کل چار بجے یہ سطورلکھنے بیٹھا اورتب کی اسلام آباد کی صورتحال یہ تھی کہ ڈی چوک کے قریب لوگ پہنچے ہوئے تھے‘ پولیس شیلنگ جاری تھی لیکن بلیو ایریا کے بہت سے علاقوں سے پولیس غائب ہو چکی تھی۔ کچھ وڈیوز جو دیکھ رہا تھا اُن کے مطابق علی امین گنڈاپور اپنے بہت بڑے قافلے کے ساتھ 26 نمبرچونگی پہنچ چکے تھے اور وہ قافلہ اسلام آباد کی طرف رُخ کررہا تھا۔ ڈی چوک سے پہلے بہت سارے کنٹینروں کو عوام راستے سے ہٹاچکے تھے۔ یعنی علی امین کے سامنے اسلام آبادآنے تک کوئی خاص رکاوٹ نظرنہیں آتی تھی۔
وزیرداخلہ کو ایک وڈیو میں دیکھا‘ گنڈاپورکو وارننگ دے رہے تھے کہ بہت ساری لائنیں وہ عبورکرچکے ہیں لیکن مزید نہ کریں۔ ساتھ اُنکے ایک اعلیٰ پولیس افسرکھڑا تھا‘ سچ تو یہ ہے کہ دونوں صاحبان انتہائی تھکن کا شکار لگتے تھے۔ اسلام آبادپولیس کے بارے میں بھی یہ کہناکہ تھک چکی ہے بے جا نہ ہوگا۔ پرسوں صبح سے ان بے چارو ں کی ڈپلائمنٹ ہوئی تھی‘ کھانا ملا تھا یا نہیں‘ لیکن اتنا تو وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ رات کو سونے کا وقت کم ہی ملاہوگا۔ مظاہرین جذبے سے سرشار تھے اور جہاں جذبہ ہو‘ تھکی ہوئی روحوں میں بھی نئی جان پڑ جاتی ہے۔ لیکن پولیس توڈیوٹی پر معمور تھی‘اُن لا چاروں میں کون سا جذبہ ہونا تھا؟وڈیو سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ بلیوایریا کے سارے اُس علاقے پر مظاہرین کا دباؤ ہے۔
چکوال میں بیٹھے یہ سطور لکھتے ہوئے من میں اب خیال آرہا ہے کہ اسلام آباد ہونا چاہیے تھا۔ ایسے نظارے روزروز تو نہیں ہوتے۔ وہاں موجود ہوتے تو مجمعے کے لوگوں سے کچھ بات چیت ہو جاتی ‘ کچھ اندازہ ہو جاتا کہ کہاں تک جانے کو تیار ہیں۔ایک بات تووڈیو کوریج سے صاف ظاہر ہو رہی تھی کہ بیشتر مظاہرین عام لوگ ہیں۔ ممی ڈیڈی قسم کے لوگ نظرنہیں آرہے ۔ ہماری زندگی بھی بیت چکی ہے جلسے جلوسوں کو دیکھتے ہوئے اوریہی ہوتا آیا ہے کہ عوام کے جذبات جب زورپکڑتے ہیں تو عام لوگ ہی آگے ہوتے ہیں۔ شیلنگ وہ برداشت کرتے ہیں‘ پولیس کی لاٹھیاں اُن پر آزمائی جاتی ہیں۔ ہنگامے ختم ہوتے ہیں تو عام لوگ ہمیشہ کی طرح پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یعنی قربانیاں عام لوگ دیتے ہیں اور احتجاج کے ثمر کوئی اور لوگ سمیٹ لیتے ہیں۔ جذبہ تو ان لوگو ں کا دیکھئے‘ دوردراز سے آئے ہوئے‘ نہتے‘ پاس کچھ بھی نہیں لیکن پھر بھی کنٹینروں سے ٹکرانا اور آنسوگیس کے بادلوں میں سانس لینا۔ شیلنگ سے نڈھال لیکن ہمت پھر بھی برقرار۔ یہ مناظر دیکھ کر اپنے پر کچھ شرم بھی آئی کہ حالات پتا نہیں کیا انگڑائی لے رہے ہیں اورتم چکوال میں آرام سے بیٹھے ہو۔ احتجاج کی آگ بڑھکتی رہی تومجبوراً چھپے راستوں سے اسلام آباد جانا پڑے گا‘نہیں تو صحافی ہم کس کام کے۔
ماضی میں ہم یہ دیکھتے تھے کہ حالات پولیس کے کنٹرول سے باہر ہوئے اوربڑے ادارے کو سکیورٹی کے فرائض منتقل ہونے کا اعلان تو احتجاج کا زورتھم جاتا تھا۔ بڑے ادارے کا نام ہی کافی ہوتا تھا‘لیکن اس بار کیا دیکھ رہے ہیں کہ گواعلان ہوچکا ہے اورنوٹیفکیشن بھی جاری ہو گیا ہے لیکن احتجاج ان سطور کے لکھتے وقت پورے زور سے جاری تھا۔ یہ ایک نئی صورتحال ہے اورمتعلقہ حکام کو اس پر غورکرنا چاہیے کہ یہاں تک حالات پہنچے کیسے۔ جو غصہ دیکھنے میں آرہا ہے وہ عوام میں کیوں ہے؟اس ساری صورتحال کے عوامل کیا ہیں؟ ایک بات تو واضح ہے کہ پچھلے دو سال اوراُس سے کچھ زائد عرصہ تمام تر سختیوں کے باوجودجس واحدجماعت کو کنٹرول کرنا مقصود ہے اُس کا غضب اورعوام کے ایک بہت بڑے حلقے کے دلوں میں اُس کی قدرومنزلت پوری آب و تاب سے قائم ہے ۔ موجودہ احتجاج کو ہی ہم دیکھ سکتے ہیں‘ اسلام آباد کو بند کرنے کے لیے اسلام آبادانتظامیہ نے اپنا پورا زورلگا دیا۔ اسلام آباد کے آنے جانے کے راستوں پر اتنے کنٹینرلگ گئے کہ تاتاریوں کی فوج ہوتی اُسے بھی آگے آنے میں دِقت ہوتی۔ احتجاج کے پہلے دن یعنی جمعہ کے روز مجھے یقین تھا کہ پی ٹی آئی والے جھک ماررہے ہیں‘ کنٹینروں کی قطاروں کو عبورنہیں کرسکیں گے اور ڈی چوک پہنچنا ان کیلئے محال ہوگا۔ لیکن جو صورتحال رونماہوئی اس کے بالکل برعکس ہے۔ مجھے شرم ہے کہ چکوال کیوں بیٹھا ہوں‘ اسلام آباد کے اعلیٰ حکام کو کچھ ندامت ہونی چاہیے کہ اتنا کچھ کرنے کے باوجودصورتحال اُن کے ہاتھوں سے یکسر نکل چکی ہے اور اب بڑی امداد (مطلب آپ سمجھ ہوگئے ہیں) پر تکیہ کیا جارہا ہے۔ آپ کی بڑھکوں اوردھمکیوں میں کوئی جان ہوتی توحالات یہاں تک نہ پہنچتے۔ لیکن جیسے ہم گفتارکے غازی ہیں آپ بھی زبانی جمع خرچ اور ہوائی مکوں کے بادشاہ ہیں۔
اس وقت پاکستان کا سیاسی منظرنامہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ایک طرف ایک جماعت اوراُس جماعت کے لیڈر کے حامی اور پیروکار۔ دوسری طرف تعصب کے مارے وہ لوگ جو اُس لیڈر کا نام سننے کوتیار نہیں۔ جب نام سننے کو تیار نہیں توایسے لوگ کیسے مانیں کہ پاکستان کی ساری سیاست‘ عوام کی امنگیں‘ ایک ہی نکتے یا ایک ہی محور کے گرد گھوم رہی ہیں۔اس سے زیادہ تشریح کرنا اچھا نہ ہوگا کیونکہ تعصب کے ماروں کو برُا لگے گا۔ عوام مشکلات کے دریا عبورکرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ لیڈراپنی جگہ ڈٹا ہواہے۔ وہ کمزوری دکھاتا‘ اُس میں کوئی لغزش آتی ‘تو عوام نے ایسا کھڑا نہیں ہوناتھا۔ بڑی بڑی پارٹیوں کے لیڈروں پر مشکلات آئیں تواُن کو بیماریاں لاحق ہو جاتی تھیں اور پھر سوائے لندن کے اُن کا کہیں علاج نہیں ہوسکتا تھا۔ لیڈروں کی یہ کیفیت ہو توورکروں یا عوام نے خاک کہیں کھڑا ہونا ہے۔ ذوالفقارعلی بھٹو میں ہمت تھی لیکن اُن کے وجود کوہی صفحۂ ہستی سے مٹادیا گیا۔ اب کی بار ایسا نہیں ہے‘ جو بھٹو کے ساتھ ہوا اب ہو نہیں سکتا کیونکہ حالات بدل چکے ہیں‘ پاکستان وہ نہیں رہا جو ضیا الحق کے زمانے میں تھا۔ اور جو اندر ہے اورجسے چپ کرانا اوردبانا مقصود ہے اُس میں جھکنے کی خوسِرے سے موجود نہیں لگتی۔ وہ ہمت دکھا رہاہے تواُس کی دیکھا دیکھی لوگوں میں ہمت آئی ہے۔ بڑاسوال البتہ یہ ہے کہ موجودہ احتجاج کسی بڑی تبدیلی کی شکل اختیارکرسکتا ہے یا جوش وجذبے کے اظہار کے بعد موجودہ کیفیت ٹھنڈی پڑ جائے گی؟ اس سوال کاجواب اگلے چند روز میں ہی مل سکتا ہے۔ ابھی کچھ زیادہ کہنا قبل ازوقت ہوگا۔
لیکن اے اکابرینِ ملت‘ کچھ تو نوشتۂ دیوار پڑھیے‘ کچھ توآسمانوں کا رنگ دیکھئے۔ جیسے کام چلایاجارہا ہے کتنی دیر چل سکتا ہے؟ ہرچیز کی حد ہوتی ہے‘ دروغ گوئی کی ‘ مصلحت پسندی کی‘ فرضی کہانیوں کی۔ الیکشن کے نام پر پچھلے ایک سال میں کیا کچھ ڈرامے نہیں رچائے گئے۔ عوامی رائے کو مسخ کرنے کا ہرحربہ استعمال کیا گیا۔ کچھ کارگرثابت نہ ہوا‘ سرکاری ڈراموں کا دورانِ انتخابات عوام نے وہ حشرکیا کہ اگلوں کے ہوش اُڑ گئے۔ لیکن کچھ سبق نہ سیکھاگیا‘ زورزبردستی کے ہتھکنڈوں سے گریز نہ کیاگیا۔ یاتوسب کچھ آپ کی گرفت میں آ جاتا پھر کیا بحث تھی۔ لوگ چپ ہو جاتے ‘دبک جاتے۔لیکن ہوا کیا ہے؟ عوام اپنے ارمانوں کو احتجاج کا لبادہ پہنا رہے ہیں۔یہ صرف کہنے کی بات نہیں ہم ایسا دیکھ رہے ہیں۔میں توچکوال میں بیٹھا ہوں لیکن یہاں کے کتنے سارے لوگ ہیں جو ہراحتجاج یا جلسے میں شریک ہوتے ہیں۔ ہاتھ میں اُن کے ڈنڈے نہیں ہوتے ‘ دل میں ایک دھڑکن ہے جواُن کے قدموں کو تازہ دم رکھتی ہے۔اسرائیل حزب اللہ کو تباہ کرنے کی سعی نہیں کررہا؟ حزب اللہ کا لیڈرمارا گیا ہے لیکن حزب اللہ کی ہمت نہیں مری۔ زورزبردستی کی بھی ایک حد ہوتی ہے‘ اُس کے بعدخوف کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔