مشرقِ وسطیٰ طویل عرصے سے جغرافیائی سیاسی پیچیدگیوں کا خطہ بن چکا ہے۔ اس خطے نے حال ہی میں کشیدگی کی ایک نئی ابھرتی لہر دیکھی ہے‘ اسرائیل‘ ایران اور لبنان کے درمیان۔ سیاسی‘ عسکری اور نظریاتی عوامل کی وجہ سے پیدا ہونے والی یہ کشیدگی پاکستان سمیت ایران کے دیگر پڑوسی ممالک میں بھی پھیل سکتی ہے‘ جو تیزی سے وسیع تر علاقائی حرکیات کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔ اس کشیدگی کے نتائج نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پاکستان کے سٹرٹیجک اور ملکی منظر نامے کے استحکام اور مستقبل کو متاثر کرتے نظر آتے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان مخاصمت موجودہ کشیدگی کو سمجھنے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔
اسرائیل‘ جو مغربی اتحادیوں کی پشت پناہی کے ساتھ ایک علاقائی پاور ہاؤس بن چکا ہے‘ ایران کے جوہری عزائم کو اپنے وجود کے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں اسرائیل نے ایران کے خلاف مختلف خفیہ کارروائیاں‘ سائبر اور فضائی حملے کیے ہیں جن کا مقصد ایران کے جوہری ڈھانچے کو نقصان پہنچانا تھا‘ جس کا جواب ایران نے اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کی ترقی اور پورے خطے میں پراکسی فورسز کی امداد کی صورت میں دیا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ کے لیے ایران کی حمایت‘ اسرائیل کے لیے خصوصی تشویش کا باعث ہے۔ حزب اللہ کے پاس جدید اسلحے و بارود کا وسیع ذخیرہ موجود ہے‘ اور وہ اسرائیل کی سرحد سے متصل جنوبی لبنان میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑے ہوئے ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد علاقے میں کشیدگی میں اضافے کے ساتھ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست محاذ بھی گرم ہو چکا ہے۔ بیروت میں حزب اللہ کے مرکز کو نشانہ بنانے کے بعد‘ شنید ہے کہ اسرائیلی فورسز زمینی کارروائی کے لیے لبنان میں داخل ہو چکی ہیں۔ یہ عسکری کشیدگی خطے کو ایک مکمل تصادم کی طرف لے جا سکتی ہے جس کے علاقائی استحکام پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
لبنان کو پہلے ہی شدید اقتصادی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے‘ اور اب یہ اسرائیل ایران مخاصمت کا ایک فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔ لبنان میں اقتصادی تباہی‘ افراطِ زر‘ سیاسی بدعنوانی اور 2020ء کے تباہ کن بیروت بندرگاہ دھماکے سے صورتحال کافی بدتر ہو چکی ہے۔ ریاست کمزور ہے‘ لیکن اس دوران حزب اللہ ایک مضبوط عسکری قوت بننے کے بعد اسرائیل کے لیے ایک براہ راست چیلنج بن چکی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کو اس لیے نشانہ بنایا گیا تاکہ حزب اللہ کو کمزور کیا جا سکے لیکن حزب اللہ کی نئی قیادت اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پُر عزم ہے۔ گوکہ ایران نے منگل کی رات اسرائیل پر 200سے زائد بیلسٹک میزائل برسا کر اسماعیل ہنیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے لیکن اس سے علاقائی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو ا ہے۔ یہ کشیدگی ممکنہ طور پر خطے کے دیگر ممالک تک بھی پھیل سکتی ہے۔
اس وقت لبنان اپنے داخلی عدم استحکام کی وجہ سے پراکسی جنگوں کے لیے ایک بہترین میدان بن چکا ہے جہاں براہِ راست تصادم کے بغیر پراکسی وار کے خدشات کافی بڑھ گئے ہیں۔ لبنان کے لیے ‘ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ تباہ کن ثابت ہو گی جو اس کی پہلے سے کمزور معیشت اور سماجی نظام کو مزید مفلوج کر دے گی۔ یہ کشیدگی بڑے پیمانے پر نقل مکانی‘ انسانی بحران اور پہلے سے منقسم معاشرے کے مزید ٹکڑے کرنے کا باعث بنے گی۔ اس کشیدگی کا سب سے زیادہ خمیازہ لبنانی عوام کو بھگتنا پڑے گا کیونکہ لبنان کا انفراسٹرکچر‘ جو پہلے ہی کمزور ہو چکا ہے‘ مزید تباہ ہو گا۔
اس وقت اسرائیل‘ ایران‘ لبنان مثلث کے درمیان موجود کشیدگی خطے کے دیگر ممالک یمن‘ شام اور عراق تک پھیل چکی ہے۔ پاکستان بھی ایران کا پڑوسی ہونے کے ناتے اس کشیدگی سے متاثر ہو سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان نے ایران‘ جس کے ساتھ اس کی سرحد ملتی ہے اور سعودی عرب و خلیج تعاون کونسل کے ساتھ اپنے سٹرٹیجک تعلقات کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ تاہم مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی پولرائزیشن‘ جس کا تعلق بالخصوص اسرائیل اور ایران سے ہے‘ پاکستان کی سفارتی چستی کا امتحان لے رہی ہے۔ اسرائیل اور ایران کے مابین کسی بھی قسم کے تنازع میں اضافہ پاکستان کو ایک مشکل پوزیشن میں ڈال سکتا ہے کیونکہ اس تنازع میں پاکستان پر فریق بننے کے لیے دباؤ ڈالا جائے گا۔ پاکستان نے اس حوالے سے ابھی تک غیرجانبدارنہ مؤقف برقرار رکھا ہے لیکن بڑھتی ہوئی کشیدگی اسلام آباد کو نئے چیلنجز سے نمٹنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اس سے پاکستان اور خطے‘ دونوں میں فرقہ وارانہ تقسیم بھی بھڑک سکتی ہے کیونکہ اس تنازع کے پھیلنے سے فرقہ وارانہ جذبات بھڑکنے کے خدشات ہیں۔ پاکستان پہلے ہی داخلی سلامتی کے مسائل بشمول دہشت گردی‘ سیاسی عدم استحکام اور معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ان چیلنجوں کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ پاکستان کی معیشت کے لیے اہم خطہ ہے‘ بالخصوص خلیجی ممالک میں قیام پذیر لاکھوں پاکستانی کارکنوں کی ترسیلاتِ زر کی وجہ سے یہ اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ خطے میں کسی بھی عدم استحکام سے ان کارکنوں کی حفاظت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور ترسیلاتِ زر کے بہاؤ میں خلل پڑ سکتا ہے جو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے بہت اہم ہیں۔ مزید برآں خطے میں یہ تنازع تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ کر سکتا ہے جس سے پاکستان کی پہلے سے مشکلات کی شکار معیشت مزید دباؤ میں آ سکتی ہے جو تیل کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع دیگر خلیجی ریاستوں کو بھی غیرمستحکم کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں ترسیل کی رکاوٹیں‘ بالخصوص تیل کی پیداوار اور برآمدات میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے عالمی منڈیوں‘ بالخصوص یورپ اور ایشیا میں دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ان حالات میں اس مسئلہ میں عالمی طاقتوں کی شمولیت‘ بالخصوص امریکہ اور روس کی مخاصمت‘ صورتحال میں پیچیدگی کی ایک اور پرت کا اضافہ کرتی ہے۔ امریکہ نے ایرانی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی ہے جبکہ روس نے ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے شام میں سٹرٹیجک موجودگی برقرار رکھی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا پھیلاؤ ایک وسیع تر بین الاقوامی تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔
پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں جو مشرقِ وسطیٰ میں اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی مفادات رکھتا ہے۔ یہ پہلو اسلام آباد کو خطے میں زیادہ محتاط سوچ کی طرف لے جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے اسرائیل‘ ایران اور لبنان کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے‘ مشرقِ وسطیٰ کے وسیع خطے اور پاکستان جیسے ممالک کے مفادات پر اثر پڑ رہا ہے۔ تصادم کا امکان بڑھ رہا ہے۔ یہ براہِ راست عسکری شمولیت کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے اور پراکسی جنگ کے ذریعے بھی اس کے پھیلنے کے امکانات موجود ہیں۔ اس سے نہ صرف صرف براہِ راست ملوث ممالک بلکہ ان کے پڑوسی اور بین الاقوامی شراکت دار بھی عدم استحکام کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ صورتحال محتاط توازن کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ ملک اپنے استحکام کے تحفظ‘ فرقہ وارانہ تقسیم کو روکنے اور اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان کے لیے آگے کا راستہ چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے۔ کشیدگی کے ممکنہ نتائج آنے والے عشروں تک مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی سیاسی منظرنامے کو نئی شکل دے سکتے ہیں اور خطے کے امن اور ترقی پر مشکل اور دیرپا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان حالات میں خطے میں ایک تیز رفتار اور مؤثر سفارت کاری لازم ہے جو خطے کے ممالک کو تباہی اور بربادی کی دلدل سے بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرے۔