"IAS" (space) message & send to 7575

نمک حرام

معروف کالم نگار جاوید چوہدری صاحب نے ایک بار پھر پنجاب اور پنجابی کو بے جا تنقید کا نشانہ بنا کر بلکہ ایک طرح سے گالی دے کر میری دُکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہے۔ انہوں نے ایک طرح سے ہم زخم خوردہ پنجابیوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے ۔ موصوف چونکہ خود بھی پنجابی ہیں اس لیے اس حرکت پر میں ان کو نمک حرام پنجابی کہنے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں۔ الحمد للہ میں ایک پنجابی ہوں اور مجھے اپنے پنجابی ہونے پر فخر ہے‘ اس لیے میں چوہدری صاحب کی طرف سے پنجاب اور پنجابیوں کو دی جانے والی گالی کا جواب دینے کا استحقاق رکھتا ہوں ‘لیکن میں گالی کا جواب گالی سے نہیں دوں گا بلکہ سب سے پہلے ان سے مطالبہ کروں گا کہ وہ لاعلمی بلکہ کم علمی کے باعث تاریخ سے نابلد ہونے کی وجہ سے پنجاب اور پنجابیوں کے بارے ادا کیے گئے اپنے الفاظ واپس لیں اورپنجابی قوم سے معافی مانگیں۔
بدقسمتی سے تاریخ سے نابلد ہمارے بہت سے نام نہاد'' دانشوروں‘‘ کے ساتھ اہلِ علم نے بھی پنجاب اور پنجابیوں کو گالی دینا ایک فیشن بنا لیا ہے اور بعض حضرات تو ضرورت سے زیادہ منہ کھولنے لگے ہیں۔ مگر انکی بے سروپا تنقید حقائق سے بالکل بھی لگا نہیں کھاتی۔ تاریخ اس بات کی شاہد اور زمانہ گواہ ہے کہ پنجاب نے اپنے نقصان کے باوجود ہمیشہ بڑے پن کا مظاہرہ کیا۔ زیادہ دور نہیں جاتے‘ تقسیم برصغیر کو ہی لے لیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ پنجاب تقسیم ہوا‘ اس میں سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان بھی پنجاب اور اہلِ پنجاب کا ہوا۔9لاکھ کے قریب پنجابی مارے گئے۔ لاکھوں خواتین اور بچیوں کی عزتوں کو پامال کیا گیا۔ پنجاب میں خون کی ندیاں نہیں بلکہ دریا بہائے گئے۔ پنجابیوں نے اپنے خون سے اس دھرتی کو سیراب کیا ہے‘ اور پاکستان کی بنیاد پنجابیوں کی ہڈیوں پر کھڑی ہے۔ اس میں کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے پنجابی پاکستان کے معمار ہیں۔
بھارت کی معروف شاعرہ امرتا پریتم نے بھی اپنی شہرہ آفاق نظم '' اج آکھاں وارث شاہ نوں‘‘ میں تقسیم ہند بلکہ تقسیم پنجاب کے دوران پنجابیوں پر ہونے والے مظالم کا مرثیہ پڑھا۔
اَج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول
تے اَج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی ، توں لکھ لکھ مارے وین
اَج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن
اُٹھ دردمنداں دیا دردیا، اُٹھ ویکھ اپنا پنجاب
اَج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
امرتا پریتم نے یہ نظم 1947ء میں ہونے والے فسادات پر لکھی تھی اور واقعی اس کو پڑھ کر آج بھی انسان بہت اداس ہو جاتا ہے۔ یہ نظم کافی طویل ہے۔ مجھے جتنی یاد تھی لکھ دی۔
تاریخ کو حقائق کی عینک لگا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ قیام پاکستان کے لیے سب سے بڑی قربانی پنجاب اور پنجابیوں نے دی۔ دیکھا جائے تو پاکستان آج بھی پنجابیوں کی قربانیوں کا مقروض ہے۔ شِوکمار بٹالوی نے ٹھیک کہا تھا:
عجیب جیہا ویکھیا پیار تیرے شہر دا
مسیحاوی میں ویکھیا بیمار تیرے شہر دا
ایتھے میری لاش وی ویچ دتی گئی اے
لتھیانہ فیروی اُدھار تیرے شہر دا
گزارش یہ ہے کہ پنجابیوں نے پاکستان میں گند نہیں ڈالا بلکہ حقیقی معنوں میں بڑا صوبہ ہونے کے ناطے بڑے بھائی کا کردار ادا کیا اور چھوٹے صوبوں کے لیے ہمیشہ دامے‘ درمے‘ سخنے ہر طرح کی قربانی دی۔ اگر پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے تو اس کا دل بھی بہت بڑا ہے۔ دیگر صوبوں میں آٹے اور گندم کا مسئلہ ہو یا چاول اور پانی کی ضرورت پڑی تو پنجاب نے اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے سندھی‘ بلوچی اور پختون بھائیوں کی دل کھول کر مدد کی۔ گلگت‘ بلتستان والوں کا بھی خیال رکھا۔ لیکن پنجاب کو اس کی اپنی زمین پر کالا باغ سمیت دیگر ڈیمز بنانے کے لیے دوسرے صوبوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔ پنجاب نے دیگر صوبوں کے بھائیوں کا ہمیشہ خلوصِ دل سے سواگت کیا ہے۔ آپ کو پنجاب میں سندھی بریانی بھی ملے گی‘ بلوچی سجی کے ڈھابے بھی جگہ جگہ قائم ہیں‘ کوئٹہ کی چائے بھی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو رہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا شنواری ریسٹورنٹ بن رہا ہے۔ اس سب کے باوجود گالی پھر بھی پنجاب اور پنجابی کو دی جا رہی ہے۔ صرف گالی ہی نہیں دی جا رہی بلکہ پنجابیوں کی زندگیوں سے بھی کھیلا جا رہا ہے۔
اگر پاکستان میں مقتدرہ کے کردار کو دیکھا جائے تو سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے ملک کے آئین کو پامال کرکے مارشل لا کا گند ڈالا تھا‘ کیا وہ پنجابی تھا؟ اس کے بعد جنرل یحییٰ خان اقتدار پر قابض ہوا اور اس ملک کو دو لخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا‘ کیا وہ بھی پنجابی تھا؟ کیا پاکستان کو دولخت کرنے والیجنرل یحییٰ خان پنجابی تھاـ؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو پنجابی تھے؟ ان کے بعد جنرل ضیا الحق آئے‘ مانا وہ پنجابی تھے لیکن ان کے بعد آنے و الے جنرل پرویز مشرف تو پنجابی نہیں تھے‘ تو پھر بتائیں پاکستان میں گند کس نے ڈالا؟
اسی طرح کبھی پنجابیوں کو بزدل کہہ کر گالی دی جاتی ہے لیکن جب آپ تاریخ پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ پنجاب نے ہندوستان کی جنگِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا‘ ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی پر کوئی ایسی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی جس میں پنجاب کے ان سورمائوں کا سنہری حروف میں ذکر نہ کیا گیا ہو جنہوں نے ملک کی آزادی کی خاطر اپنے سروں کا نذرانہ پیش کیا۔ جان کی قربانیوں کی داستانیں اس قدر رنگین ہیں کہ اگر انہیں خارج کر دیا جائے تو تاریخ کا حسن ماند پڑ جائے گا۔
پنجاب کبھی بھی بیرونی حملہ آوروں کے لیے ترنوالہ ثابت نہیں ہوا۔ قبل از مسیح بھی جب الیگزینڈر (نام نہاد سکندر اعظم) پنجاب پر حملہ آور ہوا تو اسے راجہ پورس کی فوج کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ راجہ پورس کو شکست ہوئی لیکن الیگزینڈر بھی زخمی ہو کر واپس جانے پر مجبور ہوا اور ان زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گیا۔
ہار جیت جنگ کا حصہ ہوتی ہے لیکن 1849ء تک انگریز بھی پنجاب پر قبضہ نہیں کر سکا تھا۔ اس کو پنجابیوں کی طرف سے ہمیشہ سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب کی انگریز دشمن جنگ و جدل ایک طویل داستان ہے۔ ایک کہانی سے دوسری کہانی جنم لیتی نظر آتی ہے‘ پنجابیوں کے خون سے ایک دیے سے دوسرا دیا روشن ہوا۔ آج کی نئی نسل کے لیے اس کی آگہی ضروری ہے کیونکہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف جنگ کی تاریخ کے یہ صفحات ہماری درسی کتب میں سے پھاڑ کر پھینک دیے گئے ہیں۔ اصلی ہیرو نکال کر جعلی ہیرو کتابوں میں ٹھونس دیے گئے ہیں۔ آخر میں موقع کی مناسبت سے میرے چند اشعار آپ کی نذر:
میرے رنگ محل وچ لہو ڈُلا
رُل گئی تصویر پنجابیاں دی
جدوں قہر دے سورج نے اکھ کھولی
سڑ گئی تقدیر پنجابیاں دی
میرے رانجھے قبراں دے وچ سُتے
مر گئی سی ہیر پنجابیاں دی
میرے بیلے نے لاشاں دے نال اَٹے
دھرتی ہوئی دل گیر پنجابیاں دی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

افتخار احمد سندھو کے مزید کالمز