پوری دنیا کی نگاہیں امریکہ کے 60ویں صدارتی الیکشن پر مرکوز ہیں۔ دنیا یہ جاننے کے لیے بے تاب ہے کہ وائٹ ہاؤس کا اگلا مکین کون ہو گا؟ امریکہ کے صدارتی انتخابات اس لیے بھی خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ یہ دیگر ملکوں کی خارجہ پالیسیوں پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس بار یہ مقابلہ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوارکملا ہیرس‘ جو اس وقت امریکی نائب صدر بھی ہیں‘ اور ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہے‘ جن کے حامیوں نے 2020ء کے صدارتی انتخابات ہارنے کے بعد چھ جنوری 2021ء کو کیپٹل ہل پر دھاوا بول دیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر 2020ء کے انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کی کوششوں سمیت دیگر کئی مقدمات میں فرد جرم بھی عائد ہو چکی ہے۔ ان مقدمات میں ان کو جیل بھی ہو سکتی تھی لیکن امریکی سپریم کورٹ نے یہ رائے دی کہ امریکی صدور کو قید سے استثنا حاصل ہے۔
نئے امریکی صدر کا انتخاب عالمی سیاست سمیت غزہ‘ لبنان اور یوکرین کی صورتحال پر بھی اثر انداز ہو گا۔ دیکھا جائے تو غزہ اور یوکرین کے حوالے سے متضاد رویہ اپنا کر امریکہ اپنی اخلاقی حیثیت کھو رہا ہے۔ وہ یوکرین میں روسی اقدامات کی مذمت کرتا ہے لیکن غزہ میں ہونے والے مظالم کو اسرائیل کا دفاعی حق قرار دیتا ہے‘ تاہم دونوں صدارتی امیدوارں کی خارجہ پالیسی میں واضح تضاد ہے۔ کملا ہیرس کی خارجہ پالیسی ممکنہ طور پر جوبائیڈن کی خارجہ پالیسیوں کا ہی تسلسل ہو گی۔ ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس صدر منتخب ہونے کی صورت میں اسرائیل کو مکمل امریکی فوجی امداد کی فراہمی کی حامی ہیں۔ وہ ایران پر معاشی پابندیوں میں اضافے کی خواہاں ہیں تاکہ اسرائیل کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں کوئی خطرہ نہ رہے۔ یوکرین روس جنگ میں یوکرین کی حمایت اور روس پر پابندیاں ان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہوں گی۔ کملا ہیریس جنوبی چینی سمندر‘ جو شمال مشرقی ایشیا کا اہم ٹریڈ روٹ ہے‘ میں امریکی فوج کی موجودگی اور اس کے اتحادیوں کی مضبوطی کی خواہاں ہیں۔ چین جنوبی چینی سمندر کی ملکیت کا دعویدار ہے اور وہاں اس کی میزائل بیس بھی ہے‘ دوسری طرف تائیوان‘ ویتنام اور فلپائن اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کملا ہیرس کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی چینی سمندر میں امریکی فوج میں کمی کے ساتھ چین کے ساتھ مذاکرات کے خواہاں ہیں۔ لیکن کیا ڈونلڈ ٹرمپ کملا ہیرس کے برعکس اسرائیل کی مالی امداد میں کمی یا غزہ میں فوری جنگ بندی کرائیں گے؟ ڈونلڈ ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ ''اب وقت آگیا ہے کہ ہم امن کی طرف لوٹیں اور لوگوں کو مارنا بند کریں‘‘ لیکن دوسری جانب وہ نیتن یاہو سے کہہ چکے ہیں کہ ''جو کرنا ہے کرو‘‘۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ امریکی صدر کا صرف چہرہ بدلتا ہے‘ پالیسیاں نہیں۔
پانچ نومبر‘ بروز منگل کو ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن میں کامیاب ہونے والا امیدوار 20جنوری 2025ء سے آئندہ چار سال تک امریکی صدر کے فرائض سر انجام دے گا۔ امریکی صدر کا انتخاب بلاواسطہ ہوتا ہے۔امریکی شہری پہلے اپنی اپنی ریاستوں میں اپنے ریاستی نمائندوں کو چنیں گے‘ اور پھر یہ نمائندے‘ جنہیں الیکٹورل کالج کہا جاتا ہے‘ صدر کا انتخاب کریں گے۔ الیکٹورل کالج میں کل 538 ووٹ ہوتے ہیں۔ اس میں ایوان نمائندگان کے 435 ممبران‘ ایک سو سینیٹرز اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے تین ارکان شامل ہوتے ہیں۔ صدارتی الیکشن میں کامیابی کے لیے کسی امیدوار کا 270 الیکٹورل ووٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔اگر صدارتی امیدوار سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو اس صورت میں امریکہ کے ایوان نمائندگان خصوصی ووٹ کے ذریعہ فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی طرح نائب صدر کا فیصلہ امریکی سینیٹ کے ارکان بذریعہ ووٹ کرتے ہیں۔ الیکٹورل کالج کے ووٹ ریاستوں کی آبادی کے مطابق تقسیم کیے جاتے ہیں اور یہ سسٹم قومی سطح پر نہیں بلکہ ریاستی سطح پر کام کرتا ہے۔الیکٹورل کالج کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک امیدوار عوامی ووٹوں میں ہارنے کے باوجود صدارتی الیکشن جیت سکتا ہے۔ 2016 ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کلنٹن کو الیکٹورل ووٹوں میں شکست دی تھی جبکہ کلنٹن کو عوامی ووٹوں میں تقریباً تین ملین کی برتری حاصل تھی۔ اس سے پہلے 2000 ء میں جارج بش نے ال گور کو اسی طرح شکست دی تھی۔امریکہ کی سات ریاستوں ایریزونا‘ جارجیا‘ مشی گن‘ نیواڈا‘ شمالی کیرولائنا‘ پینسلوینیا اور وسکونسن کے پاس وائٹ ہاؤس کی چابیاں ہیں۔ ان ریاستوں کو ''سوئنگ سٹیٹس‘‘، ''ٹاس اَپ سٹیٹس‘‘ یا ''پرپل سٹیٹس‘‘ بھی کہتے ہیں۔
مختلف عوامی جائزوں کے مطابق اس الیکشن میں پچھلے 40برسوں کے بعد کانٹے دار مقابلہ ہونے والا ہے۔ پری پول سروے کے مطابق کملاہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کو 48‘ 48فیصد ووٹ ملتے نظر آرہے ہیں۔ 2016ء میں ٹرمپ اپنی پہلی کوشش میں ڈیموکریٹ حریف ہیلری کلنٹن کو مات دے کر صدر منتخب ہوئے تھے لیکن 2020ء میں انہیں جوبائیڈن کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر کملا ہیرس یہ الیکشن جیت جاتی ہیں تو انہیں نہ صرف امریکہ کی پہلی خاتون صدر بلکہ پہلی غیر سفید فام خاتون صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہو جائے گا۔ اس بار وائٹ ہاوس پر قبضے کی جنگ بے حد دلچسپ رہے گی۔ ٹویٹر؍ایکس اور سٹار لنک کے مالک ایلون مسک ٹرمپ پر ملینز ڈالر صرف کر رہے ہیں تو گوگل نے کملا ہیرس کی الیکشن کمپین میں پیسہ لگایا ہوا ہے۔ ٹرمپ اپنے پہلے دورِ اقتدار میں Make America Great Again کے نعرے کے سہارے اقتدار میں آئے تھے‘ لیکن انہوں نے اپنے بیانات اور اقدامات سے امریکی معاشرے میں منافرت‘ نسل پرستی اور تعصبات کو بڑھاوا دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ ہار گئے تو کیا انتخابی نتائج کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیں گے یا Bad Loserکی طرح ایک بار پھر انتخابی نتائج کو چیلنج کریں گے؟اگر ایسا ہوا تو امریکہ میں نئے سیاسی تنازعات جنم لیں گے جو پُر تشدد صورت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ اور ان کے حامی آج تک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ 2020ء میں الیکشن ہارے نہیں تھے بلکہ انہیں دھاندلی سے ہرایا گیا ۔ ٹرمپ نے اس الیکشن میں کامیابی کی صورت میں دیگر ممالک سے درآمدات پر 10فیصد اور چین سے درآمدات پر 60 فیصد ٹیرف لگانے کا عندیہ دیا ہے۔ ایران کے حوالے سے ٹرمپ سخت پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اپنے گزشتہ دورِ اقتدار میں بھی ٹرمپ نے ایران کے حوالے سے یہی پالیسی اختیار کی تھی جس کے سنگین نتائج برآمد ہوئے۔ ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں ایران کی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی جس نے خطے کو کشیدگی میں دھکیل دیا۔ اس اقدام کو ایران آج تک نہیں بھولا ۔ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کی صورت میں امریکہ ایران کشیدگی میں اضافے کا خدشہ ہے۔
ٹرمپ کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی کی بات کریں تو 2019ء میں ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کی غیرقانونی یہودی بستیوں کو قانونی ہونے کا جواز فراہم کیا گیا۔ 2017ء میں اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم کی کھل کر حمایت کی تھی‘یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ وہاں منتقل کر دیا ۔ 2019 ء میں اس نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کیا ‘ جسے اسرائیل نے 1967 ء میں شام سے چھینا تھا۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر کے حوالے سے امریکہ بھارتی مؤقف کا حامی رہا ہے۔ اس لیے بادی النظر میں یہی دکھائی دے رہا ہے کہ کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ میں سے جو بھی نیا امریکی صدر منتخب ہو‘ دنیا میں جنگوں اور تنازعات کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ موجودہ بدلتے عالمی منظر نامے کے پیشِ نظر پاکستان کے لیے بھی اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینا ناگزیر ہو چکا ہے ۔