آپ خود ہی انصاف کیجئے کہ یہ کوئی بات ہوئی کہ یوم آزادی کی شام مری کا مال خلقِ خدا سے بھرا ہواوروہاں سرکش جماعت اوراُس کے لیڈر کے حق میں نعرے لگ جائیں۔ یہ کوئی قرینِ انصاف ہے؟ اور نہ صرف یہ بلکہ ہردلعزیز میاں صاحب کے پوسٹر کے ساتھ نازیبا سلوک کیا جائے ۔ اس سنگین اورمجرمانہ واقعہ پر چیف منسٹرپنجاب نے اپنی شدید برہمی کا اظہار کیااورراولپنڈی پولیس کے سربراہ فوراً حرکت میں آئے اورایس ایچ او مری کو معطل کردیاگیا۔یہ نہ صرف درست اقدام ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور بھی ہونا چاہیے تھا۔
یہ جو ہمارے ساتھ پرابلم لاحق ہو گیا ہے اس کا کوئی علاج نظرنہیں آتا۔ سرکش جماعت کو تائب کرنے کی تمام کوششیں بروئے کار لائی جاچکی ہیں لیکن پتا نہیں کس ڈھیٹ مٹی کی یہ جماعت بنی ہوئی ہے کہ نہ تائب ہو رہی ہے نہ کوئی سبق سیکھ رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تمام حربے استعمال کیے جا چکے ہیں لیکن مقصد حاصل نہیں ہورہا۔ پہلے یہ نوید سنائی جاتی تھی کہ جہانگیرترین اور علیم خان جیسے بڑے لوگ چلے گئے توجماعت سنبھل نہ سکے گی۔ نو مئی کے سیاہ دن کے بعد بہتوں کو جماعت سے دوڑا دیا گیا اورقوم نے ٹی وی پر آکرمخصوص بیان دینے والے روح پرور مناظر بھی دیکھے لیکن ڈھیٹ ہڈی کی جماعت ہے کہ اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔فروری کے انتخابات میں جو ترکیبیں حب الوطنی کے تقاضوں کو سامنے رکھ کرتیار کی جاسکتی تھیں‘ ان کو استعمال میں لایا گیا لیکن عجیب مخلوق ہے کہ پذیرائی بخشی بھی تواسی سرکش جماعت کو۔یہ ناقابلِ فہم بات ہے لیکن اس کا علاج ضروری ہے اور حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ نت نئے علاج کے طریقے سوچے جارہے ہیں۔کوئی نہ کوئی توکام آئے گا۔
ملک کے بدخواہوں کی عجیب منطق ہے کہ سوشل میڈیا کو لگام ڈالتے ہوئے آئی ٹی انڈسٹری کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ملک کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ایسی دلیل دینے والوں سے پوچھا جائے کہ ملکی سلامتی ضروری ہے یا آئی ٹی سیکٹر کی ترقی؟ سوشل میڈیا پر تو توبہ توبہ‘ ایسا ایسا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ الامان الحفیظ۔ معتبر اور باعزت شخصیات کا ریکارڈ لگانااوراس قسم کی دیگر حرکات‘ انہیں دیکھ کر حسِ مزاح تو پھڑکتی ہے لیکن حکومت کی تشویش کا بھی کچھ اندازہ ہوتا ہے کیونکہ اس وقت لگتا تو یوں ہے کہ پوری حکومتِ پاکستان کے سامنے سب سے بڑامسئلہ سوشل میڈیا کو لگام دینا ہے۔ فائروال پتا نہیں کیا چیز ہوتی ہے‘ عظمیٰ بخاری صاحبہ نے تصحیح فرمائی تھی کہ اصل میں یہ فائبروال ہے‘ اور اگر اُنہوں نے یہ کہا ہے تودرست ہی کہا ہوگا لیکن اس سے آئی ٹی انڈسٹری کا ستیاناس ہو جائے روشِ سرکشی اورخوئے بغاوت پر کوئی خاص اثرپڑتا نظر نہیں آتا۔ اس عون علی کھوسہ اور ان جیسوں کو دیکھ لیجئے۔ کچھ دنوں کیلئے کھوسہ اٹھایا گیا تھا‘ اوراس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن سرکاری حرکات کا جس انداز سے یہ لوگ تمسخر اڑاتے ہیں اس سے آگ لگ جانی تو فطری عمل ہے۔ہم ایسے تمسخرکا نشانہ ہوتے تو اگر عون علی کھوسہ کو اٹھاتے تو پھر واپس نہ آنے دیتے۔
ایک اورسازش جو قوم کے خلاف ہونے والی ہے اُس کے بارے ہم خبردار کیے دیتے ہیں۔ یہ جو سرکش جماعت کے قائدنے آکسفورد یونیورسٹی کے چانسلرکے الیکشن لڑنے کا عندیہ دیا ہے‘ یہ نہایت ہی خطرناک چال ہے۔آنریری پوسٹ ہے لیکن عزت اور چرچا تواس کا بہت ہے۔ سرکش لیدڑ کے کاغذات داخل کیے گئے تو ان کے خلاف کوئی کھڑا نہیں ہوسکے گا۔ برطانیہ کے سابق فارن سیکرٹری ولیم ہیگ کے بارے میں سنا جا رہاہے کہ وہ بھی شاید امیدوارہوں‘ ایک اور سابقہ وزیرپیٹرمنڈیلسن کا نام بھی اس زمرے میں لیا جا رہا ہے۔لیکن سرکش لیڈرمیدان میں ہوا تو ہو سکتا ہے اس کے سامنے یہ لوگ نہ ٹھہر سکیں۔ اس طرح لوگ کیا سوچیں گے کہ جو شخص آکسفورڈیونیورسٹی کا چانسلرمنتخب ہو گیا ہے اپنے ملک میں پابندِسلاسل ہے۔ ملک کی خیرخواہی مقصود ہو تواس خطرے کا پہلے سے کچھ سدباب ہونا چاہیے۔ جناب سکندرسلطان راجہ سے مشورہ کیاجاسکتا ہے کہ اس الیکشن کا کیا کیا جائے‘ حالانکہ یہ صورتحال بھی واضح ہے کہ ہمارے ہاں کے انتخابات اوروہاں کے چناؤ کے طریقوں میں کچھ فرق ہوتا ہے۔ پھر بھی بروقت مشورہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
یہاں کا سچ کیا ہے؟ ہم تو اُسی کوسچ مانیں گے جو ہمارے بڑے بتائیں گے۔ ہم نو مئی کی حقیقتوں کے بارے میں اسی طرح سے قائل ہیں جیسے ہمارے بڑے کہہ رہے ہیں۔ سازش ہوئی تھی‘ پلاننگ ہوئی تھی‘ ٹارگٹوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔خواجہ آصف‘ جو دنیا کے مصروف ترین وزیرددفاع ہیں کیونکہ ہرشام کسی ٹی وی چینل پر آئے ہوتے ہیں‘ نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید نے ''ایسا کیا ہوگا‘‘۔نوٹ فرمائیں کہ محترم وزیردفاع نے یہ نہیں کہا کہ اُنہوں نے ایسا کیا‘ بلکہ ایسا کیا ہوگا۔ اسی انداز سے ہم برملا کہتے ہیں کہ سازش اور پلاننگ ضرور ہوئی ہوگی۔ تھوڑا سا پرابلم بس اتنا ہے کہ اس امرکا کوئی واضح ثبوت نہیں مل رہا۔ ہم تو یہ بھی کہنے کو تیار ہیں کہ ایسے خفیہ اجلاسوں کی سی سی ٹی وی ضرور موجود ہوگی۔ لیکن مل نہیں رہی۔ ان حقائق کو سامنے رکھ کر ہم جیسے یہ کہنے پر مجبورہو جاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف یہ بھی ایک سازش لگتی ہے کہ ایسے ثبوت مل نہیں رہے اور اس قسم کی سی سی ٹی وی فوٹیج کہیں گم کر دی گئی ہے۔
مادرِ وطن کے خلاف ایک سازش ہو تو ہم کہیں۔یہاں تو ہرطرف کوئی سازش نظرآتی ہے۔ یہی دیکھ لیجئے کہ ابھی تک فتنہ خوارج پوری طرح قابو میں نہیں آرہا ۔ جھڑپوں اور مقابلوں کی آئے روز خبریں آ رہی ہیں لیکن فتنہ جاری ہے۔گزشتہ روز کی خبر ہے کہ وادیٔ تیراہ میں خوارج کے جنگجو اسلحہ سے لیس گشت کرتے نظرآئے جس سے وہاںخوف کی فضا قائم ہو رہی ہے۔وہاں کے باسی اس بات پر فکر مندہیں کہ اگرسپاۂ فتنہ کی موجودگی ظاہر ہو رہی ہے تواس کاسدباب کیوں نہیں کیاجارہا؟ بلوچستان میں ایک اور فتنہ جاری ہے اور حکام بالا نے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو عناصر گوادرکے حالیہ احتجاج میں ملوث تھے وہ بھی دہشت گردوں کے پراکسی ہیں۔ اس سے حالات کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے‘ حکام بالا کی باتوں سے پتاچلتا ہے کہ مملکت کو فتنوں کے ایک سلسلے کا سامنا ہے۔
ہم جیسوں کو اور تو کچھ سمجھ نہیں آتا بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ خداخیر کرے۔مری میں تو علاج آسان تھا‘ ایس ایچ او کی معطلی۔ لیکن کے پی کے اور بلوچستان میں کیا کیا جائے؟ وہاں کس کو معطل کریں؟ معیشت کی بات آئے وہ الگ رونا ہے۔ہمارے دوست تسنیم نورانی جو اپنے وقتوں میں سیکرٹری داخلہ ہوا کرتے تھے ‘نے کچھ دنوں پہلے مضمون لکھا جس میں کہا کہ سیاسی جماعتوں کو تواس ملک میں فکس کرلیا جاتا ہے لیکن اس انداز سے یہ جو بجلی پیدا کرنے والے آئی پی پیز ہیں انہیں کیوں نہیں فکس کیاجاتا؟نورانی صاحب اتنے بھولے نہیں‘ وہ بھی بات کو سمجھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے شوگرملیں اپنی ہیں‘ آئی پی پیز بھی اپنے ہیں۔یایوں کہیے کہ بڑوں کی بندربانٹ ہے۔ قومی دولت پرڈاکا ڈالنے کے اوربھی بہت طریقے ہیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں آئی پی پیز سے زیادہ خوبصورت طریقہ ایجاد نہیں ہوا۔ آئی پی پیز کے جب پہلے معاہدے ہوئے تو ایک سفارتی تقریب میں زرداری صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ دیکھو یہ ہمارا کیسا کارنامہ ہے۔اورکیا کہتا‘اُن کی دوراندیشی کی داد دی۔