ہم جو آج کل کے زمانے میں رہنے والے ہیں‘ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا جو مسئلہ ہو رہا ہے وہ موجودہ زمانے کی کمزوریوں اور ناقص حکمرانی کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو یہ رائے درست نہیں۔ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کا زوال تین سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ ہم پاکستانی تو اپنے آپ کو مسلمانانِ ہند اورگزرے زمانے کی مسلم سلطنتوں کا جانشین سمجھتے ہیں اور ہمارا پِٹنا بادشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد شروع ہو گیا تھا۔ اورنگزیب کو مرے بتیس سال نہیں ہوئے تھے جب ایران سے نادر شاہ نے حملہ کیا اور ڈگمگاتی مغل بادشاہت کو ایسی ٹھوکر لگائی جس سے پھر وہ سنبھل نہ سکی۔
برصغیر میں انگریزوں کا آنا شروع ہوا تو ہماری کیا حیثیت تھی؟ ہندوستان کا سب سے امیر صوبہ بنگال تھا‘ اُس پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ جنوبی ہندوستان میں سب سے مؤثر مسلم حکمران‘ ٹیپو سلطان کو شکست ہو گئی۔ مراٹھوں کا زور تھا اور حیدر آباد دکن کے تخت پر نظام الملک براجمان تھے‘ وہی جو انگریزوں سے مل کر ٹیپو سلطان کے خلاف میدان میں اترے تھے۔ وسطی ہندوستان میں بھی مغل سلطنت کمزور ہو چکی تھی اور پنجاب پر سکھوں کی ایک نئی سلطنت معرضِ وجود میں آ گئی تھی۔ مغل بادشاہ کے پاس دہلی کا دربار رہ گیا تھا اور استاد ذوق اور غالب کی شاعری۔ 1857ء کی شورش برپا ہوئی اور انگریزوں نے جب اُسے کچلا تو مسلمانوں کی رہی سہی حیثیت بھی خطرے میں پڑ گئی۔ یہ بھی یاد رہے کہ اُس شورش کے کچلنے میں پنجاب اور سرحد کے مسلمان انگریزوں کے معاون رہے۔ پنجابیوں اور پٹھانوں کی انگریزوں سے وفاداری آب وتاب سے 1947ء تک قائم رہی۔
غور سے دیکھا جائے تو مسلمانانِ ہند کی حیثیت انگریزوں کے آنے سے بچی۔ انگریز اپنی سلطنت قائم نہ کرتے اور مضبوط حکمرانی کا جال نہ پھیلاتے تو مسلمان سکھوں‘ وسطی ہندوستان کے جاٹوں اور جنوبی ہندوستان کے مراٹھوں کے ہاتھوں مارے جاتے۔ مسلمانوں کا عروج پندرہویں‘ سولہویں اور سترہویں صدی تک قائم رہا۔ اُس کے بعد تو زوال کی داستان شروع ہو گئی۔ انگریزوں کی حاکمیت جب پوری طرح قائم ہوئی اور تجارت اور تعلیم کے حوالے سے ہندو آگے نکلنے لگے تو دہلی‘ اَودھ‘ بھوپال اور حیدر آباد دکن کے مسلمانوں کو ہندوؤں سے ڈر لگنے لگا۔ اور ڈر یہ تھا کہ جس جمہوریت کی بات انگریز کر رہے ہیں وہ قائم ہو گئی تو ہندو تسلط قائم ہو جائے گا۔ یعنی جو مسلمان یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ایک مسلمان دس یا پچاس ہندوؤں کے برابر ہے اب ہندوؤں کی عددی اکثریت سے ڈرنے لگا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انڈین نیشنل کانگریس تو انگریزوں سے آزادی کے لیے لڑرہی تھی اور ہمارے زعما کو ہندوؤں کے جمہوری تسلط کی فکر پڑی ہوئی تھی۔ پہلے تو مسلمانوں نے جداگانہ طرزِ انتخابات کا مطالبہ کیا‘ وہ پورا ہوا پھر بھی چین نہ آیا تو آخر دم تک آئینی اور سیاسی تحفظ کے طلبگار رہے۔ اسی آرزو میں پنجاب اور بنگال دولخت ہو گئے اور پنجاب میں وہ خون کی ہولی کھیلی گئی جس کی دورِ حاضرکی تاریخ میں کم ہی مثالیں ملتی ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ مسلمانانِ ہند نے جب ہند سے کوچ کیا توسب کچھ پیچھے چھوڑ گئے۔ اپنی تاریخ‘ اپنی روایات‘ دہلی اور یو پی کی تہذیب اور ہزار سال کی حکمرانی کی نشانیاں۔نہ صرف یہ بلکہ بقیہ مسلمانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ وہ مسلمان جن کی تعداد قلعۂ اسلام میں آنے والے مسلمانوں کے تقریباً برابر تھی۔ یعنی پیچھے تو ہٹے لیکن سب کچھ لٹا کے ہٹے۔
آج کے پاکستانیوں کو سوچنا چاہیے کہ ہم چنگیز خان یا امیر تیمورکے جانشین نہیں بلکہ جانشین اُن لٹے پٹے قافلوں کے ہیں جنہیں 1947ء میں سرحد عبورکرنا پڑی۔ ہم اُن زعما کی روحانی اور سیاسی اولاد ہیں جن کے دلوں میں ہندو اکثریت کے سیاسی تسلط کی فکر بیٹھی ہوئی تھی۔ جس قسم کی بھی جدوجہد تھی جس کے نتیجے میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا اُس کی قیادت چینی کمیونسٹ پارٹی یا ویتنامی کمیونسٹ پارٹی نہیں کر رہی تھی۔ جناح صاحب تو دورِ جدید کے افکار کے پیروکار تھے لیکن بیشتر مسلم لیگی زعما جاگیردار تھے یا رجعت پسندانہ سوچ کے حامل۔ اور ان زعما کے ساتھ جو غلام محمد‘ اسکندر مرزا اور چودھری محمد علی جیسے اعلیٰ بیورو کریٹ نتھی ہوئے وہ بھی پیچھے دیکھنے والے افراد تھے۔ یعنی یہ سارے قدامت پسند قسم کے لوگ تھے۔ اسی لیے پاکستان بنتے ہی مغربی عسکری معاہدوں میں جانے کی سوچنے لگے۔ جہاں لیڈر جاگیردار تھے اُنہوں نے خاک جاگیرداری ختم کرنی تھی۔ جو سرمایہ دار نئی ریاست کے حصے میں آئے وہ ہندو سرمایہ داروں کے آگے چھوٹے قسم کے سرمایہ دار تھے۔ ریاستی وسائل سے وہ پَلے پوسے اور پھر جاکر یہاں کچھ فیکٹریاں لگنے لگیں۔ شروع دن سے وسوسوں سے ماری اس قیادت نے اسی میں بھلائی سمجھی کہ بنگالیوں اور چھوٹے صوبوں کو ذرا نیچے رکھا جائے۔ اور اس سیاسی مقصد کیلئے ایک عجیب سا نظریاتی تسلط قائم کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔ یہ نظریاتی تسلط تب نہ چلا اور اب تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاش پاش ہوتا جا رہا ہے۔جس بحران میں ہم پھنسے ہوئے ہیں یہ اب ہمارے سروں سے اوپر جا پہنچا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک کہا جاتا تھا کہ نہیں نہیں‘ ہمارے مسائل عارضی ہیں‘ فلاں لوگ اقتدار میں آئیں گے تو حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ اب قومی سوچ میں اس حد تک وسعت آئی ہے کہ لوگ سمجھنے لگے ہیں کہ ایسی خام خیالی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب یہ اعتراف ملک کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے کہ یہ کمپنی چلنے کی نہیں ہے۔ جہاں دیکھو شورش اور احتجاج ہے‘ حالات سے تنگ آکر لوگ باہر نکل رہے ہیں اور جسے ریاست کی رِٹ کہتے ہیں اُس کی کیا حالت ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ اوپر سے معاشی بحران ایسا ہے کہ اس دھرتی کے باسیوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ اور حالت یہ ہے کہ کوئی ایسا ایکسپرٹ یا دانشور نہیں جو بتا سکے کہ آگے کا راستہ کیا ہے۔ بے چینی کا لفظ تو بہت کمزور ہے‘ لوگ بپھرے پڑے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ جن کا کام ریاست کو سمت دینا ہے اگر اپنی بے بسی کا ماتم نہیں کر رہے تو بے بسی کا اعلان ضرور کر رہے ہیں۔
پر یہ تو کوئی بتائے کہ ہم نے اپنے ساتھ یہ سب کچھ کیا کیوں ہے؟ بنگال کے لوگ تہذیب وتمدن کے لحاظ سے ہم سب سے آگے تھے‘ ہمیں وہ برداشت نہ ہوئے اور ہم نے اُنہیں چلتا کیا۔ دور دراز علاقوں کی آوازیں ہمیں پسند نہ آئیں‘ وہاں سے کوئی بولا‘ ہم نے غداری کا ٹھپہ لگا دیا۔ آئین کی حکمرانی کی باتیں کرنا ہم نے سیکھ لیا لیکن آئین کی حکمرانی صحیح معنوں میں کبھی قائم نہ ہو سکی۔ مذہب کے نام پر فرقہ واریت پیدا ہوئی۔ ماضی کی زوال کی داستان کے تناظر میں مملکت کو مضبوط کرنے کی صلاحیت ویسے ہی کم تھی‘ اوپر سے یہ ہوتا رہا کہ جمہوریت کا پیڑ کبھی سر اٹھانے لگا تو تسکین نہ ہوئی جب تک اُسے کاٹا نہ گیا یا جڑ سے اکھاڑا نہ گیا۔ یہ تو پاکستانی متوسط طبقوں کا ڈھیٹ پن ہے کہ پھر بھی جمہوریت کی گفتگو کی جاتی ہے‘ نہیں تو اگلوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔
لیکن تاریخ کو ہم نہ بھولیں‘ پلٹیں تاریخ کے اوراق‘ اور بتائیں کہ اورنگزیب عالمگیر کی 1707ء میں وفات سے لے کر آج تک اس خطے کے مسلمانوں کی زندگی میں وہ کون سی سونے کی کان نظر آتی ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکے کہ اس کے وجود یا بطن سے ایک تاریخ ساز قوم بن سکتی ہے۔ کوئی چیز تو ہو جس پر انگلی رکھ کر کہا جا سکے کہ دیکھئے ہم ہیں اقبال کے شاہین اور ہم میں وہ خوبیاں ہیں جو ویتنامی‘ کورین یا چینی قوم میں ہیں۔ برصغیر میں جب ہمارا عروج تھا زوال اُس کے بعد آیا‘ یعنی ہم اوپر سے نیچے آئے۔ ہندو قوم نیچے سے اوپر آئی ہے۔ لیکن فکر کے بادل چھٹ جائیں اگر کوئی بتائے کہ ہمارے حالات کیسے ٹھیک ہوں گے اور زوال کی داستان کب ختم ہو گی۔