یہا ں کے لفڑے ختم ہونے نہیں‘ حالات ایسے ہی چلتے رہیں گے ۔ ہماری کمزور نگاہوں میں یہاں کسی بنگلہ دیش کے آثار دور دور سے نظر نہیں آتے۔ اب تو سپریم کورٹ کے جھمیلوں کے بارے میں پڑھ پڑھ کر تھکن سی ہونے لگی ہے۔ اکثریتی جج اور خاص طور پر جناب منصور علی شاہ کاغذوں کو کالے کیے جا رہے ہیں لیکن قلم کے اس زور کا الیکشن کمیشن پرکوئی فرق پڑ رہا ہے؟ جناب سکندر سلطان راجہ کو پتا ہے کس وکٹ پر کھیل رہے ہیں اور وکٹوں کے پیچھے کون کھڑا ہے۔ اکثریتی جج آئینی زور آزمائی کیے جارہے ہیں اور راجہ صاحب ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔ طاقت کا توازن کیا ہے وہ ہمیں معلوم ہے‘ شطرنج کے کھلاڑی کون ہیں وہ ہم سب جانتے ہیں۔ طاقت کے توازن میں کوئی فرق نہ آیا تو حال دہائی ہوتی رہے گی لیکن بنیادی طور پر حالات جوں کے توں رہیں گے۔
ایسے میں ہم کیا کریں۔ ہم جیسوں کو زیادہ فکر تو یہ ہے کہ ایک توا خبار بینی کم ہو گئی اور دوسری بات یہ کہ ایسی بیوقوفانہ قدغنیں لگ چکی ہیں کہ عام الفاظ کا استعمال مشکل ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر مضمون میں کسی حوالے سے بندوق کا لفظ استعمال کرنا چاہوں تو انگلیوں میں عجیب سی کپکپاہٹ ہونے لگتی ہے۔ یہ جو گاڑی ہوتی ہے جسے عرفِ عام میں ڈالا کہا جاتا ہے‘ یہ لفظ برسبیل تذکرہ کہیں ذہن میں آ جائے تو خیال اُٹھتا ہے اس پر اعتراض نہ ہو جائے۔ مرزا غالب اور متعدد دیگر شعرائے کرام کی جس طرح شامیں گزرتی تھیں ان کا تذکرہ کرنا چاہیں تو ڈر لگنے لگتا ہے کہ فلاں لفظ گراں نہ گزرے۔ مے اور مے خانے کے تذکروں سے اردو اور فارسی شاعری بھری پڑی ہے لیکن صدیوں پہلے جو آزادی حافظ شیرازی یا مرزا غالب کو حاصل تھی ہم آج کے اخبار میں لکھنے والوں کو نہیں۔ اقبال کی شاعری میں کیا مے کے تذکرے کم ہیں؟ لیکن آج زمانے کے شیخ و زاہد ایسے ہیں اور ایسی ذہنوں پر رسیاں انہوں نے باندھ دی ہیں کہ عام چیزوں کا تذکرہ محال ہو گیا ہے۔ ڈر کس چیز کا ہے؟ کہ معاشرے کی اخلاقیات مجروح ہو جائیں گی۔ کیا ہمارے شیخ و زاہد سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی اخلاقی سطح اتنی بلند ہے کہ کسی لفظ کے استعمال سے پَوِتر اور معصوم پاکستانی معاشرے پر کوئی دھبہ لگ جائے گا؟ انگریزی میں لکھتے تو قدرے آسانی ہوتی تھی کیونکہ وہاں وہ حالت نہیں پائی جاتی تھی جو ہماری اپنی بھاشاؤں کے استعمال سے ہے۔ جہاں ہم نے کسی اور چیز کو نہیں بخشا وہاں اپنی بھاشاؤں کا بھی بُرا حال کر دیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں شیخ و زاہد ہمیشہ رہے ہیں لیکن جس انواع و اقسام کے یہاں مملکتِ خداداد میں پیدا ہوئے ہیں ان کی مثال کہیں اور نہیں ملے گی۔
شکایت کسے کی جائے۔ ہماری بڑی جامعات کا ماحول ہی ایسا بن چکا ہے کہ کسی قسم کی آزاد خیالی کا اظہار مشکل ہو گیا ہے۔ کتنی جامعات ہیں‘ اُن کے نام کیا لیں‘ جہاں قلم سے زیادہ ڈنڈے لہرائے جاتے ہیں۔ ہر ایک کوئی اخلاقیات کا ٹھیکیدار بنا ہوا ہے۔ ہماری بڑی درسگاہیں ایسی ہیں جہاں سب سے بڑا مسئلہ آئن سٹائن یا کسی اور کی تھیوریاں نہیں بلکہ یہ ہے کہ کہیں کوئی لڑکا اور لڑکی اکٹھے بیٹھ کر چائے تو نہیں پی رہے؟ ایسا کوئی واقعہ ہو تو پورا ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ صرف ڈنڈے کیا‘ دیگر قسم کے ہتھیار نکل آتے ہیں۔ ایسے ماحول میں کسی نے خاک کسی چیز کا اظہارکرنا ہے۔ اور صرف جامعات نہیں‘ پورے معاشرے کا حال یہ ہو چکا ہے۔ کھل کے بات کرنا تو دور کی بات ہے‘ ایسے موضوعات ہیں جن پر آپ عام سی گفتگو بھی نہیں کر سکتے۔ اب یہ جو عمرکوٹ کا واقعہ ہوا ہے‘ پڑھ کر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ لیکن ملاحظہ تو ہو کہ وحشی پن کے کن پیمانوں پر ہم پہنچ چکے ہیں۔ ایک تو ڈاکٹر شاہ نوازکنبھار کا پولیس کے ہاتھوں قتل اور پھر بپھرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں اُن کی نعش کا جلایا جانا۔ اورجب یہ سارا واقعہ رونما ہورہا تھا وہاں موجود لوگ نعرے لگا رہے تھے جیسے پتا نہیں کس قسطنطنیہ کو فتح کر لیا ہے۔ پاگل پن کی انتہا ہے لیکن ماحول ہی یہاں پر ایسا بن چکا ہے۔ کوئی بات تو کرے‘ منہ سے چند الفاظ ہی نکالے‘ فوراً فتویٰ لگ جائے گا۔ وہ جو بیچاری خاتون لاہور کے اچھرہ بازار میں ایک ایسی قمیض پہنے چل رہی تھی جس پر عربی کے چند الفاظ لکھے ہوئے تھے‘ نعرہ لگ گیا کہ توہین ہو گئی ہے اور آناً فاناً مجمع اکٹھا ہو گیا جسے پولیس کی بروقت مداخلت نے روکا‘ نہیں تو بیچاری خاتون کا حشر وہیں ہو جانا تھا۔
چھوڑیے ان قصوں کو‘ ان کا ذکر چھیڑ کر موڈ خراب کرنے کی بات ہے۔ اگلے روز مشہور کلچرل آرٹسٹ مہک ملک کی ایک پرفارمنس یوٹیوب پر دیکھ رہا تھا۔ شاید کہیں شادی کی تقریب تھی۔ کیا عمدہ پرفارمنس تھی‘ اس وڈیو سے پتا چلا ان کی رہائش سرگودھا میں ہے۔ دل میں اب یہی خیال اٹھتا ہے کہ کہیں سرگودھا کی طرف سفر کریں۔ ہمارے دوست سہیل وڑائچ نے حال ہی میں اپنے ٹی وی پروگرا م میں مہک ملک کا انٹرویو کیا ہے‘ ان سے پوچھیں گے کہ ان کے گھر کا راستہ کون سا ہے۔ ہو سکے تو ان سے تعارفی خط بھی لے لیں۔ اور اس تذکرے سے یاد آیا کہ ایک دفعہ کالم میں مہک ملک کا نام لیا تھا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دوسری صبح دیکھا کہ نام کاٹ دیا گیا ہے۔ یعنی اس پَوِترمعاشرے کی اخلاقیات اتنی نازک ہو چکی ہیں کہ ایک نام لینے سے بھی معصومیت کے دائرے کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ یہاں تک ہم نے اپنے آپ کو پہنچا دیا ہے۔
سیاست پر کھل کر لکھنا ویسے مشکل‘ جنرل ضیا کے سنہری دور کے بعد جو تعزیراتِ پاکستان معاشرے پر عملاً نافذ ہو چکی ہیں‘ ان کے تحت بہت سے عام الفاظ کا استعمال قابلِ مذمت اور ممنوع‘ اعلیٰ عدلیہ کے بے اثر فیصلے پڑھ پڑھ کر ذہنی تھکاوٹ‘ انسان جائے کہاں۔ چوکیدارانِ اخلاقیات سے پوچھا جائے کہ ایسے میں انسان کیا کرے؟ چکوال سے لاہور کو نکلتے ہیں تو ایک اور ڈر لاحق ہو جاتا ہے۔ وہاں جس لَبھے کے پاس آسودگیٔ شب کیلئے جاتے ہیں اس نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ دو نمبری کے علاوہ کچھ نہیں کرنا۔ ہم پوچھتے ہیں نا کہ ہماری قوم کا مسئلہ کیا ہے؟ سب سے بنیادی مسئلہ نہ آئینی ہے نہ سیاسی‘ دو نمبری ہے۔ ہم نے ہر چیز میں دو نمبری کرنی ہے۔ اب تو ایک نمبر کا کام ہم سے ہوتا ہی نہیں‘ جب تک الٹی چیز نہ کریں دل و جان کو سکون نہیں پہنچتا۔ یہی ہمارے لَبھے کا حال ہے‘ جہاں سے دکان چلاتا ہے وہاں اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ یوں کہیے کہ لاہور کی سب سے بحفاظت جگہ ہے۔ پوچھنے کا سوال ہی نہیں بنتا اور وہ حضرت ہیں کہ انہوں نے صحیح کام نہیں کرنا۔ مارے ہم گنہگار جاتے ہیں‘ چلے چکوال سے دل میں یہ ڈر لیے کہ ظلمتِ شب کیسے گزرے گی۔
یہ جو لاہور کے بارے میں پرانی کہاوت ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا پیدا نہیں ہوا‘ یہ گزرے زمانے کی باتیں ہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے‘ لاہور بدل گیا ہے۔ اب دو نمبری کا راج ہے۔ 1971ء کی جنگ میں کپتان تھا جب میری لاہور کے قریب تعیناتی تھی۔ جنگ کے بعد جب جنرل ٹائیگر نیازی کی تاریخی رسم ڈھاکہ کے ریس کورس گراؤنڈ میں مکمل ہو چکی تھی تو سیرسپاٹے یا مستی کیلئے لاہور آتے تو یقین مانیے سو روپے میں ایسی شام گزرتی کہ شہزادوں کی کیفیت ہو جاتی۔ مختلف اشیا کی قیمتیں بتاؤں‘ حیران تو آپ ہوں لیکن ہم غریب پر فتویٰ بھی لگ جائے۔ اچھے دن تھے‘ کچھ لحاظ‘ کچھ رکھ رکھاؤ ہوتا تھا۔ جب ہر چیز سامنے ہو تو دو نمبری کیسی۔ اب ہر طرف پردہ اور پردے کے پیچھے خدا کی پناہ۔