دُور دیس کی خبریں …(3)

آج کا کالم ایک ایسے رُسوائے زمانہ اور راندۂ درگاہ شخص کے ذکر سے شروع ہو گا جس کے بارے میں سالہا سال برطانیہ اور یورپ کے اخباروں کے صفحہ اوّل پر بے حد سنسنی خیزخبریں شائع ہوتی رہیں۔ 16 مارچ کے روزنامہ ٹائمز (اسے امریکہ میں شائع ہونے والے ہفت روزہ Times سے ہر گز خلط ملط نہ کریں) کے صفحہ نمبر 31 (کل صفحات 72 ہوتے ہیں مگر ہر صفحہ پاکستانی اخبارات سے سائز میں نصف ہوتا ہے) پر نمایاں طور پر اس کے بارے میں (آدھے صفحے پر پھیلی ہوئی) تفصیلی خبر شائع ہوئی۔ نام ہے سوبھ راج (Sobhraj) مگر لقب ہے سانپ (Serpent)۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ کئی بار سانپ کی پھرتی اور تنگ جگہوں سے بھاگ نکلنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کر چکا ہے۔ اُس پر کئی دستاویزی فلمیں بن چکی ہیں۔ تین برس پہلے بی بی سی نے اُس پر بہت عمدہ دستاویزی فلم بنائی۔ اب ایک برطانوی چینل نے سوبھ راج کو پیرس (جہاں وہ خاموشی سے گمنامی کی زندگی گزار رہا ہے) سے بلا کر (یقینا بہت معقول معاوضہ دے کر) اس کی لرزہ خیز وارداتوں کو فلمانے کا عمل شروع کیا ہے۔ فلم سوبھ راج‘ جو درحقیقت ایک بھارتی شہری ہے‘ کی برطانوی پولیس کے سراغ رساں افسر (Detective) سے شطرنج کی بازی لگانے سے شروع ہوتی ہے۔ اس افسر نے (جو عمر بھر تفتیش کا تجربہ رکھتا ہے)‘ سوبھ راج کا جو انٹرویو ریکارڈ کیا‘ وہ 50 گھنٹوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اب سوبھ راج کی عمر 79 برس ہے اور وہ دو سال قبل نیپال کی ایک جیل سے دو امریکی سیاحوں کو قتل کرنے کے جرم میں 20 سال قید کی سزا بھگت کر رہا ہوا ہے۔ آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر یہ بالکل سچ ہے کہ یہ شخص اس سے پہلے بھی بھارت کی ایک جیل میں ایک غیر ملکی سیاح کو قتل کرنے کے جرم میں 20 سال کی قید کاٹ چکا تھا۔ اس کا مطب ہے کہ اس کی نصف سے زائد زندگی جیل میں گزری اور وہ بھی پھانسی کی سزا پانے والوں کی کوٹھڑی میں۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہ درندہ صفت شخص(اور یقینا ذہنی مریض) اندازاً (کم از کم) 30 افراد (تمام امریکی یا کینیڈین سیاح تھے) کو لوٹنے کے لیے بے ہوش کر کے قتل کر چکا ہے۔
1979ء میں سوبھ راج کے تعاون سے اُس کے لرزہ خیز کارناموں پر ایک کتاب لکھی گئی اور اس کو 20 ہزار امریکی ڈالر کا معاوضہ دیا گیا تو اس نے دس افراد کے قتل کا اعتراف کر لیا۔ کتاب چھپ گئی اور ''سانپ‘‘ نے 20 ہزار ڈالر ہضم کر لیے تو وہ اپنے اعترافی بیان سے صاف مُکر گیا۔ دہلی پولیس نے سوبھ راج کو گرفتار کرنے کے بعد اُس کے گھر کی تلاشی لی تو اُسے وہاں سے پانچ امریکی سیاحوں کے پاسپورٹ‘ کپڑے اور زیورات ملے۔ برطانوی پولیس کے ماہرینِ تفتیش نے سوبھ راج کے سامنے نئی شہادتیں رکھیں جو اُسے اس سے زیادہ قتل کی وارداتوں میں ملوث کرتی تھیں مگر ''سانپ‘‘ نے پروں پر پانی نہ پڑنے دیا اور بالکل قابو نہ آیا۔ وہ مصنوعی شرافت اور خوش اخلاقی کی اداکاری کرنے کا ماہر ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور کئی زبانوں پر عبور رکھتا ہے۔ امریکہ سے بھارت جانے والے Hippies (جو بھارت کے نقلی گورو صاحبان کے آشرم میں بھجن گانے اور منشیات کو دل بھر کر استعمال کرنے وہاں جوق در جوق جاتے تھے) بڑی آسانی سے اس شخص کے دام میں گرفتار ہو جاتے تھے اور اپنی جمع پونجی کے ساتھ اپنی جان بھی گنوا بیٹھتے تھے۔
میں نے ابھی نئی دستاویزی فلم نہیں دیکھی لیکن روزنامہ ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق‘ اس فلم میں جس شخص پر (شہادتوں کی بنیاد پر) سب سے زیادہ شک و شبہ کیا جا سکتا ہے (یعنی کہ Prime Suspect) تو وہ سوبھ راج (عرف سانپ ) ہی ہے مگر یہ عیار‘ مکار‘ پرلے درجہ کا فریبی اور سیریل کِلر لندن پولیس کے سامنے اپنی بے گناہی پر اصرار کرتے ہوئے واپس پیرس چلا گیا۔ نہ پیرس سے لندن آنے والی ٹرین میں اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافروں کو اور نہ پیرس میں اس کے پڑوسیوں کے وہم و گمان میں ہوگا کہ وہ کس قماش کا شخص ہے۔ یہ ہوتا ہے چہرے کو نقاب میں چھپانے اور ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لینے کا کمال!
یہ سطور لکھ کر مجھے قصور میں رہنے والی بے قصور زینب کا ایک ایسے شخص کے ہاتھوں قتل اور زیادتی کا خیال آیا جو بچوں کو دینی تعلیم دیتا تھا اور اہلِ محلہ اُسے ایک اعلیٰ اخلاق کا مالک اور نیک شخص سمجھتے تھے۔ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ اس دلخراش واقعہ کے بعد بھی پاکستان میں والدین اپنے بچوں کی اتنی حفاظت نہیں کرتے جو کرنا اُن کا فرض اوّلین ہے۔ چھوٹے بچوں کو آج بھی سودا سلف خریدنے تنہا بازار بھیجا جاتا ہے اور وہ بھی شام کے اوقات میں۔ اسی طرح اگر (قانون شکنی کرتے ہوئے) کم عمر ملازمین کو گھر میں رکھا جائے تو براہِ مہربانی اُن کا اپنے بچوں کی طرح خیال رکھیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ دُکھ والی بات یہ ہے کہ اَن گنت گھروں میں بچوں سے ملازموں کا کام لیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب میں کراچی میں دو بچے اپنی سنگدل نانی‘ خالہ اور ماموں کے ظالمانہ سلوک سے تنگ آ کر گھر سے بھاگ گئے۔ اس سے پہلے کہ وہ کسی حادثہ یا سانحہ کا شکار ہوتے‘ پکڑے گئے اور بعد ازاں عدالت نے انہیں دوسری خالہ کے گھر پہنچا دیا۔ ان بدنصیب بچوں کے والدین (طلاق کے بعد) اپنا نیا گھر غیر ممالک میں بسا چکے اور اپنے بچوں کو لاوارث چھوڑ گئے تھے۔
(2) برطانوی نظام کو دُوسرے ممالک پر شفافیت‘ احتساب اور سچائی کے بول بالا کے لحاظ سے برتری حاصل ہے۔ ماہِ مارچ میں ایک سرکاری انکوائری کے دوران ایک برطانوی سپاہی نے یہ سنسنی خیز بیان دیا کہ افغانستان پر برطانوی جارحانہ حملے کے دوران (2017ء میں) اُسے حکم دیا گیا کہ وہ ایک مُردہ افغان کے پاس جا کر رائفل اس طریقے سے رکھ کر اُس کی تصویر اُتارے جس سے یہ لگتا ہو کہ مقتول افغان غیر مسلح نہیں تھا بلکہ وہ برطانوی فوج سے لڑتا اور آتشیں ہتھیار استعمال کرتا ہوا مارا گیا۔
(3) حال میں لندن میں جس شخص نے دو راہگیروں پر (جو اُس کے لیے بالکل اجنبی تھے) تیزاب پھینکا‘ اس کا نام عبدل ایزدی تھا۔ وہ پناہ گزینوں کے لیے حکومت کی طرف سے دیے جانے والے معقول سرکاری وظیفے کے علاوہ ایک گرجا گھر سے 25 پائونڈ فی ہفتہ کی اضافی مالی امداد بھی لیتا تھا۔ گرجا گھر والے اسے بہت شریف اور بلند کردار کا حامل شخص سمجھتے تھے۔ مقامی گرجا گھر میں عبادت کرنے والوں نے اس ''غیر ملکی پناہ گزین‘‘ کے حق میں بڑا زور دار خط لکھ کر اُسے سیاسی پناہ دلوائی تھی۔ جرمنی اور فرانس میں بھی یہ ڈرامہ کئی برسوں سے (جُزوی کامیابی کے ساتھ) جاری و ساری ہے۔ آپ جب یہ سطور پڑھیں گے تو آپ کے دل میں صریحاً جھوٹ بول کر جعلی اور نقلی سیاسی پناہ گزینوں کے لیے رحم یا غصہ اور نفرت کا جذبہ پیدا ہو گا۔ مجھے گزری تین دہائیوں سے ان کی بڑی تعداد سے (بطور وکیل) واسطہ پڑا ہے۔ سیاسی پناہ کے طالب اگر افغان ہوں تو طالبان کے امریکہ سے بھی بڑے دشمن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پاکستانی ہوں تو وہ مسلکی دہشت گردوں کی ہِٹ لسٹ پر سرفہرست ہونے کا‘ تبدیلیٔ مذہب کا‘ یہاں تک کہ ہم جنس پرست ہونے کا دعویٰ کر کے سیاسی پناہ کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ان جھوٹے دعویداروں کی ذہانت قابلِ داد ہے کہ وہ کتنی عمدہ اداکاری کر کے ہوم آفس کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں اور تقریباً نصف کامیابی حاصل کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں