اگرتقدیر کے فیصلے ہوں اُن سے کیا لڑنا لیکن اپنا حال دیکھیں توبیشتروار اپنے اوپر ہم نے خودکیے ہیں۔ماضی کی باتوں کا کیا دہرانا‘ دہرا دہرا کے تھک چکے ہیں۔ لیکن یہ جو شورش خیبر پختونخوا میں بھڑک رہی ہے اس پر تونظردوڑائیں۔ آج اتنی بڑی تحریک بن چکی ہے جس کا جرگہ جمرود میں اکٹھا ہوا۔لیکن اس شورش نما صورتحال کا آغاز کہاں سے ہوا تھا؟ یاد ہے اُس نوجوان کا نام‘ نقیب اللہ محسود‘ جوکراچی میں ایک جعلی اِن کاؤنٹر میں قتل ہوا تھا؟ وہاں سے یہ آگ بھڑکنا شروع ہوئی لیکن حسبِ روایت جن کو اس واقعہ کا نوٹس لینا چاہیے تھا انہوں نے آنکھیں بند کیے رکھیں۔اس قتل کی پاداش میں محسود تحفظ موومنٹ کی پیدائش ہوئی جس کا بعد میں نام تبدیل کر دیا گیا۔
بدنامِ زمانہ پولیس افسر تھا جس پر قتل کا الزام لگا لیکن کیا کوئی ایکشن اس کے خلاف ہوا؟ وہ جو کئیوں کا چہیتا تھا‘ اس پر کون ہاتھ اٹھاتا؟خوش و خرم زندگی بسرکررہا ہے لیکن اس کی لگائی ہوئی چنگاری ایک بھڑکتی آگ میں تبدیل ہوچکی ہے۔اورحسبِ روایت کوئی پوچھنے والا نہیں۔عجیب معاملات ہیں ہمارے۔ عقلِ سلیم پکار پکار کے کہہ رہی ہوتی ہے کہ فلاں چیز مت کرو‘ فلاں قدم مت اٹھاؤ اس میں نقصان ہے لیکن ہم نے ہربار خلافِ عقل قدم اٹھانا ہے اور پھر وقت گزرنے کے بعد جب پانی سر سے گزر جائے‘ ماتم کرنے بیٹھ جانا ہے۔اس موومنٹ کا نام نہیں لے رہا کیونکہ اس پر بیوقوفانہ پابندی لگا دی گئی تھی لیکن وہاں کے عوام کا زوراتنا تھا کہ جس جرگے کا اعلان کیا گیا اورجس سے وفاقی سرکار گھبرائی ہوئی تھی اسے روکنا ممکن نہ رہا۔ پھر اسی علی امین گنڈاپور کو بیچ میں لانا پڑا جسے کچھ دن پہلے لعن طعن سے نوازا جارہا تھا۔ گنڈاپور نے کچھ عقل دلائی تب جاکر وفاقی سرکار کو ہوش آیا کہ آگ سے کھیلنے کا نقصان بہت ہوسکتا ہے۔ کل تک گنڈاپور باغی سمجھا جارہا تھا لیکن جمرود کی نازک صورتحال کے پیش نظراس کے پاس گورنرسرحد بھی پہنچا اورحضوروزیرداخلہ بھی۔ تصویر تو سب نے دیکھی ہوگی گنڈاپور بیچ میں بیٹھا ہے اور یہ دونوں صاحب اس کے دائیں بائیں۔ اور اس تصویر میں عزت مآب وزیرداخلہ کی شکل دیکھنے کے قابل ہے۔ گنڈاپور کو بیچ میں بٹھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ جرگے کا انعقاد پُرامن ماحول میں ہوا ‘نہیں تو چند روز قبل جرگے والوں پر دھاوا بولا گیاتوچاراشخاص کی اموات ہوگئیں۔ اشتعال بڑھ سکتا تھا اگروفاقی سرکار اپنی اپروچ پربضدرہتی۔ گنڈاپور نے صورتحال کو بچایا۔
لیکن اجتماع تو اس تحریک کا تھا اور یہ بہت ہی بھرپورانداز سے ہوا۔ حسبِ روایت ایسے مجمعوں کا نیوزبلیک آؤٹ ہو جاتا ہے لیکن جو وڈیوز مختلف لوگوں نے اس جرگے کی جاری کی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ مجمع کتنا بڑا تھا اوراس میں کن جذبات کا اظہارہورہا تھا۔ پاکستان میں سب سے آسان کام یہ ہے کہ کسی ناپسندیدہ چیز کو آپ اینٹی سٹیٹ یا ریاست مخالف کہہ دیں۔ ایسے موقعوں پر سرکاری اہلکار یا سیاسی لاؤڈسپیکر کہتے نہیں تھکتے کہ کوئی ریاست مخالف بات برداشت نہیں کی جائے گی۔ ان ہرکاروں سے کوئی پوچھے کہ آگ لگانے کا باقاعدہ اہتمام خود کرتے ہیں اورپھرحالات کا ذمہ دار اوروں کو ٹھہرایاجاتا ہے ۔ ماہرنگ بلوچ کی مثال لیجئے‘ یہ کوئی پاگل ہے کہ عورت ہوتے ہوئے لمبے لمبے احتجاجی سفرکرتی پھرتی ہے؟ باپ اس کا گمشدہ ہوا تھا اورپھر مارا ہواپایاگیا اور پھر اس عورت نے اس راہ پر چلنا شروع کیاجس پر وہ چل رہی ہے۔ بلوچستان میں کتنے لوگ ہیں جنہیں اسی تجربے سے گزرنا پڑا۔ نقیب اللہ محسود کا تو چند سال پہلے کا واقعہ ہے۔ پولیس خوامخواہ اسے اٹھا لیتی ہے اورپھر دہشت گردی کا لیبل اس پر لگ جاتا ہے۔ پولیس کی تحویل میں پھر مارا جاتا ہے۔ اس کا اپنا محسود قبیلہ احتجاج کرنے پر مجبورہوتا ہے لیکن کوئی پرسانِ حال نہیں۔ مختلف دروازے کھٹکھٹاتے تھک جاتے ہیں لیکن انصاف کہیں سے نہیں ملتا۔
کیسا ہمارا اجتماعی ماحول بن چکا ہے کہ ظلم دن دیہاڑے آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اور کسی کوکوئی پروا نہیں ہوتی۔ پھر لوگ بولنے لگیں یا احتجاج کریں توآپ کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو ریاست مخالف ہیں۔عجیب تماشا ہے اوریہ کب سے چلا آ رہا ہے لیکن ہمارے اکابرینِ ملت نے قسم کھا رکھی ہے کہ نہ کچھ سمجھنا ہے نہ ماضی کی حماقتوں سے کچھ سیکھنا ہے۔ بنگالی بھی ریاست مخالف تھے‘ اُنہوں نے پھر وہ کیا کہ اُن تلخ یادوں کو ہم نے اپنے حافظے سے مٹادیا۔ آج بھی سانحہ مشرقی پاکستان پر بات ہو تو ہم بڑبڑانے لگتے ہیں‘ سیدھی بات نہیں ہوتی۔ بلوچوں کاایک بڑا حصہ ریاست مخالف ہو گیا اور نتیجہ آج یہ ہے کہ اندرونِ بلوچستان کانوائے میں چلنے والے ٹرکوں کی آمدورفت مشکل ہو گئی ہے۔ پختونخوا رہ گیا تھا اوروہاں بھی ریاست مخالف والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
باقی ملک میں فارم 47والا جادو چلانا نسبتاً آسان تھالیکن پختونوں کے دیس میں اتنا آسان نہیں ۔ پی ٹی آئی کو وہاں روکا نہ جاسکا اور نتیجتاً پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت وہاں بن گئی۔ اُس حکومت کو آج تک دل سے قبول نہ کیا گیا لیکن برداشت کرنا پڑا۔ کسی کے بس کی بات ہوتوعلی امین کو آج ہٹا دیں اور گورنرراج نافذ ہو جائے لیکن اتنا احساس پیدا ہوچکا ہے کہ خیبرپختونخواکے حالات‘ جو ویسے ہی دہشت گردی کے تناظر میں انتہائی خطرناک ہو چکے ہیں‘ گرفت سے بالکل نکل جائیں اگر گورنر راج جیسی حماقت وہا ں کی جائے۔ غورکرنے کا پہلو البتہ یہ ہے کہ اب تک تو وفاقی حکومت کو پی ٹی آئی سے خطرہ تھا لیکن جیسا کہ جمرود جرگے کے مناظربتا رہے ہیں خیبرپختونخوا کے حالات کسی اور ڈگر پرچلنا شروع ہو گئے ہیں۔
کون سمجھائے کہ حضور ہرایک کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ یہ جو ہرچیز میں مداخلت ہے اس سے کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے؟ سیاست کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے کیونکہ بس ایک جماعت کا راستہ روکنا ہے۔ اس جماعت کو روکتے روکتے اپنا حال بُرا کرلیا ہے۔ ایک بات البتہ اچھی ہو رہی ہے کہ چیف جسٹس قاضی صاحب کی قومی خدمات کی داستان ختم ہونے کو ہے۔ 25 اکتوبر کو ان کیلئے فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد ہورہا ہے۔ اس کا باقاعدہ اعلان ہوچکا ہے۔ یعنی اللہ اللہ کرکے وہ بالآخر قوم کی والہانہ خدمت سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اس سے کچھ بہتری نکلے۔ ایک تو الیکشن کے نام پر جو ناٹک قوم کیساتھ رچایا گیا اس کا کچھ اختتام ہو۔مگر ان کے ممکنہ جانشین تو بہتوں کیلئے ایک ڈراؤنے خواب کی صورت اختیارکرچکے ہیں۔ ڈرنا انہیں ملک کے ناگفتہ بہ حالات سے چاہیے مگر زیادہ ڈر جسٹس شاہ کا لگا ہوا ہے۔ کہیں یوں نہ کردیں‘ فلاں نہ کردیں۔ خواتین اور اقلیتوں کے بارے میں جسٹس شاہ کا جو فیصلہ تھا اس نے وفاقی حکومت کیلئے کچھ نہ چھوڑا۔ اس فیصلے نے مجوزہ آئینی پیکیج میں ایسا کیل ٹھونکا کہ وفاقی حکومت اب تک اس وار سے سنبھل نہیں سکی۔ ڈر ہے کہ وہ آ گئے توپتا نہیں کیا کرسکتے ہیں۔ سب کے پسینے اس بات پر چھوٹے ہوئے ہیں۔
کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اجتماعی خودکشی کا شوق ہے۔ممتاز ماہراقتصادیات قیصربنگالی کاانٹرویو دیکھ رہاتھا جس میں وہ کہتے ہیں کہ مداخلت کی موجودہ روشیں قائم رہیں توبیس سال میں دنیا کے نقشے پر پتانہیں کون سی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ جو بات انہوں نے کہی اسے دہرانے سے قاصر ہوں۔ ہمیں کیوں کچھ سمجھ نہیں آرہا ۔ جوکچھ بلوچستان اورخیبرپختونخوا میں ہو رہاہے‘ اس کا ہمیں کچھ احساس نہیں؟علی امین گنڈاپور بے دھڑک طریقے سے اس لیے بول سکتا ہے کہ اس کے پیچھے عوامی طاقت ہے۔ جو ویسے اقتدار میں بٹھائے جائیں ان سے کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے؟