پاک برطانیہ تعلقات اور بدلتا منظرنامہ

پاکستان اور برطانیہ کے مابین گہرے دوستانہ اور تاریخی تعلقات سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی بنیادوں پر استوار ہیں۔ اسی ناتے پاکستان برطانیہ کا ایک اہم علاقائی اور سٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ بلاشبہ تجارت‘ تعلیم‘ صحت اور دیگر شعبوں کی بہتری میں برطانیہ کا تعاون قابلِ تحسین ہے۔ دونوں ملکوں کے تاریخی رشتوں کی جڑیں نوآبادیاتی دور میں پیوست ہیں۔1947ء میں اپنے قیام کے بعد پاکستان برطانیہ کے مزید قریب ہو گیا۔ تب سے دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے دارالحکومتوں میں سفارتخانے قائم کیے جو بہترین سفارتی روابط کی نشاندہی کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں جمہوری اداروں اور سماجی واقتصادی ترقی کی حمایت میں برطانیہ کا کردار اس دوطرفہ تعلقات کی اہمیت کو مزید واضح کرتا ہے۔ موجودہ بدلتے عالمی منظر نامے‘ جیو پالیٹکس‘ علاقائی استحکام اور ماحولیاتی تبدیلی اور دہشت گردی جیسے عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے یہ مضبوط رشتہ نا گزیر ہے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گری کے خلاف جنگ میں پاکستان برطانیہ کا بڑا اتحادی رہا اور نائن الیون کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابین تعلقات اب انسدادِ دہشت گری کارروائیوں‘ انٹیلی جنس شیئرنگ سمیت سٹرٹیجک پارٹنرشپ پر قائم ہیں۔ دوسری جانب مشترکہ فوجی مشقوں کے سات ساتھ پاک سکیورٹی کو بالخصوص قبائلی علاقہ جات میں مستحکم بنانے کے لیے برطانوی فوجی وعسکری سپورٹ وامداد نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ تجارت اور معیشت پاک برطانیہ تعلقات کی بنیاد ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی تجارتی سکیم (DCTS) کے تحت برطانیہ نے بریگزٹ کے بعد پاکستان کی برآمدات پر صفر ٹیرف رسائی کو برقرار رکھا اور برطانیہ کی نئی پالیسی کے تحت تجارتی معاہدوں پر زور دیا گیا۔ وطن عزیز کی علاقائی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے ہی برطانیہ نے معاشی شراکت داری کو فروغ دیا۔ اس وقت دونوں ملکوں کے مابین سالانہ تین بلین پائونڈ تجارت ہوتی ہے۔ برطانیہ 10 بلین ڈالر سے زیادہ کی مجموعی سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستان میں دوسرا سب سے بڑا بیرونی سرمایہ کار ہے۔ پاکستان میں برطانوی ایف ڈی آئی مالیاتی خدمات‘ تیل اور گیس کی تلاش‘ پٹرولیم ریفائننگ‘ بجلی کی پیداوار‘ فارماسیوٹیکل اور میڈیا جیسے شعبوں میں ہے۔
دفاعی وسکیورٹی امور اور کاؤنٹر ٹیررازم کے حوالے سے پاک برطانیہ تعلقات ہمیشہ سے ہی پائیدار رہے ہیں۔ برطانوی فوج اور پاک فوج کے درمیان تعاون 1950ء کی دہائی میں شروع ہوا اور پاکستان کیلئے 1959ء کی کامن ویلتھ ملٹری ٹریننگ اسسٹنس سکیم سے 39 فیصد فنڈز مختص کیے گئے تھے۔ بریگزٹ کے بعد سے برطانیہ اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ تعلقات نے نئی رفتار حاصل کی ہے۔ برٹش کمپنیوں نے تعلیمی انفراسٹرکچر کی بہتری اور ہیلتھ کیئر سمیت معاشی سکیورٹی‘ ٹیکنالوجی‘ ٹیلی کمیونیکیشن اور توانائی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور نئی برطانوی خارجہ پالیسی کے ذریعے پاکستان کو وسیع تجارتی مواقع میسر ہوئے ہیں۔ بلکہ دولت مشترکہ ممبر ہونے کی حیثیت سے پاکستان برطانیہ کے لیے پُرکشش پارٹنر کی اہمیت رکھتا ہے‘ اسی نسبت سے پاک برطانیہ تعلقات مزید گہرے ہو چکے ہیں۔ فری ٹریڈ ایگریمنٹ (FTA ) سے ملکی ایکسپورٹ کو ترقی ملی ہے۔ برطانیہ پاکستان کو براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا تیسرا بڑا ذریعہ فراہم کرتا ہے اس لیے یہ پاکستان کا سب سے بڑا یورپی تجارتی‘ سرمایہ کاری اور ترقیاتی شراکت دار ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سب سے بڑی یورپی برآمدی منڈی اور عالمی سطح پر تیسری بڑی مارکیٹ ہے۔ دوسری جانب پاک چین اقتصادی راہداری میں برطانیہ کی شمولیت بھی اہم ہے۔چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو انقلابی منصوبے کا حصہ ہونے کے طور پر سی پیک کے تحت بلین ڈالر ترقیاتی پروجیکٹ کے ذریعے پاکستان کے مواصلاتی نظام بالخصوص ریلوے‘ شاہراہوں کی تعمیر اور انرجی کے شعبے میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ اگرچہ بنیادی طور پر (سی پیک) پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ہے لیکن برطانیہ کو بھی اس میں اہم مواقع دیے گئے ہیں تاہم یوکے کو امریکہ کے ساتھ سٹرٹیجک الائنس کے پیش نظر سی پیک کے حوالے سے اپنی خارجہ پالیسی میں توازن قائم کرنا ہوگا کیونکہ امریکہ جنوبی ایشیا میں چینی بڑھتے اثر ورسوخ سے خائف ہے۔
گزشتہ کچھ برسوں سے ماحولیاتی بحران اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات دونوں ممالک کے تعلقات پر بھی مرتب ہوئے ہیں اور یقینا دونوں ہی اس سے نبردآزما ہیں۔ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جو بدترین موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔ پاکستان سیلاب‘ بارشیں‘ طوفان‘ قحط سالی اور غذائی قلت سمیت معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کی آفات کے لیے آٹھواں سب سے زیادہ خطرے کا شکار ملک ہے۔ برطانیہ پاکستان کی موسمیاتی بحران کے خلاف جنگ میں بہتر ین پارٹنر ثابت ہوا ہے۔ برطانیہ نے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ترقیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ اس کے ساتھ برطانیہ کلیدی نظام کی اصلاحات‘ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ردعمل‘ میکرو اکنامک استحکام اور آب و ہوا کے لیے لچکدار بحالی کی حمایت کر رہا ہے جو کلائمیٹ فنانس تک رسائی اور نظام میں اصلاحات پر کثیر جہتی نظام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
یورپ میں آباد پاکستانی کمیونٹی کی سب سے بڑی تعداد بر طانیہ میں آباد ہے‘ جن کی تعداد 16 لاکھ سے زائد ہے۔ اس کمیونٹی نے پاک برطانیہ تعلقات کو مزید تقویت دی ہے۔ یہ تارکین وطن برطانیہ کی سیاست‘ معیشت اور ثقافت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں پاکستانی نژاد اراکین کی تعداد 15 ہونا دو طرفہ بہتر وپائیدار تعلقات کی اعلیٰ مثال ہے۔ پاکستانیوں کے برطانیہ ہجرت کرنے کا بڑا سبب تعلیم‘ روزگار اور اعلیٰ معیارِ زندگی ہے۔ برطانوی ہوم ڈیپارٹمنٹ کے مطابق 2023ء میں پاکستان برطانیہ میں ویزا اپلائی کرنے والوں پہلے پانچ ملکوں میں شامل تھا۔ برطانیہ میں سکونت اختیار کرنے والے ہم وطنوں میں ماہرین اور پروفیشنلز کی بڑی تعداد شامل ہے جن کا برطانوی معاشی انجینئرنگ‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی میں بڑا حصہ ہے۔2022ء میں 8500 طالب علموں نے بر طانوی تعلیمی اداروں میں ایڈمیشن لیا۔ سالانہ بنیادوں پر برطانوی تارکینِ وطن ایک بلین پائونڈز پاکستان بھیجتے ہیں۔ برطانیہ کی نئی حکومت بھی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کے فروغ میں گہری دلچسپی رکھتی ہے اور اس کیلئے برطانوی وزیراعظم کی قیادت میں کامن ویلتھ ممبرز ممالک‘ بالخصوص پاکستان کے ساتھ معاشی شعبوں میں اس رشتے کو مزید مضبوط ومستحکم بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ نئی حکومت گرین انرجی‘ گلوبل ٹریڈ اور سفارتی تعلقات میں پاکستان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے معاہدوں میں توسیع چاہتی ہے۔ تاہم نئی برطانوی حکومت پاکستان سمیت دیگر دولت مشترکہ ممبرز ممالک میں سرمایہ کاری کا عندیہ خوش آئند بات ہے۔ بلاشبہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت دونوں ملکوں کو آگے بڑھنے کے وسیع مواقع میسر ہوں گے۔ اس میں شک نہیں کہ فوجی اور دفاعی تعاون دونوں ملکوں کے تعلقات کا مرکز اور بنیاد رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں جغرافیائی سٹرٹیجک کی بدولت پاکستان کے ساتھ برطانیہ نے نہ صرف پارٹنرشپ پر زور دیا بلکہ مشترکہ ملٹری ٹریننگ‘ انٹیلی جنس شیئرنگ اور انسدادِ دہشت گری کارروائیوں اور پاکستان کے امن واستحکام میں برطانیہ کا اہم کردارہے۔ ادھر پاکستانی حکومت کو بھی تعلقات کو مزید مضبوط ومستحکم کرنے کا سنہری موقع ملا ہے۔ بے شک آنے والے برسوں میں دونوں ملک علاقائی استحکام‘ گورننس اور تعمیر وترقی کیلئے باہمی تعلقات کو مزید آگے بڑھانے کیلئے پُرعزم ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں