ہمارے دو معتبر ساتھی‘ جناب خورشید ندیم اور جناب سعود عثمانی نے حالیہ دنوں میں قراردادِ مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی پر بہت ہی عمدہ کالم تحریر کیے ہیں۔ میرے جیسے نامکمل معلومات رکھنے والے کیلئے یہ نہایت ہی مفید ثابت ہوئے ہیں۔ اور باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ دونوں معزز کالم نگاروں نے اس بات میں تو کوئی شک نہیں چھوڑا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام تھی۔ سلسلۂ مضامین میں یہ نکتہ بھی واضح طور پر نمایاں ہوتا ہے کہ کسی ایک چیز پر زیادہ یا کم زور دینے کا فرق تو مولانا شبیر احمد عثمانی اور جناح صاحب میں ہو سکتا تھا لیکن اس بات پر اُن کا مکمل اتفاق تھا کہ معرضِ وجود میں آنے والی نئی ریاست کے معاملات اسلامی اصولوں کے مطابق استوار ہوں گے۔ اس نقطۂ نظر یا نظریے کا بھرپور اور جامع اظہار قراردادِ مقاصد میں کر دیا گیا۔ میرے الفاظ میں اتنا ڈھنگ نہ ہو گا لیکن میں نے کوئی پیچیدہ بات بیان نہیں کی‘ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی بنیاد اسلام اور مسلم قومیت تھی۔ اس ضمن میں اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اسلام کو آپ نکال دیں تو پاکستان کا جواز نہیں رہتا۔
یہ تو ہوئیں ادبی اور ایکڈیمک باتیں اور ان کے حوالے سے جید علما اور سکالر تاقیامت گفتگو کر سکتے ہیں۔ پاکستان کا موجودہ مسئلہ البتہ ادبی سے زیادہ پریکٹیکل ہے۔ اب یہ بحث کی بات نہیں رہی‘ ہم سب کو نظر آ رہا ہے کہ یہ ایکسپیریمنٹ یا تجربہ جو ہمارے آباؤ اجداد نے شروع کیا تھا وہ چل نہیں رہا۔ ریاست کو جن خطوط پر چلنا چاہیے تھا اُس میں مکمل ناکامی ہوئی ہے۔ کسی بھی ریاست کے دو ہی بنیادی مقاصد ہوتے ہیں‘ عوام کے جان ومال کا تحفظ اور عوام کی بہبود وترقی۔ حالت اب یہ ہو چکی ہے کہ پیشہ ور قصیدہ گو بھی یہ کہنے سے معذور ہیں کہ جو مشق اتنے سال پہلے شروع کی گئی تھی ان دو مقاصد میں کامیاب ٹھہری ہے۔ ادبی بحث مباحثوں سے بات آگے جا چکی ہے‘ احساسِ زیاں ملک کے طول وعرض میں پھیل چکا ہے‘ عوام کا اعتبار بہت چیزوں سے اُٹھ چکا ہے۔ آرزوئے ہجرت کا پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
کوئی عمارت بے ڈھنگی یا ناکارہ نکلے تو یہ سوال نہیں پوچھا جاتا کہ اس تعمیر کا آرکیٹیکٹ یا نقشہ نویس کون تھا اور اُس کا نظریہ یا فلسفۂ تعمیر کیا تھا۔ اب اگر ہماری قومی مشق کی ناکامی کے آثار وثبوت صاف عیاں ہیں تو پوچھنا نہیں بنتا کہ مشق کے پیچھے جو خیالات تھے اُن میں کوئی نقص تو نہ تھا؟ یہ کہنا آسان ہے کہ نظریے وخیالات میں تو کوئی خرابی نہ تھی بس اُسے چلانے والے بڑے ناقص قسم کے لوگ تھے۔ یہ تو وہی دلیل ہوئی جو پرانے کمیونسٹ دہراتے ہیں کہ کمیونسٹ تھیوری میں تو کوئی نَقص نہ تھا بس سوویت یونین میں گڑبڑ ہو گئی۔ سوویت یونین لینن کے افکار کا وفادار رہتا اور سٹالن کے ہاتھوں اقتدار نہ آتا تو سوویت یونین کی قسمت کچھ اور ہوتی۔ حقیقی تاریخ تو یہ دیکھتی ہے کہ فلاں سلطنت کامیاب رہی یا ناکام۔ یہ بحثیں تو چلتی رہتی ہیں کہ نپولین روس پر حملہ نہ کرتا تو اُس کی فوج بچ جاتی یا ہٹلر روس پر حملہ نہ کرتا تو دوسری عالمی جنگ میں فاتح قرار پاتا۔ تاریخ تو یہ درج کرنے پر مجبور ہے کہ آخرکار نپولین اور ہٹلر‘ دونوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
تاریخِ پاکستان میں ہم یہ پڑھتے ہیں کہ نوکر شاہی اوردوسرے ادارہ جاتی عناصر ریاست پر حاوی ہو گئے اوراس کے نتیجے میں جمہوریت کو اتنی ضربیں لگیں کہ پھر ایسے لمحات بھی آئے کہ جمہوریت نڈھال ہو کر رہ گئی۔ بالکل درست کہانی ہے لیکن اس سے یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اگر یہاں غیر جمہوری قوتیں جمہوریت پر حاوی ہو گئیں تو ایسا ہندوستان میں کیوں نہ ہوا۔ وہاں کوئی ایوب خان یا جسٹس منیر کیوں نہ پیدا ہوا؟ یحییٰ خان کی رنگینیوں سے ہندوستان کیوں محروم رہا؟ اگر ہمارے بنگالی بھائی اور بہنیں نظریۂ پاکستان کے دائرے سے نکل گئے تو ہندوستان میں ایسا کیوں نہ ہوا؟ ہندوستان میں نریندر مودی نے ہندو ریاست قائم کرنا چاہی لیکن ہندوستانی جمہوریت اُس کے راستے میں رکاوٹ بن گئی۔ یہاں ایسا کیوں نہ ہو سکا؟ ضیا الحق جوکچھ کرنا چاہتے تھے اور جو کچھ اُنہوں نے کیا اُن کے راستے میں تو کوئی پاکستانی جمہوریت حائل نہیں ہو سکی۔
کسی بھی نظریے کی افادیت اس بات میں ہے کہ اُس سے معاشرے میں کتنی بہتری آئی اور عوام الناس کی حالت کتنی بہتر ہوئی۔ یورپین تہذیب نے وہ ماحول پیدا کیا جس سے یورپ میں انڈسٹریل اور ٹیکنالوجیکل انقلاب آئے۔ امریکہ کی ترقی کسی خلا میں تو نہیں ہوئی‘ ایک خاص ماحول تھا جس میں وہاں کے باشندوں کی انٹر پرائزنگ سپرٹ (Enterprising spirit) کو اظہار کا موقع ملا۔ ان مثالوں کو ایک طرف بھی رکھیں‘ تو اس کی کیا وجہ ہے کہ وہی ریلوے نظام جو انگریزوں کا دیا ہوا تھا ہندوستان میں چلتا ہے‘ یہاں ناکارہ ہو گیا ہے؟ ہندوستان مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی جیسی شخصیات سے محروم ہو گیا تھا‘ وہ وہاں کے بسنے والے تھے‘ تقسیمِ ہند کے بعد یہاں آ گئے۔ قراردادِ مقاصد یہاں منظور ہوئی‘ ایسی دستاویز سے ہندوستان محروم رہا۔ یہاں قرارداد منظور ہوئی وہاں جلد ہی آئین ترتیب دے دیا گیا جو اَب تک چل رہا ہے۔ ہم جیسا نہیں کہ جہاں ہر آنے والے نے یا تو اپنی مرضی کا آئین بنایا یا جو دستور موجود تھا اُسے اپنی ایڑھیوں کے نیچے رگیدا۔
ایک بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیسے ہوا کہ اسکندر مرزا‘ جن کا تعلق میر جعفر کے خاندان سے تھا‘ یہاں بڑے عہدوں پر فائز رہے اور پھر صدرِ پاکستان بھی بن گئے۔ ایسا ہمارے پڑوس میں ممکن ہو سکتا تھا؟ ایک اور بات کبھی سمجھ نہ آئی کہ شروع دن سے یہاں عدمِ برداشت کا اتنا ماحول کیوں تھا۔ کسی بلوچی نے بلوچستان کے حقوق کی بات کی وہ غدار ٹھہرا‘ خان عبدالغفار خان اور اُن کی تحریک پر ویسے ہی غداری کا ٹھپہ لگا دیا گیا۔ سندھ میں جی ایم سید وغیرہ‘ جو پرانے مسلم لیگی تھے‘ اُن کو برداشت نہ کیا گیا۔ بنگالیوں نے اپنی زبان اور حقوق کی بات کی اُن پر ریاست مخالف کا الزام لگ گیا۔ یہ ریاست مخالف کا الزام تو ہم نے کسی بڑے صندوق میں رکھا ہوا ہے اور کسی کی آواز پسند نہ آئے فوراً سے پہلے اُس پر یہ لیبل چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ آج کل بھی کثرت سے استعمال ہو رہا ہے‘ دلیل کوئی رہے نہیں تو ریاست مخالف کا ہتھیار استعمال میں آ جاتا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام کے کان ان نظریاتی چونچلوں سے پَک چکے ہیں۔ اُنہیں اپنی جان کی پڑی ہوئی ہے۔ نوجوان خواہ مخواہ کے نظریاتی بہکاووں میں آنے کیلئے تیار نہیں۔ اُن کے سوال سادہ سے ہیں کہ اتنی امیری اور غریبی ساتھ ساتھ کیسے چل رہی ہے؟ وہ پوچھتے ہیں کہ محدود طبقات تمام وسائل پر قابض کیوں ہیں اور پسماندگی اور افلاس اکثریت کیلئے کیوں لکھی ہوئی ہیں؟ بیروزگاری اور مہنگائی پہ سوال اٹھاتے ہیں۔ فروعی اور فضول باتیں سننے کیلئے اب اُن کا دَم نہیں رہا۔ ایک بات کا اقرار ہمیں زہر لگتا ہے کہ ہماری جدوجہد انگریز سے آزادی کیلئے نہیں تھی‘ ہندو سے علیحدگی کیلئے تھی۔ ہم علیحدہ ہونا چاہتے تھے کیونکہ جیسے بابائے قوم نے اپنے ایک مشہور بیان میں کہا کہ اُن کا رہن سہن الگ ہے‘ اُن کے اٹھنے بیٹھنے کے طریقے اور ہیں‘ اُن کی ہر چیز ہم سے مختلف ہے۔ ٹھیک ہے‘ ہمیں علیحدگی نصیب ہو گئی‘ علیحدہ ملک بن گیا‘ اُسے ڈھنگ سے چلانے کی صلاحیت تو پیدا کرتے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر شعبے میں ہندوستان سے آگے ہوتے۔ یہاں کی تعلیم و تدریس بہتر ہوتی‘ درسگاہیں بہتر ہوتیں‘ نظم ونسق اچھا ہوتا‘ قانون کی حکمرانی ہوتی‘ انتخابات کے نام پر تماشے نہ رچائے جاتے‘ ملک دشمن اور ریاست دشمن کے القابات اتنے آزادنہ استعمال نہ ہوتے۔
اور یہ جو حال ہم نے اپنا کر لیا ہے‘ کسی آزادی یا خود مختاری کے پیمانے پر اُترتا ہے؟ ماضی میں جو کچھ ہوا وہ ہوا‘ ستم تو یہ ہے کہ آج کے پاکستانی نوجوان کو کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔