آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ کالموں کے اس سلسلے کا مقصد کسی پر تنقید یا کسی کی تضحیک نہیں‘ بلکہ ملک اور قوم کو موجودہ بے یقینی کی صورتحال سے نکلنے کی کوئی راہ سجھانا ہے۔ ان کمیوں‘ کوتاہیوں‘ ناکامیوں‘ غلط فیصلوں‘ نامناسب رویوں‘ نظریوں اور سوچوں کی نشان دہی کرنا ہے جن کے باعث ہم موجودہ حالت کو پہنچے کہ 'جائے ماندن نہ پائے رفتن‘ کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
بات سیاست اور سیاستدانوں کی ہو رہی تھی۔ ان کے اپنے معاملات نمٹانے اور سنوارنے میں ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ اس وقت عدالتِ عظمیٰ زیادہ تر سیاسی مقدمات نمٹانے میں مصروف نظر آتی ہے۔ یہ مصروفیت اس قدر زیادہ ہے کہ خود سیاستدان ملک میں ایک آئینی عدالت کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ ابھی اگلے روز ہی پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے قرار دیا کہ آئینی عدالت ضروری اور مجبوری ہے‘ اس لیے آئینی عدالت بنا کر رہیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئین سازی اور قانون سازی عدلیہ کے ذریعے نہیں ہو سکتی‘ 19ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ کی دھمکی کی وجہ سے لانا پڑی مگر اب کچھ بھی ہو‘ میثاقِ جمہوریت کے مطابق عدالتی اصلاحات لا کر رہیں گے۔ عدالتی اصلاحات اگر ناگزیر ہیں تو ضرور لائی جانی چاہئیں‘ لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ سیاستدان اور حکمران اپنے سیاسی معاملات سیاسی فورمز پر طے کریں اور اپنے مسائل اور مقدمات عدالت میں کم سے کم لے کر جائیں۔ عدالت سے بار بار رجوع کرنا بھی ظاہر کرتا ہے کہ سیاستدان اپنے سیاسی معاملات سیاسی طور پر طے کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ کیا یہی وجہ نہیں کہ غیرسیاسی قوتوں کو ملکی معاملات اپنے ہاتھوں میں لینا پڑتے ہیں اور بار بار جمہوریت کی گاڑی ڈی ریل ہو جاتی ہے جسے پھر پٹڑی پر چڑھانے کے لیے اضافی کوششیں کرنا پڑتی ہیں۔
بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ میں لکھا ہے ''کسی بھی ملک کی پارلیمان میں سیاستدان عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں کا آپس میں بات کرنا اہم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں سیاستدانوں کے درمیان ایک واضح تقسیم دکھائی دیتی ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنے کو بھی ترجیح نہیں دیتے۔ پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتیں آخر ایک ساتھ کیوں نہیں بیٹھنا چاہتیں؟ سوال یہ ہے کہ کیا اس کی بڑی وجہ ان کے مختلف مفادات ہیں؟ اور کیا سیاسی جماعتوں کو خود کو 'ریلیونٹ‘ رکھنے اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے لیے مقتدرہ کے کندھے کی ضرورت پڑتی ہے؟‘‘
اس سوال کا جواب ہر سیاسی معاملے میں مل جائے گا۔ دور کیا جانا‘ حکومتی اتحاد کی جانب سے آئینی ترامیم کے جاری معاملے کو ہی لے لیں۔ ان آئینی ترامیم کے چند نکات سامنے آئے ہیں اور اب تک کسی کو معلوم نہیں کہ ان ترامیم کا اصل مسودہ ہے کیا اور کہاں ہے۔ ایک طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام مل کر آئینی ترامیم کا مسودہ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف حکمران اتحاد کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو ساتھ ملا کر آئینی ترامیم منظور کرائے گا‘ حالانکہ ابھی چند روز پہلے ہی وہ ایسی ایک کوشش میں ناکام بھی ہو چکا ہے۔ مطلب حکومت آئین میں ایک ترمیم کرنا چاہ رہی ہے‘ اپوزیشن جس کے مخالفت کر رہی ہے‘ جو اس کا حق ہے‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ وہ ایک اور یعنی الگ مسودے پر کام کر رہی ہے۔ یعنی وہ ترمیم کے تو حق میں ہے لیکن حکومتی اتحاد سے ہٹ کر۔ آئینی ترامیم منظور کرانے کے سلسلے میں حکومت کی ایک کوشش ناکام ہو چکی ہے اور وہ ایک بار پھر کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ ہی واضح نہیں ہے کہ یہ ترمیم اچانک اتنی اہم اور ضروری کیسے اور کیوں ہو گئی۔ اس ساری تفصیل میں جانے کا مقصد یہ ہے کہ سیاست میں اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ والا معاملہ چل رہا ہے۔ سب اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں لگے محسوس ہوتے ہیں‘ ملک کی ضروریات کیا ہیں اور عوام کی ان سے کیا توقعات وابستہ ہیں‘ اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ جب معاملات یوں چلیں گے تو ظاہر ہے ایسے قوانین بنیں گے اور ایسی پالیسیاں وضع ہوں گی جو زمینی حقائق کے مطابق نہیں ہوں گی اور جن کا نتیجہ ایسا ہی نکلے گا جیسا نکل رہا ہے کہ بحیثیت ایک قوم اپنی آزادی کے 77سال گزارنے کے باوصف ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور حیرت میں مبتلا یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہاں جائیں‘ کون سا راستہ اختیار کریں۔
ہمارے سیاسی نظام کی ایک قباحت یہ بھی ہے کہ نئی حکومت گزشتہ حکومت کی اختیار کردہ پالیسیوں‘ منصوبوں اور اقدامات کو یکسر تبدیل کرکے اپنی پالیسیاں اور اپنے منصوبے شروع کر دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قومی توانائی اور سرمایہ‘ دونوں ضائع ہوتے ہیں اور قوم تک وہ فائدے نہیں پہنچ سکتے جن کو پیشِ نظر رکھ کر کوئی پالیسی وضع اور منصوبہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو اگر آفاقی سچائی قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ منصوبہ وہی کامیاب ہوتا ہے اور پالیسی وہی بار آور ثابت ہوتی ہے جو تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دوسرے کی مخالفت اور دشمنی میں سیاسی حکومتوں نے کس قدر قومی وسائل ضائع کیے ہوں گے۔
بات وہی کہ جب تک تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز اجتماعی قومی مفادات کے لیے ایک صفحے پر جمع نہیں ہوتے ملک میں سیاست کی بالادستی کے امکانات کو روشن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سیاسی جماعتیں ایکا کریں گی تو ہی جمہوریت کی گاڑی کے ڈی ریل ہونے کے خطرے سے مکمل طور پر اور مستقلاً نجات حاصل کر سکیں گی۔ اس سلسلے میں میثاقِ جمہوریت کی مثال دی جا سکتی ہے۔ یہ معاہدہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین ہوا تھا‘ اور یہ معاہدہ طے پانے کے بعد کی تاریخ بتاتی ہے کہ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی مخالف ہونے کے باوجود مشکل سیاسی وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے کہا تو یہ جاتا ہے کہ یہ حکومت ان پر تھونپی گئی ہے‘ لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ دونوں نے مل کر یہ حکومت بنانے پر رضا مندی پی ٹی آئی کے برسرِ اقتدار آ جانے کے خطرے کو پیشِ نظر رکھ کر ظاہر کی ہو۔ اگر سیاست کو ڈی ریل ہونے کے خطرے سے مستقلاً بچانا ہے تو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ انفرادی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کا خیال رکھنا ہو گا۔ پھر بھارت کی مثال دینا پڑتی ہے۔ سیاسی اختلافات اور مسائل وہاں بھی ہیں۔ یہ اختلافات اُبھر کر سامنے بھی آتے ہیں اور قانون سازی میں رکاوٹ ڈالنے کا باعث بھی بنتے ہیں لیکن جب بات آتی ہے جمہوریت کی بقا کی تو سب متحد ہو جاتے ہیں۔ سیاست انتظار مانگتی ہے‘ بھارتی سیاست انتظار کر سکتی ہے‘ اور کرتی ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر کوئی بھی کسی حکومت کا راستہ کھوٹا نہیں کرتا۔