شنگھائی تعاون تنظیم کا 23واں سربراہی اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں منعقد ہوا اور علاقائی یکجہتی‘ سلامتی اور خوشحالی کیساتھ ساتھ پاکستان کی کامیاب سفارتکاری اور ترقی کے ثمرات سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوا۔ اس اجلاس سے اسلام آباد نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ جنوبی ایشیا کے سفارتی حب کا درجہ رکھتا ہے۔ بلاشبہ اس اجلاس کی میزبانی کر کے پاکستان نے نہ صرف خطے میں اپنی سٹرٹیجک اہمیت کو دوبارہ تسلیم کرایا بلکہ علاقائی خوشحالی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ یقینا اس کے اثرات مستقبل میں پاکستان اور خطے پر زیادہ گہرے ہوں گے اور یہ کہ پاکستان اس کامیاب اجلاس کے انعقاد سے عالمی تنہائی کا تاثر زائل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ داخلی سلامتی کے مسائل‘ مالی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے باوجود شنگھائی سمٹ کا تاریخی انعقاد اور عالمی رہنمائوں کی سکیورٹی کو یقینی بنانا پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ یہاں ہونے والی بات چیت اور فیصلے ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان تعلقات میں اضافے‘ معاشی‘ سکیورٹی اور ثقافتی تبادلے کے شعبوں میں تعاون کو آگے لے جائیں گے۔ سمٹ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والی دو ریاستوں چین اور روس کے وزرائے اعظم سمیت نو ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ ان کے علاوہ بھارتی وزیر خارجہ‘ ایران کے وزیر تجارت اور بطور مبصر ترکمانستان کے وزیر خارجہ نے بھی اجلاس میں اپنے ملک کی نمائندگی کی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ 11 سال بعد چینی وزیراعظم کی پاکستان آمد ہوئی اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی شرکت سے آئندہ دنوں میں خطے میں تنائو میں کمی کی توقع ہے۔ روس اور چین کے وزرائے اعظم کی شرکت تجارت‘ سکیورٹی اور ثقافتی تبادلے میں اہم سنگِ میل ثابت ہو گی۔
ایس سی او اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں بڑے پیمانے پر معاشی‘ سیاسی اور سکیورٹی تعاون پر زور دیا گیا اور تمام ممالک نے پاکستانی حکومت اور ریاستی اداروں کی جانب سے ایونٹ کی تیاری اور ایس سی او سربراہی اجلاس کی میزبانی کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سراہا۔ پاکستان نے سکیورٹی‘ معاشی اور ثقافتی تبادلوں پر تعمیری مباحثوں کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے کی جانے والی متعدد تدابیر سے بطور میزبان خطے میں اپنے آپ کو منوایا اور اس معتبر عالمی ایونٹ کی میزبانی وطن عزیز کی مینجمنٹ صلاحیتوں کی تصدیق کرتی ہے۔ اس اجلاس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان نے کاروبار کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں اور جنوبی ایشیا کے مستقبل میں کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت تین ارب سے زائد لوگوں کی وسیع مارکیٹ تک رسائی فراہم کرتی ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات میں اضافے کی بھی توقع ہے۔ پاکستان 2005 ء سے 2017ء تک اس تنظیم کا مبصر رکن رہا‘ جولائی 2017ء میں اسے باضابطہ طور پر ایس سی او میں شامل کیا گیا۔ اس تنظیم کا آغاز ایک یوریشیائی سکیورٹی تنظیم کے طور پر ہوا تھا جس کا مقصد روس‘ چین اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان سکیورٹی اور استحکام کو فروغ دینا تھا۔ 2017 ء میں پاکستان اور بھارت کی مکمل رکنیت اور ایران کی مبصر کی حیثیت سے شمولیت کے بعد اس تنظیم نے اپنے دائرۂ کار کو وسیع کیا۔ گزشتہ برس ایران کو بھی تنظیم کی باقاعدہ رکنیت دے دی گئی۔ اب ایس سی او کی توجہ دہشت گردی‘ انتہا پسندی‘ منشیات سمگلنگ کی روک تھام اور بنیاد پرستی جیسے مشترکہ مسائل پر مرکوز ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم چین‘ روس‘ پاکستان اور بھارت جیسے نیوکلیئر ممالک کے سبب ایک انتہائی اہم اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا علاقائی اتحاد ہے۔ اگرچہ اس کا ڈھانچہ نیٹو سے مختلف ہے اور فوجی صلاحیت بھی محدود ہے لیکن اس تنظیم کا قیام ازخود ایک مثبت قدم ہے۔چار نیوکلیائی ریاستوں کے علاوہ اس کے دیگر رکن ملکوں میں قازقستان‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ کرغزستان‘ بیلاروس اور ایران شامل ہیں۔ موجودہ ایس سی او اجلاس میں درج ذیل شعبوں پر توجہ دی گئی:
مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور معیشتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا‘ خطے کو محفوظ بنانے کیلئے کام کرنا‘ ایک متبادل اقتصادی نظام کا قیام‘ بے جا عالمی پابندیوں کی مخالفت وغیرہ۔ حالیہ سمٹ کے انعقاد کا ایک مقصد رکن ممالک کے مابین کاروباری تعاون کا فروغ تھا۔ یہ تجارتی تبادلے کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے اور ممکنہ متبادل پر غور کرنے کا پلیٹ فارم تھا تاکہ علاقے کی معیشت کو ایک نئے درجے پر پہنچانے میں مدد مل سکے۔ دوسرے نمبر پر سکیورٹی امور پر توجہ مرکوز کی گئی جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ خطے کو مزید مستحکم کرنے کیلئے بحث ومباحثہ سمیت ممبر ملکوں کے دفاع کی مضبوطی اور ایک دوسرے کے مختلف کلچر وثقافت کو سمجھنے اور تبادلے پر زور دیا گیا۔ آنے والے سالوں کیلئے ریاستوں کے درمیان خوشگوار تعلقات‘مزید بات چیت اور فیصلوں کیلئے بھی یہ اجلاس ایک اہم پیشرفت ہے‘ جو اقتصادی تعاون میں اضافے‘ امن و سلامتی اور خطے میں ثقافتی اقدار کو بڑھانے کی اہم کوشش ہے۔اس سمٹ کی سب سے خوش آئند بات یہ تھی کہ ممبر ملکوں کے سربراہانِ حکومت نے بھرپور شرکت کر کے علاقائی یکجہتی کا ثبوت دیا اور واضح کیا کہ ایس سی اور اس علاقے میں ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہونے کا بہترین ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ اس کامیاب اجلاس سے دنیا نے یہ بھی جان لیا کہ پاکستان کی سفارتکاری کے لحاظ سے کیا اہمیت ہے اور یہ کہ پاکستان اعلیٰ سطحی انٹرنیشنل ایونٹ کی میزبانی نہایت خوش اسلوبی اور بہتر انداز سے کر سکتا ہے۔ بلاشبہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ایک خاص سٹرٹیجک اہمیت رکھتی ہے اور یہ جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے مابین ٹرانزٹ ٹریڈ کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ یہ پوزیشن پاکستان کو خطوں کے مابین سامان‘ توانائی اور لوگوں کی نقل و حرکت میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہے۔
پاکستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ یورو ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے تجارتی و سفارتی روابط کو وسعت دے۔ جب دنیا میں تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے اور براعظموں میں متعدد تنازعات سر اٹھا رہے ہیں‘ ایسے میں شنگھائی تعاون تنظیم رکن ممالک کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایک ساتھ مل کر اپنے عوام کے مفادات کی خاطر مشترکہ اہداف کے لیے کام کریں۔پاکستان نے تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہمسایہ ملکوں بالخصوص چین اور روس سے تعلقات میں توسیع اوربھارت کے ساتھ تنائو میں کمی سمیت سینٹرل ایشین ملکوں سے مستحکم تعلقات کے فروغ کے لیے کام کیا۔شنگھائی تعاون تنظیم کی شاندار میزبانی نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان علاقائی مسائل کے حل کیلئے مصالحتی کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اور سفارت کاری کی قوت سے ایس سی او کے فریم ورک میں ایک نیا ریجنل تعاون تشکیل دے سکتا ہے جو تمام رکن ملکوں کے لیے فائدہ مند ہو۔اس سمٹ میں علاقائی ہم آہنگی و روابط کے فروغ پر بھی زور دیا گیا جبکہ ممبر ملکوں کے درمیان نہ صرف معاشی اتفاق پیدا ہوا بلکہ دفاع‘ سکیورٹی‘ ثقافت اور دیگر امور پر تعاون بڑھا۔پاکستان کے لیے اس سمٹ کی کامیابی عالمی سطح پر ایک بڑی کامیابی ہے۔ جس نے بزنس‘ تجارت‘ اکنامک تعاون کو بڑھانے اور سفارتی برادری کا ایک فعال رکن بننے کے نئے مواقع فراہم کیے ہیں۔یہ اجلاس پاکستان کو علاقائی معیشت میں اپنی شرکت کو مضبوط بنانے اور ایشیا کے مستقبل کے لیے ایک متفقہ وژن کی وکالت کرنے میں نمایاں کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔بلاشبہ شنگھائی تعاون تنظیم کا مستقبل امید افزا ہے مگر ضروری ہے کہ رکن ممالک اقتصادی ترقی‘ علاقائی امن اور باہمی تعاون ک لیے اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ مقاصد پر توجہ مرکوز کریں۔