دور دیس کی خبریں …(4)

(1) یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ جولین اسانج (Julian Assange) کے نام اور کام سے واقف نہ ہوں۔ آپ یقینا جانتے ہوں گے اس بہادر‘ انسان دوست اور امن پسند آسٹریلین شخص نے امریکی حکومت‘ وزارتِ خارجہ اور امریکی سی آئی اے کے لاکھوں خفیہ ای میلز اتنی خاموشی سے حاصل کر لیے کہ امریکی حکام کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور پھر اس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وہ لاکھوں خفیہ برقی پیغامات دنیا بھر کے بڑے اخباروں کو ارسال کر دیے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ یہ انکشافات کتنے بڑے زلزلے کا موجب بنے۔ امریکہ کی سکیورٹی‘ امورِ خارجہ کی حکمت عملی اور ٹاپ سیکرٹ معاملات میں پرلے درجے کی راز داری خطرے میں پڑ گئی۔ وہ دن اور آج کا دن‘ 13 برس گزر گئے ہیں‘ اس نے ہر لمحے امریکی حکومت کی اس عدالتی کارروائی کی مزاحمت کی جو اب اپنے خاتمے کے قریب پہنچنے والی ہے۔ افشا کر دی جانے والی ای میلز (جو لاکھوں میں تھیں) وکی لیکس کہلاتی ہیں۔ ایک برطانوی عدالت فروری میں امریکی حکومت کی Extradition (ملک بدری) کی درخواست کی سماعت کر چکی اور مستقبل قریب میں عدالتی فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ اگر جولین ہار گیا (جس کا بدقسمتی سے زیادہ امکان ہے) تو وہ یورپ کی انسانی حقوق کی عدالت میں اپیل دائر کرنے کا حق رکھتا ہے۔ اب جولین کی عمر 52 سال ہے۔ اُسے جاسوسی اور کمپیوٹر ہیکنگ کے قانون کے تحت 18 الزامات کا سامنا ہے۔ گرفتاری سے بچنے کیلئے جولین جنوبی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک ایکواڈور کے سفارتخانے کی عمارت میں سات سال تک چھپا رہا۔ وہاں سے نکلا تو گرفتار ہو کر جیل پہنچا دیا گیا۔ جہاں وہ پانچ سال سے قید ہے۔ جولین کو دنیا بھر کے لاکھوں انسان دوستوں اور امن پسندوں کی پُرجوش حمایت حاصل ہے۔ اس کی بیوی باآوازِ بلند یہ فریاد کرتی رہتی ہے کہ اگر اس کے دو بچوں کا باپ جبراً امریکہ کے حوالہ کیا گیا تو وہ ہرگز زندہ نہیں بچے گا۔
(2) تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ 1815ء میں واٹر لُو کے میدان میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن شکست کھانے سے آٹھ سال پہلے‘ شیروں یا کسی خطرناک وحشی جانور نے نہیں بلکہ معصوم اور بے ضرر خرگوشوں کے جم غفیر نے شاہی محل پر ہلّہ بول کر فرانس کے سکہ بند جرنیل کو پسپائی پر مجبور کر دیا تھا۔ نپولین کی جان مرنے کے بعد بھی خرگوشوں سے نہیں چھوٹی۔ پیرس کے دل میں سنہرے گنبد والی ایک شاندار عمارت نپولین کی آخری آرام گاہ ہے۔ مارچ کے آغاز میں سینکڑوں خرگوشوں نے نپولین کے مزار کے اردگرد گھاس کے قطعات پر دھاوا بول دیا۔ بن بلائے مہمانوں کی تعداد تین سو سے زیادہ تھی۔ انہوں نے لان میں بل کھود کھود کر اندازاً ساڑھے تین لاکھ یورو کا نقصان پہنچایا۔ یہ تعداد نپولین کے محل پر حملہ آور ہونے والے خرگوشوں سے دس گنا کم تھی‘ پھر بھی وہ کسی آفت سے کم نہ تھے۔ پیرس کی پولیس ہر روز 25 خرگوشوں کو بلا اجازت داخلے کے جرم میں گرفتار کر کے انہیں بحفاظت شہر سے 30 میل باہر جنگل میں چھوڑ آتی ہے۔ ایک طرف فرانس ہے اور دوسری طرف مملکتِ خداداد‘ جہاں آپ نے یہ خبر ضرور پڑھی ہو گی کہ وسط مارچ میں اوکاڑہ میں ایک مسکین ریستوران مالک کو پولیس نے اس جرم میں کہ اس نے سحری کے اوقات کے بعد اپنا چائے خانہ کھلا رکھا‘ گرفتار کیا تھا۔ بعد ازاں مبینہ طور پر پولیس تشدد سے اس کی ہلاکت ہو گئی۔ بقول فیض:
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
مقتول کی روح ضرور سوچتی ہو گی کہ کتنا اچھا ہوتا کہ وہ اوکاڑہ میں ایک غریب‘ بے بس اور لاچار انسان ہونے کے بجائے پیرس کا خرگوش ہوتا جس کے ناز نخرے فرانس کی حکومت اُٹھاتی ہے۔
(3) مرزا غالب اپنی پریشانیوں سے تنگ آکر گھر سے بھاگے تو بیاباں میں پہنچے‘ جہاں خبر ملی کہ اُن کے گھر میں (اُن کے جانے کے بعد) بہار آ گئی ہے۔ اب وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ بیاباں میں رہنا مشکل تھا اور گھر واپس جانے کا کوئی راستہ نہیں ملتا تھا۔ شکر ہے کہ کالم نگار اپنے گھر میں ہے اور ان دنوں برطانوی بہار سے لطف اندوز ہو رہا ہے مگر اصل رونق 18 ہزار میل دور جاپان میں آئی ہوئی ہے۔ ماہِ مارچ میں جاپان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک‘ سڑکوں کے دونوں طرف چیری کے سرخ پھولوں کے درختوں کی سینکڑوں میل لمبی قطاریں وہ کمال کا نظارہ پیش کرتی ہیں کہ صرف دیکھا جا سکتا ہے‘ بیان نہیں کیا جا سکتا (جیسے پندرہ برس پہلے میں نے اور میری رفیقہ حیات نے دیکھا تھا)۔ یہ نظارہ دیکھیں تو ذہن میں ایک بڑے روسی ادیب (چیخوف) کی لکھی ہوئی کمال کی کہانی The Cherry Orchard کے اوارق کھلنے اور پھڑپھڑانا شروع ہو جاتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو کہ میں وہ مبارک دن دیکھوں جب ہماری عبادتگاہوں سے وہ عوامی تحریک شروع ہو جائے جو نہ صرف گلیاں‘ بازار صاف کرے بلکہ پھول اُگائے اور درخت بھی۔ خصوصاً سرخ پھولوں والے چیری کے درخت۔
(4) اب ہم پاناما نہر سے بھی چند ہزار میل دور جنوبی امریکہ کے ایک جزیرے Tonga کی طرف چلتے ہیں۔ جہاں امسال 15 جنوری کو ایک آتش فشاں پہاڑ پھٹا تھا۔ دو ماہ کے بعد امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ اس آتش فشاں پہاڑ کے پھٹنے سے جو دھماکا ہوا‘ وہ ہیروشیما پر گرائے جا نے والے ایٹم بم سے دو گنا یا دس گنا نہیں بلکہ سو گنا زیادہ شدید تھا۔ اس نے مضافاتی جزیروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ سمندروں میں ہزاروں میل کے دائرے میں تباہ کن سونامی لہریں پیدا کیں۔ سینکڑوں میل دور جزیروں کو بھی جلتی ہوئی راکھ سے ڈھانپ دیا۔ جو Shock Wave پیدا کی‘ وہ سارے کرۂ ارض میں محسوس کی گئی۔ لاوے کا فوارہ 55 کلومیٹر کی بلندی تک گیا جہاں زمین کا ہوائی خول (Stratosphere) ختم ہوتا اور خلائی سرحد شروع ہوتی ہے۔ یقینا اسے قیامتِ صغریٰ کہا جا سکتا ہے۔ میرا دھیان پھر وطن عزیز کی طرف گیا۔ بھارتی پنجاب کے شمال میں ہماچل پردیش‘ (جو کالم نگار کی جنم بھومی ہے) کی ہمالیہ پہاڑوں میں گھری ہوئی خوبصورت ریاست میں کئی آتش فشاں پہاڑ ہیں جو ان دنوں خوش قسمتی سے لمبی تان کر سوئے پڑے ہیں۔ خدا کرے کہ وہ کبھی نہ جاگیں۔ پاکستان کے شمالی علاقے (بشمول اسلام آباد) بدقسمتی سے زلزلوں کی زد میں ہیں‘ جو بڑے پیمانے پر جانی نقصان کر چکے ہیں۔ وجہ؟ ترکی سے زیر زمین جو فالٹ لائن ایران اور افغانستان سے ہوتی ہوئی چین اور جاپان کی طرف جاتی ہے‘ وہ پاکستان کے شمالی علاقوں سے گزرتی ہے۔ ان دنوں ہمارے اُوپر جو بڑے بڑے زلزلے نازل ہو رہے ہیں‘ (آخری زلزلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کا تہلکہ خیز خط تھا) اللہ تعالیٰ ہمیں جغرافیائی زلزلوں سے محفوظ اور اپنے حفظ و امان میں رکھے‘ ہمارے سیاسی زلزلے بھی کچھ کم نہیں۔
(5) میں نے پچھلے برس کہیں پڑھا کہ برطانیہ میں ہر سال مشہور عوامی شاعر Robert Burns کا دن 25 جنوری کو منایا جاتا ہے۔ یہ کمال کا شاعر 25 جنوری 1759ء کو ایک طوفانی رات میں سکاٹ لینڈ کے ایک پہاڑی مقام پر پیدا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ جنوری آئے گا تو Burns پر کالم لکھوں گا۔ (شیلے اور Byron کی طرح Burns بھی میرا اتنا ہی دل پسند شاعر ہے جتنا Wordsworth) جنوری آیا اور گزر گیا اور بوڑھے کالم نگار کو اب Burns یاد آیا۔ اگلے برس یہ کوتاہی نہ ہوگی۔ چند برس پہلے روس نے 25 جنوری کو Burns کے یادگاری ٹکٹ جاری کیے تو برطانیہ کے محکمہ ڈاک کے افسرانِ بالا کے منہ شرم سے سرخ ہو گئے۔ کتنا اچھا ہو کہ ہماری حکومت ہر سال حضرت داتا گنج بخش‘ بابا بلھے شاہ‘ بابا فرید گنج شکر‘ سلطان باہو‘ خواجہ غلام فرید‘ سندھ کی عظیم روحانی شخصیات اور خوشحال خان خٹک اور گل خان نصیر کے اعزاز میں یادگاری ٹکٹ جاری کرے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں