آگے بڑھنے سے پہلے سات‘ پانچ سالہ منصوبوں پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ پہلا پانچ سالہ منصوبہ 1950ء تا 1955ء کے لیے تھا۔ اس منصوبے کے تحت 1952ء میں پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن قائم کی گئی‘ لیکن یہ منصوبہ اپنے اہداف پورے نہ کر سکا‘ جس کی وجہ یہ تھی کہ اس پلان کے تحت وضع کردہ منصوبوں کے لیے ماہر لیبر دستیاب نہ ہو سکی تھی۔ دوسرا پانچ سالہ منصوبہ 1960ء تا 1965ء کے عرصے کے لیے تھا۔ اس عرصے میں بھی بہت سے مسائل منصوبے کے اہداف پورے کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے جیسے 1960-61ء کی باجوڑ کمپین‘ بلوچستان میں سیاسی افراتفری اور 1965ء کی پاک بھارت جنگ۔ اس کے باوجود 1965ء کے آخر میں یہ خوش خبری ملی کہ قومی معیشت 10.42فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ تیسرا پانچ سالہ پلان 1965ء تا 1970ء کے لیے تھا۔ اس کا ہدف تھا گروتھ ریٹ کو 6.5فیصد تک بڑھانا۔ اس دور میں صنعت کو تو مزید ترقی ملی ہی‘ زراعت پر بھی اضافی توجہ مبذول کی گئی‘ چنانچہ تیسرے پانچ سالہ منصوبے کے اختتام پر جی ڈی پی گروتھ ریٹ 11.35فیصد تھا۔ چوتھا پانچ سالہ منصوبہ 1970ء تا 1975ء کے عرصے کے لیے تھا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ اس منصوبے کا فوکس اقتصادی اداروں کی نیشنلائزیشن تھا۔ بینکنگ سیکٹر‘ بڑی پیداوار والے ادارے اور زراعت‘ سب قومیائے گئے‘ لیکن اس پلان کے دور میں سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آیا جس نے قومی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ پانچ سالہ منصوبوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ جی ڈی پی کے بڑھنے کی شرح پانچ فیصد سے کم رہی‘ 4.21فیصد۔
ایک حادثے میں ضیاالحق کے جاں بحق ہونے کے بعد کا عرصہ سیاسی عدم استحکام‘ سست اقتصادی ترقی اور بار بار سر اٹھانے والے زرِمبادلہ کے بحرانوں کی وجہ سے سیاسی کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل کا بھی دور رہا۔ اگرچہ اس دور میں بھی پانچواں‘ چھٹا اور ساتواں پانچ سالہ منصوبہ اختیار کیا گیا‘ لیکن پاکستان کو تین بار بیل آؤٹ پیکیجز کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ چار منتخب حکومتوں کی یکے بعد دیگرے برطرفی کے بعد اتنی ہی بار ہونے والے انتخابات نے کسی پارٹی یا کسی حکومت کو مضبوط اور واضح مینڈیٹ یا سیاسی استحکام فراہم نہ کیا‘ چنانچہ منتخب حکومتیں سیاسی طور پر کمزور رہیں۔ اس کمزوری کی وجہ سے بھی وہ اپنے اقتصادی ایجنڈے کو عملی شکل نہ دے سکیں۔
بے نظیر بھٹو دسمبر 1988ء میں وزیراعظم منتخب ہوئیں اور اگست 1990ء میں صدر غلام اسحاق خان نے انہیں برطرف کر دیا۔ 1990ء میں ایک اور عام انتخابات کا انعقاد کیا گیا جن کے نتیجے میں نواز شریف وزیراعظم بنے‘ لیکن انہی صدر غلام اسحاق خان نے اپریل 1993ء میں انہیں بھی برطرف کر دیا۔ نواز شریف سیدھے سپریم کورٹ چلے گئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے انہیں اور ان کی حکومت کو بحال کر دیا گیا‘ لیکن یہ بحالی زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر غلام اسحاق خان کے مابین محاذ آرائی وقت کے ساتھ شدت اختیار کر گئی۔ بالآخر اس محاذ آرائی کے نتیجے میں دونوں نے 1993ء میں استعفا دے دیا‘ اور نگران حکومت کے تحت ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم بنیں۔ توقع کی جا رہی تھی کہ ماضی قریب کے تجربات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس حکومت کو چلنے دیا جائے گا‘ لیکن یہ توقع پوری نہ ہو سکی۔ نومبر 1996ء میں بے نظیر بھٹو کے اپنے منتخب کردہ صدر فاروق احمد خان لغاری نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے انہیں برطرف کر دیا۔ 1997ء کے اوائل میں ہونے والے الیکشن کے نتیجے میں نواز شریف دوسری بار بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ توقع قائم ہوئی کہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ وہ ایک مضبوط وزیراعظم ثابت ہوں گے‘ لیکن یہ توقع بھی پوری نہ ہو سکی۔ اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کر دی اور امورِ مملکت اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ جب ایسے غیریقینی حالات ہوں تو معاشی ترقی کا خواب کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟ 1988ء تا 1999ء کے گیارہ سالہ دور میں سیاسی کمزوری ہی معاشی ضعف کا باعث بنی رہی۔ معیشت اس رفتار سے ترقی نہ کر سکی‘ جس رفتار سے اسے ترقی کرنا چاہیے تھی‘ چنانچہ واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ 1988ء کے بعد کے عرصے میں معیشت کی شرح نمو میں تیزی سے کمی واقع ہوئی جبکہ افراطِ زر اور غربت میں اضافہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ منتخب حکومتوں کی معاشی پالیسیوں سے مایوسی نے صدر غلام اسحاق خان کے غیرمعمولی آئینی اختیارات کے استعمال میں اہم کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے بے نظیر اور نواز شریف دونوں معاشی زوال کو روکنے میں ناکام رہے۔ وہ معاشی زوال جو اُن کی حکومتوں کی پالیسیوں سے زیادہ تیزی سے تغیر پذیر حالات کی پیداوار تھا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب قومی معیشت میں میکرو اکنامک عدم توازن بڑھا تھا‘ مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 8.5فیصد کی نئی سطح تک پہنچ گیا تھا اور ادائیگیوں کے توازن میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ ہو گیا تھا۔ دس سال سے زائد عرصہ سرمایہ کاری جمود کا شکار رہی اور سماجی ترقی پر اخراجات میں کمی آئی۔
اس کے بعد پرویز مشرف کا پُرآشوب دور شروع ہوا تو جلد ہی نائن الیون کا سانحہ پیش آ گیا جس کے نتیجے میں پاکستان افغانستان پر حملہ آور امریکہ اور نیٹو کی اتحادی افواج کا فرنٹ لائن اتحادی بن گیا جس کے نتیجے میں اسے مالی اور سماجی نقصان تو بہت ہوا‘ لیکن کچھ معاشی فائدے بھی ملے۔ اس دور میں ملک نے کچھ ترقی کی اور ملک کے اقتصادی حالات میں کچھ بہتری آئی‘ لیکن ساتھ ہی دہشت گردی نے سر ابھارا جس نے سیاست اور معاشرت کے ساتھ ساتھ قومی اقتصادیات کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ 2008ء میں پی پی پی کی حکومت کے دور میں ملک کے اقتصادی معاملات متوسط رہے۔ 2013ء میں قائم ہونے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بھی مالی اور اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور یہی صورتحال پی ٹی آئی کے دور (2018-22ء) میں بھی جاری رہی۔
اب معاملہ یہ تھا کہ ملک‘ عوام کی ترقی پر کچھ تو خرچ کیا جانا تھا۔ کمزور معیشت میں یہ کمی غیرملکی اور عالمی اقتصادی اداروں سے قرضے لے کر پوری کی جاتی رہی۔ چند ماہ پہلے ایک رپورٹ سامنے آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی آئی ایم ایف سے قرض لینے میں سب سے آگے رہی۔ اس نے 2008ء سے 2013ء تک پانچ ارب 23کروڑ ایس ڈی آر یا سات ارب 72 کروڑ 59لاکھ ڈالر سے زائد قرض لیا۔ مسلم لیگ (ن) نے 2013ء سے 2018ء تک کے عرصے میں چار ارب 39 کروڑ ایس ڈی آر یا چھ ارب 48کروڑ ڈالر سے زائد قرض لیا جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے 2018ء سے 2022ء تک کے چار سالوں میں چار ارب پانچ کروڑ سے زائد ایس ڈی آر قرض لیا جو تقریباً چھ ارب ڈالر بنتا ہے۔ وزارتِ اقتصادی امور کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں جمع کروائی گئی دستاویز کے مطابق 2008ء سے 2013ء تک آئی ایم ایف کو تین ارب ڈالر سے زائد قرض واپس کیا گیا جبکہ سود کی مد میں آئی ایم ایف کو 48کروڑ 40 لاکھ ڈالر سے زائد ادائیگیاں کی گئیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 31کروڑ 77 لاکھ ڈالر سے زائد سود ادا کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 2018ء سے 2022ء تک آئی ایم ایف کو 79 کروڑ 11 لاکھ ڈالر سود ادا کیا۔ یاد رہے کہ ایس ڈی آر سے مراد Special Drawing Rights ہے۔ یہ آئی ایم ایف کے ایسے Reserve Assets ہوتے ہیں جو وہ رکن ممالک کی مالی اعانت کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ انٹرنیشنل ریزرو ایسٹس (International Reserve Asset) 1969ء میں قائم کیے گئے تھے۔