غالب نے بات ختم کر دی یہ کہہ کرکہ ''میری قسمت میں غم گر اتنا تھا؍ دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے‘‘۔ پاکستان کی تاریخ میں اگر غم ہی لکھے جانے تھے تو غم بھلانے کا بھی معقول انتظام ہونا چاہیے تھا۔ لیکن یہاں عجیب ماجرا ہے کہ غم کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے اور ساتھ ہی غم بھلانے کے خلاف اعلانِ جنگ قانون کا اہم ستون ہے۔ ایسے میں سر چکرا نہ جائے تو اور کیا ہو۔ یہ فیصلہ تو تاریخ تقریباً صادر کر چکی ہے کہ ہم سے کوئی ڈھنگ کا کام ہونا نہیں۔ اجتماعی طور پر یہ بھی ثابت ہو چکا کہ مملکت کو صحیح خطوط پر استوارکرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ جب اتنا کچھ طے ہو چکا ہے تو کم از کم اتنی گنجائش تو پیدا ہونی چاہیے کہ کسی ٹھکانے‘ کسی خانقاہ کے آستانے‘ کسی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر انسان آسمان کو دیکھے اور غم بھلانے کا کچھ سامان مہیا ہو۔ لیکن حکیمانِ ملت کی صلاحیتیں ملاحظہ ہوں کہ نہ کھیل سکتے ہیں نہ کھیلنے دیتے ہیں‘ خود سے کام ٹھیک نہیں ہوتا اور اوپر سے یہ اصرار کہ وعظ و نصیحت پر ہی تکیہ کرنا ہے۔ قوم تو پھر کہیں کی نہ رہی‘ فیض احمد فیض کے عاشق کی مانند نہ پوری طرح عشق کرسکے نہ کام کے تقاضوں پر پورا اُترے۔ اور آخر تنگ آکر دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔
مملکت کی داستانِ حسرت کا ذکر کرتے کرتے انگلیاں فِگار اور زبانیں تھک چکی ہیں۔ حالات کا خراب ہونا اتنی انوکھی بات نہیں‘ قومیں بدحال ہوتی رہتی ہیں لیکن یہ ہمارا ہی خاصا ہے کہ نکمے پن کے ساتھ ساتھ ہم اس بات پر مُصر ہیں کہ پوری قوم پر بوریت کی کیفیت طاری کرنی ہے۔ دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جن کے حالات شاید ہم سے بدتر ہوں لیکن وہاں کے لوگ ہنستے کھیلتے ہیں‘ موقع کوئی آئے تو رنگ رلیاں مناتے ہیں۔ ہماری حالت یہ ہے کہ خراب حالات کے ہوتے ہوئے قوم کے چہرے اُترے ہوئے ہیں۔ مایوسی آنکھوں سے جھلکتی ہے‘ جس کسی کا بس چلے یہاں سے بھاگنے کی سوچ رہا ہے۔ یہ عجیب اور منفرد حالت ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خوا مخواہ پارسائی کا ڈھونگ ہم نے رچایا ہوا ہے۔ یہ نہیں کہ یہاں کے صرف بڑے بے ایمان ہیں‘ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو موقع ملے تو چونا لگانے سے باز نہیں آتا۔ جھوٹ‘ فریب اور رشوت ایسی خصوصیات ہیں جو ہمارے خمیر اور مزاج میں رچ بس چکی ہیں۔ سچ پوچھیے ان میں سے کسی چیز پر ذاتی طور پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم تو کہتے ہیں جو ہاتھ کی صفائی دکھا سکتا ہے ضرور ایسا کرے لیکن پارسائی کے نام پر ہم پر تشدد تو نہ کیا جائے۔
یہ المیہ اہلِ ذوق کے تجربے میں ہے کہ کسی اجنبی شہر میں جانا ہو اور غم بھلانے کا خیال آئے تو پورا خوار ہونے کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ غم بھلانا معصوم سی خواہش ہے۔ جیسے تلخیاں اور مصیبتیں انسانی زندگی کا حصہ ہیں‘ غم بھلانے کی خواہش بھی انسانی فطرت کا حصہ ہے۔کسی فرنگی یا بدیشی کو ہم یہ بتلائیں کہ معصوم خواہشات کے حوالے سے یہاں یہ مسائل ہیں تووہ ہنس پڑے۔ لیکن یہاں ایسا ہی ہے‘ چھوٹی سی خواہشات پوری کرنے کیلئے پورا ذلیل ہونا پڑتا ہے اور پھر بھی تمنا پوری ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ اصل مسائل اس معاشرے کے کیا ہیں اورکن خودساختہ مصیبتوں میں ہم نے اپنے آپ کو پھنسایا ہوا ہے۔ موجودہ قومی کیفیت ہم پر کسی نے ٹھونسی نہیں‘ یہ ہماری اجتماعی نالائقی کی پیدا کردہ ہے۔ بہرحال ایک زمانہ تھا جب لاہور کی مخصوص جگہیں ہوا کرتی تھیں جہاں آرام و تفریح کے لوازمات پورے ہو جایا کرتے تھے۔ ہماری اجتماعی منافقت کا اندازہ لگائیے کہ پارسائی کے زور تلے وہ مقامات ختم توکر دیے گئے لیکن اس کے نتیجے میں سامانِ تفریح سارے شہر میں پھیل گیا۔ مفتیانِ مملکت سے پوچھا جائے کہ ظاہری پارسائی اپنی جگہ لیکن جو اقدامات جنرل ضیاالحق مرحوم کے دورسے شروع ہوئے تھے اُن سے حاصل کیا ہوا؟ کیااس ساری جدوجہد سے ہم بہتر قوم ہو گئے‘ معاشرہ بہتر اور صاف ہو گیا؟ ہر قسم کے گند اور غلاظت سے معاشرہ بھر چکا ہے لیکن ظاہری پارسائی سے ہم باز نہیں آتے۔ اصل مرض پاکستان کا یہ ہے‘ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم کہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ستتر سالہ تجربۂ ناکامی کے بعد ہم نے نہ کچھ سیکھا نہ سمجھا ہے۔ وہی بیکار کی باتیں جن کا نہ کوئی سر نہ پیر۔
ہم جیسے گناہگاروں کی قطعاً یہ استدعا نہیں کہ ہم جنوبی کوریا یا جاپان بن جائیں۔ ہماری تو بس اتنی سادہ سی خواہش ہے کہ جس قسم کا پاکستان پارسائی کے بخارسے پہلے تھا وہ کسی طریقے سے واپس آ جائے۔ ظاہر ہے تب آبادی کم تھی‘ اب اُس میں بہت بے ہنگم اضافہ ہو چکا ہے۔ لہٰذا حالات ہوبہو ویسے نہیں ہو سکتے لیکن اجتماعی منافقت میں کچھ کمی آ جائے۔ کچھ خوا مخواہ کی سختیاں کم ہو جائیں۔ چھوٹی سی خواہشات کی تکمیل کیلئے جو ذلالت اور خواری کے سفر طے کرنے پڑتے ہیں وہ ذرا کم ہو جائیں۔ معاشرے میں جو تھانیداری کی روش زیادہ آ چکی ہے اس میں کچھ کمی ہو جائے۔ معاشرے کے طور طریقوں میں کچھ تبدیلی آئے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں بدعنوانی اوربے ایمانی ختم نہیں ہو سکتی نہ ہم کہتے ہیں کہ ختم ہو کیونکہ معلوم ہے کہ ایسا ناممکن ہے لیکن خدا کی زمین پر قدم تو کچھ ہولے پڑیں۔ ایک پارسائی کے نام پر جبراً بوریت‘ پھر مملکت کے معاملات میں فضول کی تھانیداری‘ آپ ہی بتائیے ایسا معاشرہ رہنے کے قابل رہ جاتا ہے؟ یہاں سے پھر لوگ باہر نہ جائیں تو اور کیا کریں؟
لاہور میں کپتانی کی تنخواہ پر تعینات تھے تو جیب میں زیادہ ٹکوں کی کھنک نہ ہوتے ہوئے بھی گزارا چل ہی جاتا تھا۔ صرف یہ نہیں کہ زمانہ سستا تھا بلکہ اُس زمانے کے حالات کچھ شریفانہ تھے۔ سستے میں کام ہو جایا کرتا تھا۔ ایبٹ روڈ پر دس روپے میں مغل شہزادوں کا کھانا مل جاتا تھا۔ مبالغے سے کام لے رہا ہوں لیکن مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ مال پر کئی مقامات تھے جہاں اسبابِ تفریح مہیا ہو جاتے تھے۔ ایک عدد باقاعدہ دکان بھی اُس نہ واپس آنے والے دور میں ہوا کرتی تھی۔ شمالی لاہور کے وہ محلے جو دریائے راوی کے قریب ہیں وہاں جانا بھی گزارے کے دائروں میں رہتا تھا۔ آج بھی وہ چیزیں میسر ہیں لیکن بے حیائی کے داغ اُن پر لگ چکے ہیں۔ یار دوست کہتے ہیں اتنے روتے کیوں ہو‘ پاکستان میں سب کچھ اویلیبل ہے۔ موجود تو ہے لیکن کوئی بتائے تو سہی کس قیمت پر۔ آج کے سنہری پاکستان میں خاطرخواہ گزارا ہے تو سیٹھوں‘ رئیل اسٹیٹ والوں‘ سمگلروں اور اچھی پوسٹوں پر لگے ہوئے سرکاری افسران کا۔ ہمارے عہدِ کپتانی میں جو وقت لاہور سو روپے میں اچھا بھلا گزر جاتا تھا اُس کا آج تخمینہ لگائیں توکم از کم لاکھ پر جا پڑتا ہے۔ ایک پارٹی میں جانا ہوا توموسیقی اوراہلِ ثقافت کے جوش پکڑنے پر صاحبِ خانہ نے پچاس ہزار کی گڈی ہمارے سر پر ایسے کھولی جیسے چَونیاں بانٹ رہے ہوں۔
سارا کچھ ہی ہم نے اجاڑ کے رکھ دیا ہے۔ لوگوں کا باہر جانا تو ایک بات رہی‘ کون سا ورثہ کون سے کارنامے ہیں جن کی طرف اشارہ کر کے ہم کہہ سکیں کہ دیکھیں یہ کچھ ہم نے کیا ہے؟ اور تو اور شمالی لاہور کا وہ خاص محلہ جو ثقافت کے اعتبار سے مشہور تھا اُس کے بیشتر مکینوں نے دبئی کو اپنا مسکن بنا لیا ہے۔ اہلِ ثقافت کے جس ہنرمند سے پوچھیں یا تو دبئی جا رہا ہوتا ہے یا وہاں کچھ وقت لگا کر واپس آ رہا ہوتا ہے۔ یعنی ریلوے تباہ‘ پی آئی اے دیوالیہ‘ سٹیل مل ناکارہ‘ مجموعی معاشی حالت چھنکنے بجانے کی کیفیت تک پہنچی ہوئی اور ثقافت کے چوبارے بھی خالی۔ اور جیسے عرض کیا غم بھلانے کی کوشش بڑے گناہوں میں شامل۔ ایسے معاشرے کو کوئی نارمل کہے گا؟
عجب صورتحال ہے۔ اب تو دل یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاید خرابی ہماری شروعات میں مضمر تھی۔ کن بنیادوں پر ہم نے ریاست بنانی چاہی اورکس بے مزا اور بے ثمرمقام کو ہم آن پہنچے ہیں۔