دور دیس کی خبریں …(5)

میں پچھلے سال موسمِ خزاں میں (معظم بھٹی اور اُن کی اہلیہ کی دعوت پر) شمالی اٹلی میں (میلان کے قریب) ایک کمال کے خوبصورت اور تاریخی شہر (غالباً یہ دونوں اسم ہائے صفات اٹلی کی ہر بستی کے بارے میں کہے جا سکتے ہیں) Mantuaگیا تو وہاں قدیم عمارات‘ قلعے و محلات‘ حویلیوں اورگرجا گھروں سے بڑھ کر جو عمارت میرے لیے بے حد حیرت کا موجب بنی وہ ایک تعلیمی ادارہ تھا‘ جس کا نام 'اقبال مسیح سکول‘ تھا۔ جب ایک بے گناہ مسیحی بچے (اقبال مسیح) کو جان سے مار ڈالا گیا تو سارے یورپ میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی (براہِ مہربانی ایک مسیحی بچے کے قتل پر سارے یورپ میں شدید غم و غصے کے اظہار کا موازنہ گزشتہ پانچ ماہ میں 35 ہزار سے زائد فلسطینی مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے قتلِ عام پر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی بے حسی‘ عدم دلچسپی اور بیگانگی سے کریں)۔ اس پر شمالی اٹلی کے کئی شہروں کے افراد نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ اس بچے کی یاد میں‘ اُس کے نام پر ایک سکول بنایا جائے۔ اس قتل کی واردات جہاں ہوئی‘ وہ شمالی اٹلی سے پانچ ہزار میل دور ہے۔ ماسوائے مذہب کے‘ ماتم کنندگان اور مقتول کا اور کوئی رشتہ نہیں تھا۔ نہ رنگ‘ نہ نسل‘ نہ قوم۔ اسی حوالے سے 25 مارچ کو اٹلی کے ہر بڑے اخبار سے لے کر برطانوی ٹائمز تک‘ ہر جگہ یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی کہ Piotella نامی قصبے میں اقبال مسیح سکول کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ سکول کے مسلم طلبہ (جو سکول کے کُل طلبہ و طالبات کا 40 فیصد ہیں) کو ماہِ رمضان کے اختتام پر عید الفطر کی خوشیوں میں شرکت کا موقع دینے کے لیے اس سکول کو دس اپریل کو ایک دن کیلئے بند رکھا جائے گا؛ تاہم فسطائی ذہن اور دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے لوگوں نے اس فیصلے کی بھرپور مخالفت کی۔ بدقسمتی سے اٹلی پر ان دنوں انہی جماعتوں کی حکومت ہے۔ ان کی ایک قائد خاتون Giorgia Meloni نے سکول کی بیرونی دیوار پر ایک بڑا بینر لگا دیا‘ جس کے الفاظ 1960ء کی دہائی میں اٹلی کے فسطائی آمر مسولینی کی روح کے لیے باعثِ طمانیت ثابت ہوئے ہوں گے‘ وہ یہ الفاظ تھے: ''یہ سکول اطالوی بچوں کا ہے‘ مسلمانوں کا بالکل نہیں‘ اسے ہرگز بند نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ مذکورہ قصبے کی کل آبادی 36 ہزار ہے‘ جس میں سے ایک چوتھائی لوگوں کا تعلق مصر‘ مراکش‘ بھارت اور پاکستان سے ہے۔ گھٹیا قسم کے نسل پرستانہ تیروں کی بارش کرنے والوں کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ اٹلی میں مقامی مذہبی رہنمائوں (Saints) کے دن منانے اور بچوں کو برفانی کھیلوں (Sking) میں حصہ لینے کا موقع دینے کے لیے سکولوں میں کئی تعطیلات کی جاتی ہیں۔ حکومتی مخالفت کے باوجود سکول کے تمام اساتذہ نے مل کر عید کی چھٹی منانے کے فیصلے کی پُرزور حمایت کی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ میلان کے سب سے بلند مرتبت پادری (جو آرچ بشت کہلاتا ہے) نے بھی عید کے روز سکول کو بند رکھنے کو ایک اچھا فیصلہ قراردیا۔
ان دنوں امریکہ اور سارے یورپ کو جو بخار چڑھا ہوا ہے‘ اُس کا نام 'اسلامو فوبیا‘ ہے۔ خوش قسمتی سے میں اور میرے بیوی بچے جس ملک (برطانیہ) میں 57 برس سے رہ رہے ہیں‘ وہاں مذہبی رواداری‘ بقائے باہمی‘ انسان دوستی اور کثیر الثقافت کلچر کا احترام اتنا زیادہ ہے کہ ہمیں آج تک ایک بار بھی کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ اس کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ میری بیوی جب ایک کالج میں علمِ معاشیات پڑھاتی تھیں تو وہ ہمیشہ قمیص‘ شلوار پہن کر اور دوپٹہ اوڑھ کر جاتی تھیں جو اُن کے طلبہ و طالبات کے دلوں میں عزت کے جذبے میں اضافے کا موجب بنا۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ انگریز اپنی نقالی کرنے والے بندروں کی ہر گز عزت نہیں کرتے۔ آپ عربوں کو دیکھیں‘ وہ آج بھی بڑے فخر سے نہ صرف اپنے ملکوں میں بلکہ امریکہ اور یورپ میں بھی اپنا روایتی لباس پہنتے اور سروں پر عمامہ باندھتے ہیں۔ تمام عرب ممالک میں سرکاری زبان عربی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے تمام اداروں میں ذریعۂ تعلیم عربی ہے۔ پاکستان کی صورتِ حال نہ صرف قابلِ رحم ہے بلکہ باعثِ صد تشویش بھی ہے‘ جہاں اشرافیہ اور امیر طبقے کے بچے انگریزی بولتے ہیں۔ متوسط طبقے (حتیٰ کہ نچلے متوسط طبقے ) کے گھرانوں کے بچے اپنی مادری زبان کے بجائے غلط سلط اُردو بولتے ہیں۔ یہاں سرکاری زبان انگریزی بلکہ انگریزی کی ایک دیسی مسخ شدہ شکل ہے۔ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والا معاملہ ہے۔
اٹلی کے ایک سکول کا قصہ آدھا کالم لے گیا۔ اب باقی خبریں مختصراً لکھی جائیں گی۔ یہ سطور لکھتے ہوئے میں اپنے کمرے میں محفوظ بیٹھا ہوں مگر کمرے سے باہر چھوٹے سے طوفان (گرج چمک کے بغیر‘ جو برطانیہ میں بارشوں کا طرۂ امتیاز ہے) نے برطانوی جزیرے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ تیز ہوا اور مسلسل بارش۔ یہاں مارچ اور اپریل کا مہینہ اسی آفت کا مقابلہ کرنے میں گزرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی زبان میں April Showers کو ایک مستقل مقام حاصل ہے۔ مقامی لوگ (جنہیں میں پیار سے Natives کہتا ہوں تو وہ بہت تلملاتے ہیں حالانکہ انگریز حملہ آوروں نے صدیوں تک امریکہ‘ افریقہ اور ہندوستان میں ہر جگہ مقامی آبادی کیلئے یہی توہین آمیز اصطلاح استعمال کی) اس موسم کا اپنی روایتی سخت کوشی اور نامساعد حالات میں کام آنے والی خشک حسِ مزاح جیسی خوبیوں سے مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بار بار یاد دلاتے ہیں کہ موسمِ بہار اب زیادہ دور نہیں رہا اور پھر موسم گرما کے مزے لوٹیں گے۔ آج سے 460 برس قبل‘ 26مارچ 1564ء کو برطانیہ کے شمال میں (سکاٹ لینڈ کی سرحد پر) بے حد خوبصورت جھیلوں کے علاقے (لیک ڈسٹرکٹ) میں اتنا تند وتیز طوفان آیا کہ کئی درخت جڑ سے اُکھڑ گئے۔ ایک چرواہا اپنی گم شدہ بھیڑوں کی تلاش میں سرگرداں تھا کہ اُسے اُکھڑے ہوئے درخت کی جڑوں میں سیاہ رنگ کا ایک چمکدار مواد نظر آیا۔ چرواہے نے اسے اپنی بھیڑوں پر نمبر لگانے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ دوسرے لوگوں کو خبر ہوئی تو اُنہوں نے پہلے اسے Lead سمجھا‘ مزید چھان بین ہوئی تو پتا چلا کہ یہ خالص گریفائٹ ہے جو پنسل بنانے میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس سے کروڑوں‘ اربوں پنسلیں بنائی گئیں اور ایک پوری انڈسٹری معرضِ وجود میں آگئی۔ یقین جانیے کہ 1600ء تک اس کی قیمت سونے سے بھی زیادہ تھی اور اس کی چوری اتنی بڑھ گئی تھی کہ 1752ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے اسے چرانے کو سنگین جرم قرار دیا۔ بلیک مارکیٹ کی اصطلاح کا مآخذ بھی یہی گریفایٹ ہے۔
شمالی اور جنوبی امریکہ کے سرحدی ملک پاناما میں دو بڑے سمندروں کو ملانے والی نہر (Panama Canal) کو وافر پانی دینے والی جھیلوں میں پانی کم ہو جانے سے اس نہر میں بحری جہازوں کی آمد ورفت اتنی بری طرح متاثر ہوئی ہے کہ اب جہازوں کو قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ عالمی تجارت کا چھ فیصد اس نہر سے گزرتا ہے۔ یہ نہر انسانی تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ جہازوں کو گزارنے کیلئے Locks میں پانی کی سطح کو 85 فٹ بلند یا کم کیا جاتا ہے۔ جہاز ٹکڑیوں میں گزرتے ہیں اور اُن کی ہر کراسنگ پر 44 ملین گیلن تازہ پانی کھارے سمندر میں جا گرتا ہے۔ امریکہ کے جنوب میں سب سے بڑا دریا Mississippi بھی پانی کی کمی کا شکار ہو کر باعثِ تشویش بن گیا ہے۔ امریکی غلّے کا 60 فیصد اسی دریا میں چلنے والے جہازوں کے ذریعے برآمد کیا جاتا ہے۔ یہ سطور لکھ کر میرا دھیان پاکستان کے تین بچے کھچے دریائوں (سندھ‘ چناب اور جہلم) کی طرف چلا گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم تیزی سے ایک بڑے آبی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر سیاسی رہنمائوں کو نہ اس کی فکر ہے نہ پروا۔ کیا سول سوسائٹی کو بھی نہیں؟ کالم نگار بالخصوص سول سوسائٹی کے رہنمائوں سے مخاطب ہے کہ پہلے وہ خود جاگیں اور پھر اہلِ وطن کو جگائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں