قوم یا ہجوم؟

عوام کے منتخب نمائندے قومی اسمبلی میں جو گفتگو کرتے ہیں‘ اس سے پورے معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے‘ کیونکہ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اسی طرح اشرافیہ کی گفتگو سے بھی معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ طبقات جیسی مرضی گفتگو کریں‘ اسے برا نہیں سمجھا جاتا۔ یہاں تک کہ گالیوں سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ گالیوں میں بھی پاکیزہ رشتوں کو رگیدا جاتا ہے۔ اب تو سوشل میڈیا پر بھی گالیوں کا استعمال عام بات بن چکی ہے اور یہ دیکھ کر مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں دوسروں کو ڈرانے کے لیے بدزبانی کا چلن رائج ہے۔ جو جتنا بدزبان ہے‘ وہ اب اتنا ہی طاقتور ہے۔ مجھے تو اس وقت شدید حیرانی ہوتی ہے جب اہم عہدوں کے لیے اُن مرد و خواتین کا انتخاب کیا جاتا ہے جو غصے کے تیز ہوں‘ جو اختلافِ رائے رکھنے والوں کو بولنے ہی نہ دیں۔ بات بات پر لڑ پڑیں۔ کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ دیں‘ حتیٰ کہ گالی دینے بھی اجتناب نہ کریں۔ آج کل ایسے لوگوں کی چاندی ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے موجودہ دور میں گالی دینا بھی شاید ایک قابلیت بن چکی ہے۔ ایوانوں میں جیسے الزامات ایک دوسرے پر لگائے جاتے ہیں‘ وہ مجموعی معاشرتی رویے کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب سے اختلافِ رائے کو دشمنی کا رنگ دے دیا گیا ہے اس کے بعد کسی سے اختلافِ رائے کرنا بھی بہت مشکل ہو گیا ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر حکومت کی غلط پالیسیوں کے خلاف بھی کچھ پوسٹ کریں‘ آپ پر غداری کا الزام لگ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ کسی بڑے عہدے پر بیٹھے شخص کے مالیاتی معاملات پر کوئی سوال کریں تو آپ کو حوالات کی سیر کرنا پڑ سکتی ہے۔ اس سب کے ذمہ دار صرف سیاستدان نہیں ہیں بلکہ ہم سب بھی ہیں۔ اور سب سے زیادہ ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے جو جمہوریت کو تسلسل سے چلنے نہیں دیتے۔ بار بار وزیراعظم کی تبدیلی اور چلتی حکومت کو گھر بھیج دینے سے نظام میں بگاڑ آ گیا ہے‘ جب تک یہ نظام ٹھیک نہیں ہوگا‘ کوئی بھی منصوبہ یا حکمتِ عملی کامیاب نہیں ہو پائے گی۔
بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ غصے‘ نفرت اور انتہا پسندی کا شکار ہو رہا ہے۔ مہنگائی‘ معاشی بدحالی‘ بھاری بھرکم یوٹیلیٹی بل‘ بہت سی چیزیں مل کر قوم کے عمومی رویوں کو بدل رہی ہیں۔ تقریباً ساری قوم ہی چڑچڑے پن‘ اکتاہٹ اور ہیجان کا شکار ہو چکی ہے۔ پرائم ٹائم شوز میں شریک لوگ سیاسی مباحثوں پر لڑ پڑتے ہیں‘ بات بات پر مار پیٹ پر اُتر آتے ہیں۔ زبان سے نشتر چلانے کے بعد نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ اب تو پارلیمان ہو یا کوئی عام شاہراہ‘ لوگ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتے‘ فوراً سے پیشتر ایک دوسرے سے اُلجھ پڑتے ہیں۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا جائیں تو گاڑیوں میں سوار افراد پہلے ایک دوسرے کی خیریت دریافت کریں‘ بعد میں نقصان کا تخمینہ لگائیں۔ مگر یہاں گریبان پر ہاتھ پہلے ہوتا ہے اور بات بعد میں کی جاتی ہے۔ اب تو سیاسی پیشرفت پر کھل کر بات کرنے کی بھی آزادی میسر نہیں رہی۔ اس کا عملی نمونہ ہم نے اسلام آباد میں اُس وقت دیکھا جب بزرگ سیاستدان رؤف حسن پر حملہ آوروں نے بلیڈ سے حملہ کیا اور ان کو زخمی کردیا۔ تاحال نامعلوم افراد پکڑے نہیں گئے۔ دوسری جانب اگر کوئی حکومت پر تھوڑی سی بھی تنقید کر دے تو اس کو تو سات پردوں سے بھی برآمد کر لیا جاتا ہے۔ قانون سب کیلئے برابر ہونا چاہیے‘ لیکن ایسا ہے نہیں۔ امیر کیلئے قانون و انصاف کے پیمانے الگ ہیں اور غریب کیلئے الگ۔ کتنے ہی غریب سائل سالہا سال سے انصاف کے حصول کیلئے دہائی دے رہے ہیں لیکن ان کو انصاف نہیں مل رہا۔
عید سے چند روز قبل سندھ کے ضلع سانگھڑ میں ایک بااثر وڈیرے نے اپنے کھیت میں داخل ہونے والے ایک اونٹ کی ٹانگ کاٹ دی۔ یہ اتنا دردناک واقعہ ہے کہ بیان سے باہر ہے لیکن ان سفاک لوگوں کو کوئی ترس نہ آیا۔ اگر حکومت میں بیٹھے لوگ ایسے جرائم کی پردہ پوشی کریں گے اور مجرمان بے قصور ٹھہرائے جائیں گے‘ مظلوم افراد پر صلح صفائی کیلئے دباؤ ڈالا جائے گا تو اس سے ملک میں انصاف کا بول بالا نہیں ہو سکتا۔ اونٹ کا مالک تو دباؤ میں آ کر صلح کر سکتا ہے لیکن بے زبان اونٹ تو صلح نہیں کر سکتا۔ میں اکثر یہ کہتی ہوں کہ ایسے ہولناک جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف ریاست کو خود مقدمہ لڑنا چاہیے۔ ریاست سے زیادہ طاقتور تو کوئی نہیں۔ ہمارا دین ہمیں جانوروں پر رحم کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم پر اسی لیے عذاب نازل ہوا تھا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات سے سرکشی کرتے ہوئے معجزانہ اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی تھیں۔ اس لیے جانوروں پر ظلم کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ قدرت جب اپنی کرنے پر آتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ زمینی عدالتوں سے تو شاید یہ بااثر افراد بچ نکلیں لیکن اللہ کی پکڑ سے کون بچ سکتا ہے۔
جانور تو جانور‘ اب ہمارے ملک میں انسان بھی محفوظ نہیں۔ جب جس کا دل کرتا ہے کسی پر بھی توہینِ مذہب کا الزام لگا دیتا ہے۔ چند ماہ قبل لاہور کے اچھرا بازار میں ایک لڑکی نے عربی خطاطی والی ایک شرٹ پہن رکھی تھی‘ لوگوں نے اس پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا۔ اس کو ہراساں کیا گیا‘ یہاں تک کہ ہجوم کی طرف سے اس کی جان لینے کی کوشش کی گئی لیکن کچھ دکانداروں کی سمجھداری اور پولیس کی بروقت کارروائی سے اس کی جان بچ گئی۔ بعد ازاں اس لڑکی نے اس 'جرم‘ کی معافی بھی مانگی جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ اب اس کی ساری زندگی خوف میں گزرے گی۔ چند برس قبل خیبرپختونخوا میں نوجوان طالبعلم مشعال خان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ لیکن وہ اتنا خوش نصیب نہیں تھا کہ کوئی اس کی جان بچانے آتا‘ اسی لیے اس کو بیدردی سے قتل کردیا گیا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری کو توہینِ مذہب کا الزام لگا کر سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ اب چند روز قبل سوات میں ایک سیاح کو تھانے سے نکال کر توہینِ مذہب کے الزام میں قتل کر دیا گیا۔ بات صرف قتل تک نہیں رکی‘ اس کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے بعد جلا دیا گیا۔ تھانے کو بھی آگ لگا دی گئی۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم قوم نہیں بلکہ ایک ہجوم ہیں جس کے ہاتھ میں لاٹھیاں‘ بندوقیں اور آگ ہے‘ اور سامنے آنے والے ہر فرد کو یہ ہجوم نگل لے گا۔ نگلنے کے بعد اس کا قصور پوچھا جائے گا اور قصوروار نہ ہونے پر بھی کوئی نادم نہیں ہو گا۔
قوم کو دہشت گردی اور انتہا پسندی میں فرق سمجھنا ہو گا۔ ہماری قوم دہشت گردی کا مقابلہ کر چکی ہے‘ اب بھی کر رہی ہے لیکن انتہا پسندی کے آگے ہم ہار چکے ہیں۔ جب تک ملک میں جمہوریت مستحکم نہیں ہو گی‘ ملک میں قانون کا مکمل نفاذ نہیں ہو گا‘ ایسے سانحات کا تدارک ممکن نہیں۔ جب تک ملک میں کرپشن کا چلن عام ہے‘ حالات ایسے ہی رہیں گے۔ ہجوم کو معلوم ہے کہ ان کو کوئی پکڑ نہیں سکے گا اور اگر کسی نے پکڑ لیا تو وہ کچھ دے دلا کر بہ آسانی باہر آ جائیں گے۔ ہم پر حکمرانی کے تجربے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک نظام سے کرپشن نکال نہیں دی جاتی۔ ملک میں ایک بے ضرر جانور کی ٹانگ کاٹ دی گئی‘ ایک ایسے انسان کو زندہ جلا دیا گیا جس پر کوئی جرم ثابت بھی نہیں ہوا تھا‘ لیکن اشرافیہ کو کوئی فرق ہی نہیں پڑا۔ جن ممالک میں یہ اپنی دولت رکھتے ہیں وہاں کالا دھن رکھنے کی تو اجازت ہے لیکن ایسے جرائم کی اجازت نہیں۔ پاکستان میں چونکہ اصلی جمہوریت نہیں ہے‘ اس لیے یہاں ایسے خوفناک سانحات تسلسل سے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایک قوم اور ہجوم میں جو باریک سی لائن ہو تی ہے‘ ہم اُس لائن کو پار کر چکے ہیں اور اس پر نادم بھی نہیں ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں