27ویں آئینی ترمیم منظور کر لی گئی ہے اور صدرِ مملکت کے دستخطوں کے ساتھ یہ آئین کا حصہ بن رہی ہے۔ فی الوقت ہم اس بات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں کہ اس ترمیم کے تحت آئین کی کون سی شقوں میں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس ترمیم کے آنے والے وقت میں کیا اثرات و نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ ہم اس سے کچھ پہلے کے ایک معاملے کو تھوڑا سا کھنگالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ حکومت کو 26ویں آئینی ترمیم کے بعد 27ویں آئینی ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی‘ اور آٹھ اپریل 2010ء کو منظور کی گئی آئین کی اٹھارہویں ترمیم‘ جو نہایت طویل صلاح مشورے اور غور و خوض کے بعد مرتب کی گئی تھی‘ کے بعد کون سے معاملات ہیں جن کی وجہ سے بعد ازاں وہی سیاسی پارٹیاں مسائل اور مشکلات محسوس کرتی رہیں جنہوں نے اٹھارہویں ترمیم مرتب کی‘ اور پھر پاس بھی کرائی۔ پچھلے دنوں جب اچانک 27ویں آئینی ترمیم کا شور اٹھا تو یہ بات بھی کہیں سنائی دی کہ 27ویں آئینی ترمیم کے تحت اٹھارہویں آئینی ترمیم کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتیں خود کو کٹھنائی میں محسوس کرتی ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ نہایت غور و خوض اور طویل ترین مشاورت کے بعد منظور کی گئی ترمیم کی وجہ سے بھی اگر گورننس کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تو پھر ان ترمیموں اور ان بلوں کے کیا نتائج مرتب ہو سکتے ہیں جو چند منٹوں میں پیش کی اور منظور کرائی جاتی رہی ہیں؟
میری ذاتی رائے یہ ہے کہ 1973ء کا آئین نہایت عرق ریزی سے مرتب اور پھر نافذ کیا گیا۔ یہ انسان کی وضع کردہ ایک دستاویز ہے جو ظاہر ہے کہ کسی آسمانی صحیفے کی طرح مکمل اور پرفیکٹ نہیں ہو سکتی اور انسان کی مرتب کردہ دستاویزات میں وقت کے ساتھ تبدیلی یا ترمیم ناگزیر بھی ہو جاتی ہے‘ لیکن آئین میں بار بار ترامیم کی ضرورت کیا اس لیے پیش آ رہی ہے کہ جو بھی ترمیم کی جاتی ہے اس کے نتائج و عواقب پر غالباً پوری طرح غور نہیں کیا جاتا۔ آئین میں بہت سی ترامیم یہاں برسر اقتدار آنے والے غیرجمہوری حکمرانوں کی جانب سے اپنے اقتدار کو طوالت اور استحکام دینے کے لیے بھی کی جاتی رہی ہیں اور پھر بعد میں جب سول یا جمہوری حکومت قائم ہوتی رہی تو ان ترامیم کو ختم کرنے کے لیے نئی ترامیم لائی جاتی رہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن جمہوری حکمرانوں کی اپنی ہی لائی ہوئی ترامیم کے نتائج جب مناسب نہیں نکلتے یعنی ان کی اپنی ترامیم ان کی اپنی توقعات پر پورا نہیں اترتیں تو پھر وہ نئی ترامیم لانے کے بارے میں سوچنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ سلسلہ پھر دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔
میں یہاں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا‘ جب اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تو اس میں جہاں وفاق کے بہت سے شعبے صوبوں کے حوالے کیے گئے اور کنکرنٹ لسٹ (Concurrent List)کا خاتمہ کیا گیا وہیں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ بھی بڑھا دیا گیا‘ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے نتیجے میں وفاق کی جو ذمہ داریاں (Liabilities) ہیں وہ کیسے پوری ہو سکیں گی؟ اور پھر وہی ہوا کہ بعد میں آنے والی حکومتوں نے یہ شکوہ کرنا شروع کر دیا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کو زیادہ حصہ مل جاتا ہے جبکہ وفاق کے پاس کم حصہ بچتا ہے‘ اور مرکز کے لیے حکومتی معاملات چلانا اور ملکی و غیر ملکی قرضوں کو نمٹانا مشکل ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سارے معاملے کا اس وقت کیوں خیال نہیں رکھا گیا جب رکھا جانا چاہیے تھا؟ کیوں یہ نہیں سوچا گیا کہ صوبوں کا حصہ بڑھا کر وفاق کے پاس کیا بچے گا اور وہ اپنی ذمہ داریاں کیسے پوری کرے گا؟ شاید یہی وجہ ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے کچھ عرصے بعد اس کے خاتمے کے بارے میں بازگشت سنائی دینے لگی۔ یاد رہے کہ آٹھ اپریل 2010ء کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے قومی اسمبلی سے 18ویں ترمیم منظور کرائی جس کے تحت اس وقت صدر کے پاس جو اختیارات موجود تھے ان میں سے زیادہ تر ایگزیکٹو اختیارات پارلیمان کو دے دیے گئے تھے۔ یوں لیڈر آف دی اپوزیشن کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کو اور بھی زیادہ اختیارات کا مالک بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ جیسا کہ درج بالا سطور میں عرض کیا‘ وفاق سے زیادہ تر اختیارات لے کر صوبوں کو دیے گئے۔ سیاسی جماعتوں اور منتخب حکومتوں کو زیادہ بااختیار بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس ترمیم کے تحت 1973ء کے آئین میں کم و بیش 100کے قریب تبدیلیاں کی گئیں جو آئین کے 83آرٹیکلز پر اثر انداز ہوئیں۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں کی گئیں زیادہ تر ترامیم کو ختم کر دیا گیا۔ انہوں نے آٹھویں ترمیم کے تحت 1973ء کے آئین میں 90سے زیادہ آرٹیکلز کو تبدیل کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں کی گئی 17ویں آئینی ترمیم کے تحت ہونے والی تبدیلیوں کو بھی 18ویں ترمیم کے ذریعے قریباً ختم کر دیا گیا تھا۔ پھر مسئلہ کب اور کہاں پیدا ہوا؟
گمان یہ ہے کہ آئین میں بار بار ترمیم کی ضرورت صرف اس لیے پیش آ رہی ہے کہ پہلے پیش کردہ ترامیم منظور کرنے سے پہلے ان پر شاید اتنا غور و خوض نہیں کیا گیا‘ معاملات پر اتنی گہری نظر نہیں رکھی گئی جتنی گہری نظر رکھنے کی ضرورت تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم ابھی پوری طرح منظور نہیں ہوئی کہ 28ویں آئینی ترمیم کے بارے میں خبریں گردش کرنا شروع ہو گئی ہیں۔ 28ویں آئینی ترمیم کیا ہو گی اور کب آئے گی‘ اس کے بارے میں تو اسی وقت بات ہو سکے گی جب یہ آئے گی‘ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو قانون سازی ہو رہی ہے وہ کتنی جمہوری تقاضوں کے مطابق ہے؟
جب ہم انگریزی ڈکشنریوں کا جائزہ لیں تو ایک قانون ساز کی یہ تعریف سامنے آتی ہے:
Effective legislator qualities include strong communication, negotiation, and effective skills, as well as a commitment to public service and a deep understanding of community issues and policy-making. They must be able to communicate clearly, work with others, listen to their constituents, and understand processes like budgeting and lawmaking.
یعنی ایک اچھے قانون ساز کی خصوصیات یہ ہیں کہ وہ کمیونیکیشن اور ٹھوس بات چیت کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے اور اس میں سیاسی مہارت ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں وہ عوام کی خدمت کو اپنا شعار سمجھتا ہے اور پالیسی سازی اور کمیونٹی کے مسائل کا گہرا ادراک رکھتا ہے۔ ایک اچھا قانون ساز وہ ہوتا ہے کہ جو اپنے حلقے کے لوگوں کی بات سنتا اور سمجھتا ہو اور جو بجٹ سازی اور قانون سازی کے رموز سے پوری طرح آگاہ اور واقف ہو۔ اس سارے تناظر میں ہمارا ملک کہاں کھڑا ہے اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیں۔