ہمارا نظام انصاف

اُردو اخبارات کے پرانے قارئین یقینا جناب ارشاد احمد حقانی صاحب کے نام اور کام سے واقف ہوں گے۔ مجھے اس پر فخر ہے کہ میں اُن کے نیاز مندوں اور مداحوں میں شامل تھا۔ اُن کا بیٹا‘ الطاف گوہر صاحب کی بیٹی سے بیاہا ہوا ہے۔ حقانی صاحب جب بھی لندن تشریف لاتے تو الطاف گوہر کے پاس ٹھہرتے اور ان کا میزبان بکمالِ مہربانی ہمیشہ مجھے اپنے معزز مہمان سے ملنے کا موقع فراہم کرتا۔ حقانی صاحب بااُصول‘ روشن دماغ اور عوام دوست صحافیوں میں سرفہرست تھے۔ میں نے اُن کے لکھے ہوئے کئی کالم سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں‘ جنہیں ہر سال ایک بار ضرور پڑھتا ہوں۔ میں اس ذخیرہ کو کھنگال رہا تھا تو مجھے حقانی صاحب کا وہ کالم ملا جس میں انہوں نے سیّد فیروز شاہ گیلانی (جو میرے پیر ومرشد ہیں) کا خط شائع کیا۔ مناسب ہو گا کہ اس کا کچھ حصہ اپنے قارئین سے شیئر کروں اور خصوصاً وکلا برادری سے درخواست کروں گا کہ وہ بھی اس اہم موضوع پر اظہارِ خیال کریں تاکہ اس بات کو آگے بڑھایا جا سکے۔
''مجھے ایک پرانے کرم فرما سیّد فیروز شاہ گیلانی ایڈووکیٹ کا ایک تفصیلی فکر انگیز خط موصول ہوا جس میں انہوں نے امریکہ اور برطانیہ کے نظامِ انصاف و قانون کے حوالے سے اپنے بعض مشاہدات اور تجاویز پیش کی ہیں‘ جنہیں میں کالم میں اس اُمید کے ساتھ شائع کر رہا ہوں کہ موجودہ حکمران ان پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور ان کی روشنی میں ان کی اصلاحِ احوال کیلئے کچھ اقدامات کرنا ممکن ہو سکے گا۔ گیلانی صاحب رقمطراز ہیں: آپ نے ایک سے زیادہ بار اپنے کالموں میں پاکستانی جیلوں کی حالتِ زار اور وہاں قیدیوں کے بے پناہ مصائب پر بڑی درد مندی سے لکھا ہے اور وہاں قید کچھ لوگوں کے تاثرات کو بھی پیش کیا ہے۔ پاکستان کی تمام جیلوں میں اوسطاً دو تہائی سے زیادہ تعداد ان قیدیوں کی ہے جو سزا یافتہ نہیں ہیں۔ ان کے معاملات سالہا سال سے عدالتوں میں معرضِ التوا میں پڑے ہوئے ہیں۔ جیلوں میں گنجائش سے تین‘ چار گنا زیادہ تعداد میں قیدی جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی یہ حالت پوری قوم کیلئے باعثِ شرم ہے۔ میں اور میرے ساتھیوں نے تحریک عدل کے تحت کئی قیدیوں کو مفت قانونی امداد فراہم کی ہے۔ اکثر قیدی شدید غربت اور بے سرو سامانی کی وجہ سے اپنی ضمانت تک نہیں کرا سکتے۔ ایسا ایک شخص‘ جو ہماری مدد سے بری ہوا‘ نو سال تک جیل میں قید رہا حالانکہ وہ مقدمے کے فیصلے پر باعزت بری ہوا‘ لیکن اس کے باوجود اس کی زندگی کے نو قیمتی سال ضائع ہو گئے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ غریب قیدیوں کو اس لیے بھی عدالتوں تک نہیں لے جایا جاتا کہ وہ متعلقہ اہلکاروں کو رشوت نہیں دے سکتے۔ کیا اسلام‘ جو آئینی طور پر ہماری مملکت کا سرکاری مذہب ہے‘ ایسے شرمناک نظام کی اجازت دیتا ہے؟ ہمارے منتخب نمائندے جیلوں کے علاوہ دیگر مسائل پر ایسے قوانین اور طریقے وضع کرنے سے کیوں قاصر رہتے ہیں جن کے ذریعے غریبوں کو انصاف مل سکے اور ملک میں فلاحی معاشرے کا قیام ممکن ہو سکے؟ جیلوں میں قیدیوں کی بھرمار اس لیے ہے کہ عدالتی فیصلے تاخیر سے ہوتے ہیں۔ انگلستان میں مقدمات کے عدالتی فیصلے چار ماہ سے زیادہ عرصے میں ہوں تو اسے قومی ندامت کا معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں فوجداری مقدمات 97 فیصد کی حد تک مقامی مجسٹریٹ کورٹس میں طے ہوتے ہیں اور بالعموم چند ہفتوں میں طے پا جاتے ہیں۔ مجسٹریٹوں کی اکثریت رضاکار مجسٹریٹوں (Lay Magistrates) پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ لوگ عام طور پر قانون دان نہیں ہوتے۔ یہ مجسٹریٹ مقدمات کا فیصلہ اپنی عقل و فہم کے ساتھ ساتھ مقامی حالات سے واقفیت کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ عام طور پر دو مجسٹریٹ اور کاؤنٹی کلرک ساتھ بیٹھ کر مقدمات سنتے ہیں اور ایک دو پیشیوں میں فیصلہ ہو جاتا ہے۔ انگلستان میں رضاکار اور تنخواہ دار مجسٹریٹوں کا تقرر مجسٹریٹس کورٹ کمیٹی کرتی ہے‘ جو مقامی منتخب کونسلروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ ضروری ہوتا ہے کہ مجسٹریٹ بننے کا امیدوار اُس کاؤنٹی کی حدود کے پندرہ میل کے اندرکا رہائشی ہو‘ چونکہ وہاں مقامی عدالتیں عوام کی مرضی اور مدد سے تشکیل پاتی ہیں اس لیے عوام کو بھی ان پر بھرپور اعتماد ہوتا ہے؛ چنانچہ ہر دس ملزمان میں سے سات ملزم اپنا جرم تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس وقت انگلستان میں رضاکار مجسٹریٹوں کی تعداد 30 ہزار کے قریب ہے۔ وہاں ملک بھر میں 650 مجسٹریٹ عدالتیں ہیں۔ ان میں سے 450 عدالتیں دیہی علاقوں میں کام کر رہی ہیں تاکہ عوام کو ان کے گھر کے نزدیک انصاف مل سکے۔مجسٹریٹوں سے اوپر برطانیہ میں کراؤن کورٹس (ہمارے ہاں سیشن عدالت) ہر سال اوسطاً ایک لاکھ 25 ہزار مقدمات نمٹاتی ہیں۔ یہاں زیادہ سنگین مقدمات جیوری کے ذریعے طے ہوتے ہیں جن کاچند مہینوں میں فیصلہ ہو جاتا ہے۔
امریکہ میں اگر کسی ملزم کے خلاف 180 دنوں کے اندر مقدمے کا فیصلہ نہیں ہوتا تو وہ خود بخود بری تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں چھٹی آئینی ترمیم کے ذریعے تیز رفتار اور کھلے عام ٹرائل کو عوام کے بنیادی حقوق میں شامل کیا گیا تھا۔ میں نے کچھ عرصہ قبل امریکی شہر Pittsburgh میں متعدد فوجداری مقدمات کی کارروائی دیکھی۔ وہاں ملزم کو کسی کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا‘ وہ ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے وکیلوں اور عدالت کے سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ عدالت میں پولیس اہلکار ملزم کو 'سر‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ امریکہ میں پانچویں آئینی ترمیم کے ذریعے ہر ملزم کو یہ حق دیا گیا تھا کہ اس کیس کا فیصلہ بارہ غیرجانبدار شہری بطور جیوری کریں۔ حقائق پر جج جیوری کے فیصلے کا پابند ہوتا ہے۔ جیوری کے ذریعے فوجداری مقدمات بہت کم وقت میں مکمل ہو جاتے ہیں۔ اس طریقے سے بھی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کم ہو سکتی ہے۔ جیوری کے ذریعے عدلیہ میں کرپشن بھی ختم ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں ہر کوئی جمہوریت کی بات کرتا ہے لیکن کیا یہاں جمہوریت نے عوامی مسائل میں کمی کیلئے کوئی رول ادا کیا ہے؟ ہمارے ہاں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہاں پارلیمانی جمہوریت کا نظام ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت کی ماں‘ انگلستان میں‘ وہاں کی پارلیمنٹ کس طرح عوامی مسائل کے حل کیلئے کام کرتی ہے اور ممبرانِ پارلیمنٹ اپنے فرائض کس طرح ادا کرتے ہیں۔ ممبران کا 28 فیصد وقت پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کی میٹنگوں میں صرف ہوتا ہے۔ ان کا 24 فیصد وقت میٹنگوں کی تیاری کے سلسلے میں ریسرچ اور عوامی حلقوں سے معلومات اکٹھا کرنے میں لگتا ہے۔ ان کا 18 فیصد وقت عام ووٹر کے مسائل حل کرنے سے متعلق ہوتا ہے۔ ایک ممبر کا اوسطاً ایک فیصد وقت ماہر اداروں میں شرکت کرکے کام کرنے میں خرچ ہوتا ہے۔ اس کا نو فیصد وقت سفر اور پارلیمنٹ سے باہر میٹنگوں میں صرف ہوتا ہے۔ اس کا سات فیصد وقت سیاسی پارٹی کے اجلاسوں میں شرکت کرنے پر خرچ ہوتا ہے۔ تین فیصد وقت عوام سے صلاح و مشورے میں خرچ ہوتا ہے۔ کیا پاکستان میں ہمارے ممبران اوپر بیان کردہ کام کرتے نظر آتے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ البتہ ممبران کی مالی حالت بہتر سے بہتر ہوتی جاتی ہے۔ اس صورتحال کا علاج عوامی شعور میں اضافہ اور آئینی اصلاحات ہی میں مضمر ہے۔ اگر موجودہ سیاسی نظام اسی طرح چلتا رہا تو عوام جمہوریت ہی سے نااُمید ہو جائیں گے‘‘۔
میرا ارادہ ہے کہ اس کالم پر میں کئی کالم لکھوں میں پاکستان میں جز وقتی وکالت کرتا ہوں اس لیے میرا علم اور تجربہ بہت محدود ہے۔ میں اپنی وکلا برادری سے تعاون کا طلبگار ہوں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں