پچھلے ہفتے اپنے پروگرا م کی ریکارڈنگز کے سلسلے میں تین دن اسلام آباد میں گزرے۔ اس دوران کوشش تھی کہ پارلیمنٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کے سلسلے میں جو کوششیں اور سرگرمیاں ہو رہی ہیں ان کی لائیو کوریج کی جائے۔ یہ کوشش خاصی کامیاب رہی۔
اسلام آباد وہی تھا‘ ویسا ہی تھا جیسا گزشتہ وزٹ پر چھوڑ کر گیا تھا۔ وہی کشادہ سڑکیں‘ وہی رونق‘ وہی روشنیاں‘ وہی محفلیں‘ وہی رنگ وآہنگ‘ وہی تیز رفتار زندگی‘ لیکن اس بار وفاقی دارالحکومت اس حوالے سے مختلف نظر آیا کہ سیاسی گہما گہمی فزوں تر تھی اور وجہ تھی (جیسا کہ درج بالا سطور میں عرض کیا) حکومت اور اس کے اتحادیوں کی 26ویں آئینی ترمیم‘ جس کے لیے کم و بیش ڈیڑھ ماہ سے تگ و دو ہو رہی تھی‘ لیکن اتنی طویل اور مسلسل کوششوں کے باوجود نمبرز گیم کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں رہا تھا۔ گزشتہ ماہ 16 ستمبر کو حکومت نے اسی مقصد کے تحت پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا لیکن آئین میں 26ویں ترمیم کے حوالے سے اتفاقِ رائے نہ ہونے اور حکومت کو درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے پر قومی اسمبلی کا اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اس کے بعد آئینی ترمیم پر مشاورت کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں تمام جماعتوں کے نمائندے شامل تھے اور اس دوران حکومت مولانا فضل الرحمن سمیت ساری اپوزیشن کو منانے کے لیے تگ و دو کرتی رہی۔ چند روز پہلے اسی خصوصی کمیٹی میں آئینی ترمیم کے مسودے پر اتفاقِ رائے ہونے کی خبر سامنے آئی۔
پارلیمنٹ میں حکومت اپنے اتحادیوں کے ساتھ اکثریت میں ہے لیکن یہ اکثریت دو تہائی سے کچھ کم ہے جبکہ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت ضروری ہوتی ہے۔ یہ خفیف سی کمی مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام (ف) پوری کر سکتی تھی‘ لیکن مولانا مجوزہ آئینی ترمیم کے مسودے پر معترض تھے۔ چند روز پہلے تک مولانا اس آئینی ترمیم کے لیے حکومت کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھے‘ مگر پھر اچانک یہ خبر سامنے آئی کہ آئینی ترمیم کے مسودے پر مولانا اتحادی حکومت کے ہم خیال ہو گئے ہیں‘ یعنی سارے اعتراضات ختم ہو گئے ہیں۔ یہ خبر یا خوش خبری پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور آئینی ترمیم پر مشاورت کے لیے قائم خصوصی کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید شاہ نے سنائی اور دعویٰ کیا کہ آئینی ترمیم کے مسودے کو اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے ہیں لیکن اس پر اتفاقِ رائے پیدا ہو جائے تو زیادہ اچھا ہے کیونکہ مستقبل میں اس کی افادیت زیادہ ہو گی‘ تاہم اتفاقِ رائے نہ بھی ہوا تو حکومت کے نمبرز پورے ہیں۔
نمبرز پورے ہونے کے باوجود حکمرانوں کی بار بار مولانا سے ہونے والی ملاقاتوں اور انہیں آئینی ترمیم پر راضی کرنے کی کوششوں کے بارے میں پھر کیا کہا جائے؟ کیا حکومت اور اس کے اتحادی اکیلے اس آئینی ترمیم کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھے اور چاہتے تھے کہ اپوزیشن بھی اس معاملے میں ان کا ساتھ دے یا کچھ اور معاملات تھے؟
بہرکیف‘ تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد اس کے اثرات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کر دی ہے‘ جس کے بعد وزارتِ قانون نے ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ ان کی تعیناتی 26اکتوبر سے تین سال کے لیے کی گئی ہے یعنی وہ 25 اکتوبر 2027ء تک پاکستان کے چیف جسٹس کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہیں گے۔ ایک خبر کے مطابق پاکستان کی مختلف بار کونسلز نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس تقرری کو خوش آئند قرار دے دیا ہے۔ سندھ‘ لاہور‘ خیبر پختونخوا‘ بہاولپور اور اسلام آباد بار کونسلز نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کا خیر مقدم کیا ہے۔
یہ تعیناتی ایسے ہی نہیں ہو گئی۔ یہ منظوری خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے دی۔ 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے بند کمرہ اجلاس میں چیف جسٹس کی تقرری کے لیے سیکرٹری قانون کے بھیجے گئے ججز کے تین نام پیش کیے گئے۔ سیکرٹری قانون نے تین سینئر ترین ججوں کے ناموں کا پینل کمیٹی کو بھجوایا تھا جن میں جسٹس منصور علی شاہ‘ جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام شامل تھے۔ کمیٹی نے مشاورت کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی کا نام فائنل کیا اور اب وہی پاکستان کے اگلے چیف جسٹس ہوں گے۔
آئینی ترمیم منظور ہو گئی اور اس کے تحت اقدامات بھی ہونے لگے ہیں اور حکومت نے اپنی منشا پوری کر لی ہے تو کیا خیال ہے ملک کے سیاسی معاملات کے درجہ حرارت میں کچھ کمی واقع ہو گی؟ معاملات کچھ سیدھے ہو جائیں گے؟ میرے خیال میں اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ یہ ترمیم منظور کرانے کے بعد حکمران مطمئن ہو گئے ہیں؟ اگر مطمئن ہیں تو اس کے مثبت اثرات اور نتائج سامنے آئیں گے‘ اگر کسی نئی سوچ نے جنم نہ لے لیا اور اگر کسی نئی ترمیم کی ضرورت نہ پیش آ گئی۔ علاوہ ازیں ججز کو سپر سیڈ کرکے کسی جونیئر جج کو آگے لانے کا اقدام پہلی بار کیا گیا ہے۔ اس کے اثرات کا بھی وقت کے ساتھ ہی پتا چلے گا۔ چیف جسٹس کی تین سال مدت والا معاملہ بھی وقت کے ساتھ اپنے نتائج دکھائے گا۔
ہمارے ہاں حکمران خود کو محفوظ بنانے اور اپنی پالیسیاں آگے بڑھانے کے لیے قوانین بناتے رہے ہیں‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی حکومت کی میعاد پانچ سال ہوتی ہے (یہاں تو یہ انوکھا ریکارڈ بھی موجود ہے کہ کسی منتخب وزیراعظم نے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کی) اور اس کے بعد اسے تبدیل ہونا ہوتا ہے یا پھر الیکشن میں جا کر نئے سرے سے خود کو احتساب کے لیے عوام کے سامنے پیش کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ تو انتخابی روایت ہے کہ عوام اگر کسی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہوں تو پھر اسے جانا ہی پڑتا ہے اور اس کی جگہ نئے حکمران اپنی نئی پالیسیوں کے ساتھ آتے ہیں۔ ایسا ہو تو دو طرح کے معاملات سامنے آتے ہیں۔ پہلا: نئے حکمران اپنی ضرورت کے مطابق قوانین کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالتے ہیں۔ دوسرا: نئے حکمرانوں کو بھی قانون میں کی گئی کسی تبدیلی کی وجہ سے وہ Incentives حاصل ہو جاتے ہیں‘ جن کے حصول کے لیے پچھلی کسی حکومت نے آئین میں ترامیم کی ہوتی ہیں۔ انتخابات کے بعد اکثر یہ بھی مشاہدے میں آتا ہے کہ پچھلے حکمران اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے ہوتے ہیں اور ماضی قریب میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والے آج کے حکمران ہو جاتے ہیں۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ کسی حکومت کے ماضی میں بنائے گئے قوانین مستقبل میں اسی کے خلاف استعمال ہونے لگتے ہیں۔ پہلے بھی کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ نیب جیسا ادارہ اور نیب جیسے قوانین بنانے والے خود ہی ایسے اداروں اور قوانین کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔
اس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ نئے قوانین بننے چاہئیں اور حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ان میں تبدیلیاں بھی ہونی چاہئیں‘ لیکن یہ تبدیلیاں انفرادی کے بجائے اجتماعی مفادات پر مبنی ہونی چاہئیں۔ ایسا ہو جائے تو نہ کسی انتظار کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی نمبرز گیم پوری کرنے کے لیے کوئی رکاوٹ باقی رہے گی۔ بہر حال آئینی ترمیم کا معاملہ تکمیل پذیر ہوا‘ اب آگے بڑھنا چاہیے‘ کچھ عوام کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ مہنگائی‘ بھاری ٹیکسوں اور آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے جن کی کمر دہری ہوتی جا رہی ہے۔