ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر انتخابی معرکہ جیت لیا ہے اور وہ امریکہ کے 47ویں صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو 301الیکٹورل ووٹ پڑے جبکہ ان کی حریف کملا ہیرس 226الیکٹورل ووٹ حاصل کر سکیں۔ صدارتی امیدوار کو جیت کے لیے 538میں سے 270الیکٹورل ووٹ درکار تھے۔ امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات میں ساڑھے 16کروڑ ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ لگ بھگ سات کروڑ سے زائد ووٹرز قبل از وقت ہونے والی پوسٹل ووٹنگ میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر چکے تھے۔ امریکی تاریخ میں اس سے قبل صرف ایک شخص دو الگ الگ مدتوں کے لیے صدارت کے عہدے پر فائز ہوا۔ وہ تھے ڈیموکریٹک پارٹی سے منسلک گروور کلیو لینڈ‘ جنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں متعدد بحرانوں پر قابو پایا۔ اپنے پہلے الیکشن میں انہوں نے ریپبلکن امیدوار جیمز بلین کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ مجموعی طور پر تین بار صدارتی انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں اور دو بار کامیاب ہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ میں واحد شخص ہیں جو دونوں بار خواتین امیدواروں کو شکست دے کر صدارت کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہی بار ڈیموکریٹک پارٹی کے مرد امیدوار جوبائیڈن کے خلاف الیکشن لڑا اور ہار گئے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے وکٹری سپیچ میں دنیا سے جنگیں ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس سپیچ میں ان کا مزید کہنا تھا کہ آج ہم نے تاریخ رقم کی ہے‘ امریکہ نئی بلندیوں پر پہنچے گا اور ہم ملک کے تمام معاملات ٹھیک کردیں گے۔ امریکہ میں سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ ہم بارڈر سیل کریں گے‘ غیرقانونی تارکینِ وطن کی آمد روکیں گے۔ نئے امریکی صدر کی تقریبِ حلف برداری 20جنوری 2025ء کو واشنگٹن میں ہو گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا میں جاری جنگوں کے خاتمے کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ غزہ‘ لبنان اور شام میں امن یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کو لگام ڈال سکیں گے؟ اسرائیلی جارحیت غزہ اور لبنان سے بڑھ کر ایران تک جا پہنچی ہے۔ فلسطین میں گزشتہ13ماہ کے دوران 42 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیاجا چکا ہے۔ فلسطینی بچوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ ہسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم کی وجہ سے بے بس و لاچار خواتین کے لیے زندگی مشکل ترین ہو گئی ہے۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ اس جنگ کو ختم کر سکیں گے یا نہیں‘ کیونکہ امریکہ تو انسانیت کے اس قتلِ عام میں اسرائیل کا سب سے بڑا حامی ہے۔ 2017ء میں‘ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں امریکی انتظامیہ نے اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم کی کھلی حمایت کرتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا اور وہاں امریکی سفارت خانہ منتقل کر دیا تھا۔ 2019ء میں فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرکے آباد کی جانے والی یہودی بستیوں کو قانونی ہونے کا جواز فراہم کیا تھا۔ 2019ء میں ہی امریکہ نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کیا‘ جنہیں اسرائیل نے 1967ء میں شام سے چھین لیا تھا۔ 2020ء میں سنچری ڈیل‘ یعنی ڈیتھ ڈیل کے تحت اسرائیل کو فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں زیادہ سے زیادہ خودمختاری دینے کی تجویز پیش کی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ اب امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر چڑھائی کر دے۔ ٹرمپ کے گزشتہ دورِ اقتدار میں ایران کی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ‘ جس نے خطے کو مزید کشیدگی میں دھکیل دیا تھا‘ یہ قتل ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کو واضح کرتا ہے۔ اس لیے ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد امریکہ ایران کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ہمارے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے پاک امریکہ تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے معاشی‘ سیاسی اور دفاعی تعلقات کی نوعیت کیا ہو گی؟ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں امریکہ کی جانب سے پاکستان سے ''ڈو مور‘‘ کا مطالبہ برقرار رہا۔ جنوری 2018ء میں ٹرمپ نے پاکستان کی امداد یہ کہہ کر بند کر دی تھی کہ امریکہ نے15برسوں میں پاکستان کو 33ارب ڈالر کی امداد دی لیکن بدلے میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ امریکی انتظامیہ نے تب یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ پاکستان کے قبائلی اضلاع میں حقانی نیٹ ورک کافی مضبوط ہے جو وہاں سے افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر حملوں میں ملوث ہیں۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔ خیال رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو افغانستان میں سخت مزاحمت کا سامنا تھا اور امریکی حکومت پر افغان جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے 2018ء کے اواخر میں افغانستان سے فوجی انخلا کی حکمتِ عملی پر کام شروع کر دیا تھا۔ زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں اپنا خصوصی سفیر مقرر کرکے امریکہ نے افغان امن عمل شروع کیا جس کو کامیاب بنانے کے لیے امریکہ کو پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس لیے ٹرمپ نے دسمبر 2018ء میں اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھ کر افغان امن عمل میں مدد پاکستان سے مدد مانگی۔ زلمے خلیل زاد نے کئی بار طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کی مدد کا کھل کر اعتراف بھی کیا۔ پھر جولائی 2019ء میں عمران خان کی وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوئی۔ بعد ازاں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس اور ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر بھی دونوں رہنماؤں کی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس دوران ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے آٹھ کروڑ ڈالر کی امداد دی‘ تاہم افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان کی فوجی و سول امداد مسلسل کم ہوتی رہی۔ 2023ء تک یہ امداد کم ہو کر محض 17کروڑ ڈالر رہ گئی۔ لیکن اس دوران امریکہ نے کشمیر کے معاملے میں ثالثی کی آڑ میں بھارت کو کشمیر ہڑپ کرنے کی کھلی چھٹی دے دی۔ واضح رہے کہ امریکہ میں کسی بھی جماعت کی حکومت ہو‘ کوئی بھی صدارت کے منصب پر فائز ہو‘ واشنگٹن کی توجہ ہمیشہ اس بات پر مرکوز ہو گی کہ خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کوکم کرنے اور جنوبی ایشیا میں بھارت کو طاقتور بنانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے اور پاکستان پر ڈومور کا مطالبہ کرکے کس طرح مزید دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان پر بھارت کو ترجیح دی ہے اور افغانستان میں اس کے اثر ورسوخ کو بڑھایا ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ نے جیت کے فوری بعد نریندر مودی سے ٹیلی فونک بات چیت میں 2025ء میں بھارت کے دورے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
اس بار لیکن ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں چین کے ساتھ ٹکراؤ پر مبنی نہیں ہوں گی‘ کیونکہ چین اس وقت روس کا بڑا اتحادی ہے۔ دوسری طرف ایران کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بہتری کی گنجائش بھی کم ہے۔ اس تناظر میں یہ سوچنا بھی حماقت ہو گی کہ امریکی حکومت کی جانب سے پاک ایران گیس پائپ لائن پر کوئی نرمی برتی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں ایک طبقے کا خیال ہے کہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے پاکستان میں کوئی سیاسی تبدیلی آ سکتی ہے‘ یا کسی شخص یا سیاسی جماعت کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ لیکن زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو ایسا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ موجودہ عالمی منظر نامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے لیے بھی اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا ناگزیر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک پاک امریکہ تعلقات کی کیا اہمیت ہے‘ آئندہ چند ہفتوں میں اس حوالے سے صورتحال واضح ہو جائے گی۔