سادگی اورسادہ لوحی

پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ نے حلف اُٹھانے کے بعد پنجاب کے ہر شہر اور قصبے سے ایک قدم آگے بڑھ کر ہر گائوں کو بھی صاف شفاف بنا دینے کا حکم نامہ جاری کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ اُن کے ماتحتوں کی تعداد ہزاروں نہیں‘ لاکھوں میں ہے۔ ماتحتوں نے صوبے کی حاکم اعلیٰ کا فرمان بڑی فرمانبرداری اور احترام (اس میں تھوڑا سا خوف بھی شامل کر لیں) سے سنا مگر بدقسمتی (اہالیانِ پنجاب کی‘ نہ کہ حکمرانوں کی) یہ کہ ماتحتوں نے اس حکم کو ایک کان سے سنا اور دوسرے سے ہوا میں اُڑا دیا۔ اگرچہ وزیراعلیٰ صاحبہ نے اس کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا تھا مگر جب یہ مہلت ختم ہوئی تو‘ پنجاب میں رہنے والے اس کی گواہی دیں گے کہ پنجاب کے قریہ قریہ میں گندگی کا وہی عالم ہے جو نگران حکومت‘ تحریکِ انصاف کی حکومت اور اُس سے پہلے کی حکومتوں کے عہد میں تھا۔ چھوٹے شہروں اور نظر نہ آنے والے ہزاروں دیہات کا تو کیا ذکر‘ دارالحکومت لاہور میں بھی چار سُو پھیلی ہوئی گندگی اتنی ہمہ گیر ہے کہ ناقابلِ تصور ہی نہیں ناقابل بیان بھی ہے (خصوصاً جب کالم نگار میرے جیسا بوڑھا‘ پینڈو‘ مسکین اور جلاوطن ہو)۔
ہم جانتے ہیں کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ میں خواہ کتنی ہی خوبیاں ہوں مگر انہیں کسی انتظامی عہدے پر کام کا موقع نہیں ملا۔ ممکن ہے کہ وہ اتنی سادہ دل ہوں کہ اُنہوں نے دیانتداری سے سوچا ہو کہ ہو نہ ہو میرے جتنے بھی پیشرو وزرائے اعلیٰ تختِ لاہور پر براجمان ہوئے وہ اقتدار کی خوشی سے اتنے نڈھال ہو گئے کہ اُنہیں پنجاب کے شہروں اور دیہات کو صاف کرنے کا ضروری حکم دینا یاد ہی نہ رہا اور محض اس کوتاہی سے پنجاب تین چوتھائی صدی سے صفائی (جو نصف ایمان ہے) سے محروم رہا۔ شاید میڈم وزیراعلیٰ کو آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر (جو اوّل درجے کا شاعر اور تیسرے درجے کا بادشاہ تھا) کا وہ شعر یاد آیا ہو کہ جس کے مفہوم کے مطابق کسی بھی شخص چاہے وہ کتنا صاحبِ فہم و ذکا ہو‘ سے عیش میں یادِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا کو فراموش کرنے کا گناہ سرزد ہو سکتا ہے۔ بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ مریم نواز صاحبہ نے اقتدار سنبھالتے ہی مکمل صفائی کروانے‘ کوڑا کرکٹ (اور وہ بھی کئی ہزاروں ٹن) اُٹھوانے اور پوٹھوہار سے لے کر سرائیکی وسیب تک کو چمکا دینے (پنجابی میں‘ لشکا دینے) کے اتنے واضح احکامات جاری کیے اور اُنہیں مزید وضاحت کے لیے دہرایا بھی۔ اہلِ پنجاب نے صفائی کے مہینہ کو دن گن گن کر گزارا مگر پھر منظر نامہ کیا تھا؟ جواب ہے: بالکل اُسی طرح جیسا کہ ایک مہینہ پہلے تھا۔ ناقابلِ تردید سچائی یہ ہے کہ ہر شہر‘ ہر قصبے اور ہر گائوں کا منہ چڑاتے ہوئے گندگی میں رّتی بھر فرق نہیں آیا اور نہ آنے کا کوئی امکان ہے۔ یقینا وزیراعلیٰ صاحبہ کو بھی مذکورہ بالا تلخ حقیقت کا پتا چل گیا ہو گا۔ اگر ایسا نہیں تو وہ سرکاری عملے کو اطلاع دیے بغیر‘ کسی بھی شہر کے کسی بھی پسماندہ علاقے (پوش علاقوں سے دور) کا دورہ کر کے خود یہ منظر دیکھ لیں‘ جو اُن کے لیے نہایت مایوس کن اور صدمے کا باعث ہو گا۔
کالم نگار کی ذاتی رائے چاہے کچھ بھی ہو‘ کالم لکھتے ہوئے صحافتی اخلاقیات کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ کالم نگار غیر جانبدار ہو اور قومی مفاد کو اپنی ذاتی پسند اور ناپسند پر ترجیح دے۔ میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ پنجاب کو ایک ماہ کے اندر (ایک سال میں بھی ہو جائے تو شکر ادا کرنا چاہئے) گندگی سے پاک صاف کرنے کے جذبے کی قدر کرتے ہوئے (قید کی عقوبت کمال ہمت و حوصلہ سے برداشت کرنے کے باوصف) بہادر وزیراعلیٰ کو یہ مخلصانہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ یہ ضرور سوچیں کہ یہ گندگی چار سُو کس طرح پھیلی؟ کیا یہ ہمارے کسی دشمن کی کارستانی ہے؟ کیا ہمارے کسی دشمن نے یہ دوسرے ملک سے اُٹھا کرہمارے شہروں اور دیہات پر آسمان سے کوڑا کرکٹ کی بارش کی ہے؟ ہرگز نہیں!! ہر محلہ میں اور ہر گلی میں پھیلی ہوئی گندگی اُس محلہ میں رہنے والوں کی قابلِ صد مذمت کارگزاری ہے۔ آپ صفائی کا عملہ تعداد میں دو گنا یا تِگنا کر دیں‘ صفائی کرنے والوں کی تنخواہ بڑھا دیں یا اُس کے کارکنوں کو خوش کرنے کے لیے چھٹیوں پر ان کی تنخواہ کاٹنا چھوڑ دیں‘ تب بھی گندگی میں کوئی قابلِ ذکر یا نظر آنے والا فرق نہیں پڑے گا۔ یہ پکی بات ہے‘ اسے لکھ کر رکھ لیں۔
پھر علاج کیا ہے؟ مساجدکے امام صاحبان کی خدمات حاصل کرتے ہوئے (یاد رکھیں کہ بنگلہ دیش میں امام صاحبان ہی نے نمازیوں کو برتھ کنٹرول کے فوائد بڑی کامیابی سے سمجھائے) ہر محلہ اور گائوں میں رہنے والوں کو صفائی کی عوامی تحریک کا حصہ دار بنائیں۔ ہر محلہ کو محلہ دار ہی صاف رکھ سکتے ہیں‘ بشرطیکہ وہ اُس کو شب و روز گندا کرنے اور کھلی جگہ میں گھر کا کوڑا کرکٹ پھینکنے کی روش ترک کر دیں۔ محلہ کمیٹی کو یہ قانونی اختیار دیں کہ وہ گندگی پھیلانے والوں کو (قابلِ وصول) جرمانہ کر سکے اور اگر وہ پھر بھی باز نہ آئیں تو صفائی کا عملہ ایسے سماج دشمنوں کا پھیلایا ہوا کوڑا کرکٹ واپس اُن کے گھروں میں پھینک دے۔ صد افسوس کہ ہم نے آج تک خودمختار مقامی حکومتیں بنانے کی طرف توجہ نہ دی (ماسوائے آمرانہ اقتدار کے 30 برسوں میں)۔ صوبائی حکومتیں احکامات تو جاری کر سکتی ہیں مگر وہ ان پر عمل نہیں کرا سکتیں۔ وہ گندی نالیوں کے وجود کو ختم کرانے اورگٹروں سے بہتے ہوئے بدبودار پانی کی روک تھام کرنے میں اُتنی ہی بے بس و لاچار ہیں جتنی کہ کراچی پولیس ڈاکوئوں کی بڑھتی ہوئی یلغار کے سامنے۔ جیسے سندھ حکومت آوارہ کتوں کی بھرمار اور ڈینگی مچھروں کی ہلاکت خیز پرواز کا مؤثر سدباب کرنے میں ناکام ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ چاروں صوبوں کی حکومتیں جلد از جلد ہر ضلع‘ ہر شہر اور ہر گائوں میں مقامی (جمہوری‘ ذمہ دار‘ جواب دہ اور شفاف) حکومتوں کے قیام کی طرف توجہ دیں۔ دوبارہ لکھتا ہوں کہ فوری توجہ دیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں۔ علاج ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے سلطانیٔ جمہور اور قوتِ اخوتِ عوام۔ بقول اقبال:
سبب کچھ اور ہے جسے تو خود سمجھتا ہے
ناممکن ہے کہ کالم نگار کی تحریرمذکورہ بالا سچائی کو منوا لے۔ اس لیے وہ وکلا‘ صحافیوں‘ اساتذہ‘ طلبہ و طالبات‘ پیش امام صاحبان‘ عوام دوست سیاسی اور سماجی رہنمائوں‘ کسانوں اور مزدوروں سے حمایت کی دست بستہ درخواست کرتا ہے۔ آئیے! ہم سب مل کر اپنے ملک کو آنے والے عذابوں سے بچائیں‘ اور وہ بھی جلد از جلد! ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔
پس تحریر: کالم لکھا جا چکا تھا کہ میرے کان میں سندھ کے انسپکٹر جنرل پولیس کی یہ فریاد سنائی دی کہ سندھ کی پولیس کیا کرے‘ وہ کراچی کے ہر شہری پر نظر نہیں رکھ سکتی۔ بالکل بجا فرمایا! کراچی سمیت ہر شہر کی حفاظت اور شہریوں کی نگرانی کرنے‘ حفاظتی تدابیر اختیار کرنے اور مسلح ڈاکوئوں کی مزاحمت کیلئے محض پولیس کافی نہیں بلکہ کراچی کے شہریوں کی محلہ کمیٹیاں اس کام میں پولیس کی معاونت کر سکتی ہیں۔ عوام کو سارا اختیار اور اقتدار دے دیں۔ ضلع‘ تحصیل اور یونین کونسل کی سطح پر۔ بدقسمتی سے پولیس ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ خود ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ان الفاظ پر بات ختم کرتا ہوں کہ Give power to the people۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں