مقبوضہ کشمیر میں مودی کا بیانیہ دریا بُرد

میں نے ہمیشہ سے ہی ''کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ نہیں بلکہ ''کشمیر ہے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگایا اور الحمدللہ غیور و دلیرکشمیریوں نے آج اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں‘ جس کا واضح ثبوت کشمیر اسمبلی کے حالیہ نام نہاد الیکشن میں بی جے پی کی شکست اور نیشنل کانفرنس اتحاد کی جیت ہے۔ جذبۂ ایمانی کی حرارت سے لبریز کشمیریوں نے آرٹیکل 370کی منسوخی کو مسترد کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے بیانیے کوکشمیر میں ہندو وزیراعلیٰ لانے کے خواب سمیت گنگا میں بہا کر یہ ٹھوس پیغام دیا ہے کہ بھارت کا کشمیر سے کوئی لینا دینا نہیں اور کشمیریوں کو آزادی کے سوا کچھ بھی قبول نہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں 18ستمبر سے یکم اکتوبر کے دوران تین مراحل میں مکمل ہونے والے ریاستی انتخابات میں مودی سرکار پولنگ سے قبل دھاندلی‘ نام نہاد حلقہ بندیوں اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کے باوجود بی جے پی کی حکومت قائم نہیں کر سکے گی۔ اگرچہ بی جے پی نے انتخابات میں 29نشستیں حاصل کی ہیں تاہم اس کے امیدوار ہندو اکثریتی علاقے جموں سے کامیاب ہوئے ہیں جبکہ اس کے مقابل کانگرس کے انتخابی اتحاد کو 51نشستیں ملی ہیں جس میں نیشنل کانفرنس کی 42 اور کانگریس کی چھ نشستیں ہیں اور یہ اتحاد مقبوضہ کشمیر میں حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں ہے۔
جموں و کشمیر میں ایک دہائی قبل ہوئے اسمبلی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرنے والی محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹ پارٹی کو بھی بی جے پی کا ساتھ دینے پر سبق سکھا دیا گیا ہے۔ 2014ء کے الیکشن میں پی ڈی پی 87رکنی اسمبلی میں 28نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی تھی اور اس نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں حکومت بھی چلائی تھی۔ اس بار 90رکنی اسمبلی میں یہ پارٹی صرف تین سیٹوں تک ہی محدود رہی۔ جموں ڈویژن کی 43سیٹوں میں سے بی جے پی نے 29سیٹیں جیتیں‘ جبکہ نیشنل کانفرنس کو سات سیٹیں ملیں۔ تیسرا نمبر آزاد امیدواروں کا ہے جنہوں نے پانچ نشستیں حاصل کیں۔ کشمیر اسمبلی کے حالیہ انتخابات دس سال بعد منعقد ہوئے اور اگست 2019ء میں مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد پہلے انتخابات تھے۔ مودی حکومت نے سنگینوں کے سائے میں کشمیریوں کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کرکے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات سے قبل بھارتی وزارتِ داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو مقبوضہ کشمیر میں درجہ چہارم سے لے کر اعلیٰ سطح تک بیورو کریسی‘ پولیس اور سول انتظامیہ کی تقرریوں‘ تعیناتیوں اور تبادلوں کے وسیع اختیارات دے دیے ہیں کیونکہ بھارتی حکومت کو یقین تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی مقبوضہ جموں وکشمیر میں حکومت نہیں بنا سکے گی لہٰذا نومنتخب وزیراعلیٰ اور اس کی کابینہ کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر سے کم اختیارات دیے جائیں تاکہ طاقت اور اختیارات کا منبع مقبوضہ جموں وکشمیر میں وزیراعلیٰ کے دفتر کے بجائے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا راج بھون رہے۔ اب یہاں کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ کیا عمر عبداللہ اپنے انتخابی وعدے کے مطابق آرٹیکل 370کا دوبارہ نفاذ کر پائیں گے یا حسبِ معمول کٹھ پتلی کا کردار ادا ہی کیا جائے گا؟ اور کیا نیشنل کا نفرنس کی اتحادی حکومت برسر اقتدار آنے کے بعد کشمیریوں کی توقعات پر پورا اُتر سکے گی؟مودی نے کشمیر پر قبضہ کرنے کی کئی شاطرانہ چالیں چلیں۔ بھارتی پارلیمنٹ نے خطے کو یونین ٹیرٹریز میں تبدیل کر دیا۔ لداخ‘ جموں اور کشمیر۔ جموں میں ہندو اکثریت‘ لداخ میں بدھ مت اور کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ نئی حد بندی کی آڑ میں جموں سے اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کر دیا گیا تاکہ مسلم اکثریتی شناخت کا خاتمہ ہو جائے‘ اسمبلی میں بی جے پی کی اکثریت ہو اور ہندو اقلیت میں ہونے کے باوجود حکومت بنا لیں۔ مقبوضہ وادی میں آرٹیکل 370اور 35Aکی منسوخی سے قبل ریاستی اسمبلی میں کشمیر ڈویژن کیلئے 46نشستیں مخصوص تھیں۔ جموں ڈویژن بالحاظ آبادی 37 اور لداخ چار نشستیں رکھتا تھا۔ گویا اسمبلی کی کل 87سیٹیں تھیں۔ مودی نے کل نشستیں 90کر دیں۔ یوں ہندو اکثریتی آبادی والے جموں ڈویژن کی سیٹوں میں چھ سیٹوں کا اضافہ ہو گیا جبکہ مسلم اکثریتی علاقے کی صرف ایک نشست بڑھائی گئی۔ یہی نہیں‘ نو نشستیں پسماندہ گروہوں کیلئے مخصوص کر دی گئیں جو سبھی ہندو ہیں تاکہ ہندوؤں کو جعلی الیکشن میں 50سیٹیں مل جائیں اور ہندو اقلیت کو جموں وکشمیر کے اکثریتی مسلمانوں پہ مسلط کیا جا سکے۔
یہودیوں نے 19ویں صدی کے آخر سے فلسطین میں زمینیں خریدنے کا سلسلہ شروع کیا‘ پھر وہاں دنیا بھر سے یہودی لا کر بسائے گئے۔ اس طرح رفتہ رفتہ فلسطین میں ہزاروں اور پھر لاکھوں یہودی آباد ہو گئے۔ حتیٰ کہ 1948ء میں انہوں نے اسرائیل قائم کر لیا۔ اب بھی وہ مغربی کنارے میں یہودی بستیاں بسا رہے ہیں جبکہ بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں مسلمانوں کے گھروں پہ قبضے کا عمل جاری ہے۔ مقصد یہی ہے کہ دونوں علاقوں میں یہودیوں کی آبادی اتنی زیادہ بڑھا دی جائے کہ وہ مستقبل میں کسی فلسطینی مملکت کا حصہ نہ بن سکیں۔ مودی حکومت نے یہود کا یہی منصوبہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاگو کیا ہے جس کا مقصد ریاست میں مسلمانوں کی عددی برتری کا مکمل خاتمہ ہے۔ اس ضمن میں بھارتی صدر نے صدارتی احکامات C.O272 کے تحت آئین میں متعدد ترامیم کیں۔ 35Aکی منسوخی کے بعد غیرکشمیریوں کو یہاں رہنے‘ جائیدادیں خریدنے کا اختیار مل گیا۔ آرٹیکل370 کی منسوخی کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے گورنر راج کا نفاذ عمل میں لایا گیا‘ تاہم ہیگ کنونشن 1907ء کے آرٹیکل 55کے تحت مقبوضہ علاقوں کے سیاسی سٹیٹس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ چوتھے جنیوا کنونشن کا آرٹیکل 47 مقبوضہ علاقوں میں صرف انتظامی اختیارات کی اجازت دیتا ہے۔ منظم منصوبے کے تحت یہاں کی آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے غیر کشمیریوں کو 44لاکھ سے زائد ڈومیسائل دیے گئے تاکہ مستقبل میں ریفرنڈم ہو تو یہ اس پر اثر انداز ہو سکیں اور مسلم اکثریت کی رائے شماری اقلیت میں بدل جائے۔ اس کیلئے مقبوضہ وادی کے لینڈ لاز میں بھی 14 ترامیم کی گئیں۔ ترقی اور سکیورٹی کی آڑ میں مقامی کشمیریوں کی زرعی اراضی پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ کشمیری باشندوں کو بے گھر کر کے یہاں ہندو بستیاں آباد کی جا رہی ہیں۔ لیز سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد صنعتکار اب اس علاقے میں اپنے صنعتی یونٹس قائم کررہے ہیں۔ ان صنعتی یونٹس کو چلانے کیلئے بھارتی شہروں سے ہندو مزدور درآمد کیے گئے ہیں۔
مقبوضہ وادی میں قدم قدم پر بھارتی فوجی تعینات ہیں جو غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی زمین بھی ہتھیا رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کو پانچ اگست 2019ء سے قبل ہی دنیا کے بڑے عقوبت خانے میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اظہارِ رائے پر پابندی‘ کشمیریوں کی سماجی‘ مذہبی آزادی سلب کر لی گئی تھی اور وہاں ہنوز کئی قدغنیں عائد ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں الیکشن اس وقت منعقد ہوئے جب کشمیری حریت رہنماؤں کی بڑی تعداد پابند سلاسل ہے۔ عالمی قوانین کے تحت مقبوضہ علاقے کی حیثیت کا مستقل طور پر خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔اب مقبوضہ وادی میں الیکشن بھی ہو گئے‘ اس کے نتائج بھی آگئے۔ چند دنوں تک وزیراعلیٰ بھی منتخب ہو جائے گا لیکن یہ کشمیر کی آزادی کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اقوامِ عالم اور اقوام متحدہ سے پوچھا جانا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے منظور کی گئی قراردادوں پر آج تک عملدرآمد کیوں نہیں کروایا جا سکا؟ 2019ء کی بھارت کی کھلی جارحیت و دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات کیوں نہیں کیے گئے۔ کیا فلسطینی و کشمیری مسلمانوں کا خون اتنا ہی ارزاں ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں