقلابی فیاض باقر ایک کرشماتی طالب علم رہنما تھے۔ ہم ان کی رجائیت پسند شخصیت‘ نظریاتی جہت اور ولولہ انگیز قیادت سے متاثر ہو کر ان کے حلقۂ انقلابی جدوجہد کا حصہ بنے رہے۔ نرم اندازِگفتگو‘ غیر جارحانہ رویے‘ متاثر کن دلیل اور وسیع مطالعہ نے انہیں ہمیشہ علمی اور نظریاتی مباحث میں ممتاز مقام دیا ہے۔ جس انقلاب کے خواب ہماری نسل نے دیکھے تھے‘ وہ توحالات کے جبر کی نذر ہو گیا‘ اور ہم دونوں کو حالات کا جھونکا اُڑا کر نئی دنیا کی جامعات میں لے گیا۔ ضیا الحق صاحب کا دور شروع ہوا تو پرانی طرز کے انقلابیوں کیلئے عرصۂ حیات تنگ ہو گیا۔ ملک سے بھاگنے میں ہی عافیت گردانی اور مارکسزم سے خاموشی اور باعزت طریقے سے سبکدوشی اختیار کرکے کینیڈا میں اعلیٰ تعلیم میں مصروف ہو گئے۔ جلاوطنی میں ہماری ملاقات برکلے میں ہوئی جہاں اس درویش کے پاس ایک فیلو شپ تھی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ایک کتاب پر تحقیق کر رہا تھا۔ اب ہم اور طرح کے انقلابی بن چکے تھے‘ کہ تبدیلی تو معاشرے میں لانی ہے مگر پُرامن اور سماج کے وسائل کے زور پر۔ اس کے بعد ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ یہاں پاکستان میں برسوں رہا‘ جب فیاض باقر صاحب سماجی ترقی‘ غربت کے خاتمے اور انسانی حقوق اور سماجی تنظیموں کے کاموں میں مصروف رہے۔ اپنی پوری زندگی‘ اور ابھی تک‘ ایک خاموش انقلاب کے نظریے سے جڑے ہوئے ہیں‘ جو اُن کی نئی کتاب کا عنوان ہے۔ ویسے اس موضوع پر ہماری گفتگو بہت پرانی ہے۔ اصل میں پہلا انقلاب تو ان کے اپنے نظریات میں نمودار ہوا کہ کہاں اشتراکی انقلاب کی باتیں اور کہاں ڈیوڈ گریبر (David Graeber)کا یہ خیال کہ انقلابی نظریہ یہ نہیں کہ محلات پر قبضہ کر لیا جائے اور حکومتوں کا تختہ اُلٹ دیا جائے‘ بلکہ وہ ہے کہ جب وہ نظریات تبدیل ہو جائیں جن سے عمومی سمجھ بوجھ کا تعین ہوتا ہے جو کہ ایک اخلاقی اصول ہے‘ نہ کہ سیاسی نظریہ۔ انہوں نے کتاب کو ان کے اس اصول سے منتسب کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا‘ معاشرے اور انسانوں کو اخلاقی پہلوؤں‘ ان کی فطری صلاحیتوں ‘ باہمی دانش کے حوالوں سے سمجھنے کی کوشش کریں تو پھر ہم اپنے مسائل باہمی تعاون اور شراکت داری سے حل کر سکتے ہیں۔
سماجی اور معاشی ترقی کا مکتبِ فکر جس کی ابتدا اختر حمید خان صاحب مرحوم نے کی‘ اور عملی طور پر کراچی کے پسماندہ ترین علاقے کورنگی میں مقامی آبادی کے تعاون سے سیوریج کا نظام تیارکرکے دکھایا‘ وہ اب صرف پاکستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں لوگوں کو متحرک کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے نظریات کے برعکس ان کا خیال یہ رہا ہے کہ استعماری ریاست کے قیام اور پھر ہماری آزادی کے بعد کی صورتحال کو دیکھیں تو ریاست میں وہ صلاحیت اور استعداد ہی نہیں جس سے عمودی ترقی تو دور کی بات‘ ہم ترقی کے ابتدائی مراحل بھی بمشکل طے کر سکیں۔ اس لیے غربت‘ بیماری‘ تعلیم کے فقدان‘ ماحولیات کی تباہی اور بے روزگاری کو ختم کرنے کیلئے ریاست کی طرف نظریں جمانے کے بجائے ہم مقامی آبادیوں کو منظم کریں اور اپنے وسائل پر انحصار کرکے اپنے مسائل کو خود حل کریں۔ زیر نظر کتاب 'خاموش انقلاب‘ ان کرشماتی کامیابیوں کو ضبطِ تحریر میں لا کر لوگوں کو عمومی طور پر اور نوجوانوں کو خصوصی طور پر یہ پُر امید پیغام دیتی ہے کہ ہم اپنے مقامی وسائل اور قوتوں کو مجتمع کرکے معاشرے اور تمام لوگوں کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔
فیاض باقر نے بیس خاموش انقلابیوں کے عملی کام کو آج کے مایوس نوجوانوں کو تحریک دینے کیلئے انٹرویوز پر مشتمل اس کتاب کی صورت میں لاکر ایک بہت بڑا کام کر دیا ہے۔ ان کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ ہم جیسے رائے ساز مبصروں‘ میڈیا اور سیاسی لوگوں نے ملک کی ناکامی کا بیانیہ اس تکرار اور تسلسل سے کیا ہے کہ جو بھی اعلیٰ درجے کی خدمات رضا کارانہ طور پر زندگی کے ہر شعبے میں ہمارے سماجی رہنماؤں نے سرانجام دی ہیں‘ انہیں دبا دیا ہے۔ جی تو یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک کامیابی کو مضمون کی صورت آپ کیلئے پیش کیا جائے مگر اس وقت صرف آپ کے سامنے دو مثالیں اور بنیادی ترقی کا سماجی فلسفہ رکھنے کی خواہش ہے۔
محترمہ سیما عزیز صاحبہ کو‘ جو لوگ تعلیم و تدریس سے متعلق ہیں ضرور جانتے ہوں گے۔ سرکاری سکولوں کی زبوں حالی پنجاب میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آج سے 34 سال پہلے انہوں نے دس سکول اپنے تحویل میں لیے جن میں صرف 250 بچے زیر تعلیم تھے۔ اب ان کے تعلیمی سسٹم میں تین لاکھ بچے معیاری تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ان کے 900سکول‘ نجی سکولوں کی طرز پر انگلش میڈیم ہیں۔ اس میں کوئی منفعت مقصود نہیں‘ صرف سماجی تبدیلی کا جذبہ کہ غریب لوگوں کے بچوں کی زندگی بدل جائے۔ ہر سال بارہ سے پندرہ ہزار بچے سکولوں سے فارغ التحصیل ہو کر اعلیٰ تعلیمی اداروں اور پروفیشنل میدانوں میں جا رہے ہیں۔ ایک جذبے اور عملیت پسندی نے لاکھوں انسانوں کی زندگی کو بدل دیا ہے۔ ایسے ہی روشنی کے مینار دیگر متحرک لوگوں کو زندگی کی درست راہوں پر گامزن کر سکتے ہیں۔
دوسری مثال ہمارے محترم ڈاکٹر امجد ثاقب کی ہے جن سے شناسائی گزشتہ بائیس سال سے ہے۔ لاہور میں بیتے برسوں کے دوران ملاقاتیں رہیں۔ ہمیشہ ان کی سادگی‘ کچھ کردکھانے کے جذبے اور منکسرالمزاجی نے دائمی اثر چھوڑا۔ وہ بھی فیاض باقر کی طرح اختر حمید خان‘ شعیب سلطان خاں صاحب کے غیر ریاستی دھارے میں منسلک ہو کر غربت‘ بے روزگاری کے خاتمے کیلئے بلاسود قرضوں کا اخوت کے نام سے ایسا مربوط اور منظم نظام قائم کیے ہوئے ہیں جو دیگر ممالک کیلئے بھی ایک مثال ہے۔ دس ہزار روپے کا پہلا بلاسود قرضہ دیا۔ اب ان قرضوں کا حجم ایک ارب امریکی ڈالر کی حد عبور کر چکا ہے۔ تعداد کے لحاظ سے دیکھیں تو وہ ساٹھ لاکھ قرضے دے چکے ہیں اور یہ دائرہ وسیع ہوتا چلا جارہا ہے۔ لوگ ملک کے اندر ہوں یا باہر‘ حیران ہوتے ہیں کہ ایسا نظام کیسے چل سکتا ہے‘ مگر ڈاکٹر امجد ثاقب نے دہائیوں سے اسے قابلِ عمل بنا کر دکھایا ہے تاکہ چھوٹے قرضوں کی سودی معیشت کے عالمی غلبے کے سامنے ایک نئی سوچ اور راہ دکھائی دے۔ ان کا بنیادی زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ ہم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایثار کے جذبے سے لبریز ہیں اور بلاسود قرض دینے کیلئے تیار ہیں‘ اور دوسرا یہ بھی عملی طور پر درست ثابت ہوا کہ جو ضرروت مند لوگ کاروبار کیلئے قرضہ لیتے ہیں‘ وہ دیانت دار ہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ تقریباً سو فیصد قرضہ نہ صرف واپس کرتے آئے ہیں بلکہ مالی آسودگی حاصل کرنے کے بعد وہ بھی قرض دینے والوں کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔
فیاض باقر اسے خاموش انقلاب اس لیے بھی کہتے ہیں کہ کہیں بھی ان سب مثالوں میں خود نمائی کا شائبہ تک نہیں۔ فیاض باقر کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنے وسائل میں رہتے اور نظام کے اندر کام کرتے ہوئے تبدیلی لانے کی کاوش کریں تو کون سا کام ہے جو ممکن نہیں۔ ہمیں حکومتوں اور عالمی طاقتوں پر الزام تراشی میں وقت ضائع کرنے کے بجائے سیما عزیز اور امجد ثاقب کے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے نوجوان کو ایسی کامیابیوں سے آگاہی درکار ہے کہ کہیں وہ کامیابیوں کے بیانیے میں نہ اُلجھے رہیں بلکہ عملیت پسندی کے مثالیت پسند بنیں۔ یہ سب کہانیاں امید‘ آزادی اور اپنے مقامی سماج سے قربت کا رشتہ جوڑ کر رضاکارانہ خدمت سرانجام دینے کی ہیں۔ یہی نورِ سحر کے تابناک اشارے ہیں۔